Tafseer-e-Majidi - Al-Furqaan : 29
لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ١ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا
لَقَدْ اَضَلَّنِيْ : البتہ اس نے مجھے بہکایا عَنِ الذِّكْرِ : نصیحت سے بَعْدَ اِذْ : اس کے بعد جب جَآءَنِيْ : میرے پاس پہنچ گئی وَكَانَ : اور ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِلْاِنْسَانِ : انسان کو خَذُوْلًا : کھلا چھوڑ جانے والا
یقیناً اس نے نصیحت آئے پیچھے مجھے اس سے بہکا دیا اور شیطان تو انسان کو امداد کرنے سے جواب دے ہی دیتا ہے،31۔
31۔ (چنانچہ قیامت میں زبانی ہمدردی تک کے بھی کام نہ آئے گا) (آیت) ” یویلتی لیتنی “۔ الخ۔ بڑا عبرت کا مضمون اپنے اندر رکھتا ہے۔ دنیا میں جتنی بھی گمراہیاں آتی ہیں کسی نہ کسی انسانی ہی ذریعہ سے آتی ہیں اور شیطان جب آتا ہے، کسی دوست وآشنا راز دان ہی کے قالب میں آتا ہے۔ فقہاء نے اس آیت سے بہ طور اشارۃ النص نکالا ہے کہ صحبت بد کا ترک واجب ہے۔ خصوصا اس شخص کا جو اغوا کرتا رہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں صحبت اشرار سے بچنے کی تعلیم ہے اور شریر کی تفسیر یہ ہے کہ جو کوئی ذکر الہی سے بعید ہونے کا سبب بن جائے۔ (آیت) ” لقد ...... جآءنی “۔ آیت میں صاف اشارہ اس طرف موجود ہے کہ جن کافروں پر مؤاخذہ کا ذکر ہے، یہ وہی ہیں جنہوں نے تبلیغ کے بعد اور تبلیغ کے باوجود کفر اختیار کیا۔
Top