Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 29
لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ١ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا
لَقَدْ اَضَلَّنِيْ : البتہ اس نے مجھے بہکایا عَنِ الذِّكْرِ : نصیحت سے بَعْدَ اِذْ : اس کے بعد جب جَآءَنِيْ : میرے پاس پہنچ گئی وَكَانَ : اور ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان لِلْاِنْسَانِ : انسان کو خَذُوْلًا : کھلا چھوڑ جانے والا
البتہ اس نے مجھے اس کے بعد ذکر سے ہٹا دیا جب کہ میرے پاس ذکر آگیا تھا اور شیطان انسان کو بےیارو مددگار چھوڑنے والا ہے،
(لَقَدْ اَضَلَّنِی عَنْ الذِّکْرِ بَعْدَ اِِذْ جَاءَنِی) (مجھے اللہ کے ذکر سے اس نے ہٹا دیا اس کے بعد کہ ذکر میرے پاس آگیا (یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے واسطہ سے جو میرے پاس اللہ کا ذکر آیا اور جو رسول اللہ ﷺ نے مجھے نصیحت کی اور ان پر جو قرآن نازل ہوا وہ میں نے سنا میرے اس دوست نے مجھے اس سے روک دیا میں اسے دوست سمجھتا تھا لیکن وہ تو دشمن نکلا) ۔ (وَکَان الشَّیْطَانُ لِلْاِِنسَانِ خَذُولًا) (اور شیطان انسان کو بےیارو مددگار چھوڑنے والا ہے) اس جملہ میں دونوں احتمال ہیں۔ (1) یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو جس میں علی الا طلاق سب کو یہ بتادیا کہ شیطان سے دوستی کرنے کا انجام برا ہے خواہ کفر شرک اختیار کر کے اس کی دوستی اختیار کی جائے خواہ اس کے مشورہ سے معصیت کی زندگی اختیار کی جائے ہر حال میں شیطان دھوکہ دے گا اور عین ایسے وقت پر بےیارو مددگار چھوڑ کر علیحدہ ہوجائے گا جب مدد کی ضرورت ہوگی (2) یہ احتمال بھی ہے کہ مذکورہ جملہ ظالم ہی کے کلام کا تتمہ ہو۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ ظالم سے مطلق کافر اور فلانا سے شیطان مراد ہے یہ پہلی بات کے معارض نہیں ہے سبب نزول چاہے خواہ خاص ہو الفاظ کا عموم چاہتا ہے کہ ہر کافر کہے گا کہ میں گمراہ کرنے والوں کو دوست نہ بناتا تو اچھا ہوتا۔
Top