Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 71
قَالَ هٰۤؤُلَآءِ بَنٰتِیْۤ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَؕ
قَالَ : اس نے کہا هٰٓؤُلَآءِ : یہ بَنٰتِيْٓ : میری بیٹیاں اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو فٰعِلِيْنَ : کرنیوالے (کرنا ہے)
حضرت لوط نے کہا کہ اگر تم کچھ کرنے ہی پر تلے ہوئے ہو تو یہ میری بیٹیاں ہیں۔
قَالَ ھٰٓؤْلَآئِ بَنٰتِیْ ٓ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ ۔ (سورۃ الحجر : 71) (حضرت لوط نے کہا کہ اگر تم کچھ کرنے ہی پر تلے ہوئے ہو تو یہ میری بیٹیاں ہیں۔ ) نازک جذبات کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش ان کی اخلاقی حس کو بیدار کرنے کے لیے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ایک ایسی بات کہی جو وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کا دل بری طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہو جو ایک طرف مہمانوں کی حرمت کو بچانے کی فکر میں ہو اور دوسری طرف اپنی قوم کے اخلاقی زوال کے انجام کو دیکھ رہا ہو۔ ان کے اس ارشاد کا مطلب یہ نہیں تھا کہ تم اگر اپنے سفلی جذبات کے ہاتھوں ایسے ہی بےقابو ہوئے جاتے ہو تو میری بیٹیوں سے یہ آگ بجھالو، بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ جو کچھ تم کرنا چاہتے ہو وہ اس قدر برا ہے کہ ایک غیرت مند باپ اپنی بیٹیاں پیش کرکے بھی اگر اسے روک سکے تو اسے ایسا کر گزرنا چاہیے۔ یہ ان کی اخلاقی حس کو بیدار کرنے کے لیے ایک آخری کوشش تھی۔ لیکن انھوں نے صاف کہا کہ لوط تم جانتے ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہمیں تمہاری بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں کیونکہ ہماری دلچسپیاں لڑکوں سے ہیں، لڑکیوں سے نہیں۔ آج سے نصف صدی پیشتر کا انسان جب اس واقعہ کو پڑھتا ہوگا تو اس کے لیے قوم لوط کی انتہائی گری ہوئی اخلاقی حالت کو دیکھ کر صرف دکھ ہی نہیں ہوتا ہوگا بلکہ حیرت بھی ہوتی ہوگی کہ کیا کوئی قوم اس حد تک بھی گر سکتی ہے، لیکن آج مغرب کی روشن خیالی نے دنیا کو جو دن دکھائے ہیں ان میں پوری روشنی میں جابجا ” گے سٹائل آف لائف “ (Gay style of life) نظر آرہا ہے۔ ان کے قانونی ادارے اس کو قانونی تحفظ دے چکے ہیں، ان کا لٹریچر اسے اپنے دامن میں جگہ دے چکا ہے۔ ان کی عائلی زندگی میں اسے ایک پیوند کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ ان کے بڑے بڑے معزز اداروں کے سربراہ تک اس ذلیل ترین عادت کا شکار ہوچکے ہیں۔ اور وہاں اسے کوئی ذلت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ قومِ لوط اگر دو خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر بےلگام ہوگئی تو کیا ہمارے تفریحی اداروں میں ان کے تفریحی پروگراموں کے دوران حملوں کا ہونا اور تفریحی کردار ادا کرنے والی خواتین کو اٹھا کرلے جانے کی کوشش کرنا کہاں اچنبھے کی بات سمجھی جاتی ہے۔ آج انسان اپنے اخلاقی بگاڑ میں مہذب قوموں کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے لیکن افسوس کہ ان سے روکنے والا کوئی لوط موجود نہیں۔ اور حضرت لوط جس اخلاقی قوت کے نمائندہ تھے وہ روز بروز کمزور پڑتی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک یہ ذمہ داری سونپی تھی لیکن عالم اسلام کے بیشتر حکمران اور ہمارا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ رفتہ رفتہ اس دلدل میں ڈوبتا جارہا ہے۔
Top