Al-Quran-al-Kareem - Al-Furqaan : 29
لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ١ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا
لَقَدْ اَضَلَّنِيْ : البتہ اس نے مجھے بہکایا عَنِ الذِّكْرِ : نصیحت سے بَعْدَ اِذْ : اس کے بعد جب جَآءَنِيْ : میرے پاس پہنچ گئی وَكَانَ : اور ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِلْاِنْسَانِ : انسان کو خَذُوْلًا : کھلا چھوڑ جانے والا
بیشک اس نے تو مجھے نصیحت سے گمراہ کردیا، اس کے بعد کہ میرے پاس آئی اور شیطان ہمیشہ انسان کو چھوڑ جانے والا ہے۔
لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ : اس میں اس تمنا کی وجہ بیان کی ہے کہ کاش ! میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ وہ یہ کہ میرے پاس (الذِّكْرِ) کامل نصیحت آئی، مگر اس دوست نے مجھے اس کو قبول کرنے سے بےراہ کردیا۔ ”اَلذِّکْر“ سے مراد کے لیے دیکھیے سورة حجر (6، 9)۔ وَكَان الشَّيْطٰنُ۔۔ : ”الشَّيْطٰنُ“ ”شَطْنٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی دوری بھی ہے اور خباثت بھی۔ شیطان ہر وہ خبیث شخص ہے جو حق سے دور ہو، خواہ انسان ہو یا جن، کیونکہ شیطان دونوں ہی میں پائے جاتے ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (112) ”خَذُوْلًا“ چھوڑ جانے والا، ”کَانَ“ کی وجہ سے ”ہمیشہ چھوڑ جانے والا“ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی شیطان آدمی کو پہلے برے کام کی ترغیب دیتا ہے، جب آدمی وہ کام کرلیتا ہے اور مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے تو اس کو چھوڑ کر الگ ہوجاتا ہے۔ دیکھیے سورة ابراہیم (21، 22) رہے دوست، تو قیامت کے دن متقی دوستوں کے سوا سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ دیکھیے سورة زخرف (67)۔
Top