Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-Baqara : 245
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً١ؕ وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ١۪ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
مَنْ
: کون
ذَا
: وہ
الَّذِيْ
: جو کہ
يُقْرِضُ
: قرض دے
اللّٰهَ
: اللہ
قَرْضًا
: قرض
حَسَنًا
: اچھا
فَيُضٰعِفَهٗ
: پس وہ اسے بڑھا دے
لَهٗٓ
: اس کے لیے
اَضْعَافًا
: کئی گنا
كَثِيْرَةً
: زیادہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَقْبِضُ
: تنگی کرتا ہے
وَيَبْصُۜطُ
: اور فراخی کرتا ہے
وَاِلَيْهِ
: اور اس کی طرف
تُرْجَعُوْنَ
: تم لوٹائے جاؤگے
کوئی ہے کہ خدا کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے میں اس کو کئی حصے زیادہ دے گا ؟ اور خدا ہی روزی کو تنگ کرتا اور (وہی اسے) کشادہ کرتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے
آیت نمبر : 245۔ اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ (آیت) ” من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا “۔ جب اللہ تعالیٰ نے حق کی راہ پر جہاد اور قتال کرنے کا حکم ارشاد فرمایا کیونکہ شریعت میں سے کوئی شے (حکم) نہیں ہے مگر اس کی حفاظت اور اس کے دفاع میں قتال جائز ہوتا ہے اور ان میں عظیم تر دین اسلام ہے جیسا کہ امام مالک نے کہا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں (اپنا مال) خرچ کرنے پر برانگیختہ کیا، پس اس خبر میں اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جنگ کرنے والا بھی داخل ہے (اور لشکر کی تیاری میں سامان خرچ کرنے والا بھی) کیونکہ وہ بھی ثواب کی امید پر یہ مال دیتا ہے جیسا کہ حضرت عثمان غنی ؓ نے جیش عسرہ (غزوہ تبوک) میں کیا (1) (سنن ترمذی، باب فی مناقب عثمان بن عفان، حدیث نمبر 3633، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور من مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور ذا اس کی خبر ہے، اور الذی اس کی صفت ہے اور اگر چاہے تو بدل بنا لے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو الدحداح ؓ نے اپنے رب سے سے ثواب چاہتے ہوئے اپنا مال صدقہ کرنے بہت تیزی اور جلدی کی، ہمیں شیخ الفقہ، امام محدث، قاضی ابو عامر یحییٰ بن عامر بن احمد بن منیع الاشعری نسبا ومذہبا، قرطئبہ میں۔ اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ لوٹائے، ربیع الثانی 228 ھ میں میری طرف سے ان پر قرات کے دوران انہوں نے خبر دی اور کہا : ہمیں ابو اجازہ نے خبر دی، فرمایا : میں نے ابو عبداللہ بن سعدون سے سماع کرتے ہوئے ابوبکر عبدالعزیز بن خلف بن مدین الازدی پر پڑھا، اس نے کہا : ہمیں ابوالحسن علی بن مہران نے بیان کیا اور کہا : ہمیں ابو الحسن محمد بن عبداللہ ابن زکریا بن حیوہ النیشاپوری (متوفی) 366 ھ نے بیان کیا اور کہا ہمیں میرے چچا ابو زکریا یحی ابن زکریا نے خبر دی اور کہا : ہمیں محمد بن معاویہ بن صالح نے بتایا کہ ہمیں خلف بن خلیفہ نے حمید الاعرج عن عبداللہ بن الحارث عن عبداللہ بن مسعود ؓ کی سند سے حدیث بیان کی ہے، انہوں نے کہا : جب یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا “۔ تو حضرت ابوالدحداح ؓ نے عرض کی ؛ یا رسول اللہ ﷺ کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض کا ارادہ فرما رہا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اے ابوالدحداح، تو انہوں نے عرض کی، اپنا دست مبارک مجھے دکھائیں اور پھر آپ نے اسے دراز کیا، تو انہوں نے عرض کی ،: بلاشبہ میں نے اللہ تعالیٰ کو وہ باغ بطور قرض دے دیا جس میں چھ سو کھجور کے درخت ہیں پھر چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ اس باغ کے پاس آگئے اور ام دحداح اپنے بچوں سمیت اس میں تھی، تو آپ نے اسے آواز دی : اے ام دحداح ! اس نے کہا : لبیک (میں حاضر ہوں) آپ نے فرمایا : تو باہر نکل آ، میں نے اپنا وہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے (2) (شعب الایمان، جلد 3، صفحہ 250، دارالکتب العلمیہ) جس میں چھ سو درخت ہیں۔ اور حضرت زید بن اسلم ؓ نے بیان کیا ہے : جب یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا “۔ تو حضرت ابو الدحداح نے عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں، یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرما رہا ہے، حالانکہ وہ تو قرض سے غنی اور بےنیاز ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں وہ تمہیں اس کے عوض جنت میں داخل فرمانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ “ تو انہوں نے عرض کی : بلاشبہ اگر میں اپنے رب کو قرض پیش کر دوں تو وہ اس کے عوض میرا ضامن ہوجائے گا اور میری بچی الدحداحہ کو بھی میرے ساتھ جنت میں پہنچا دے گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں “ تو انہوں نے عرض کی پھر اپنا ہاتھ مجھے دیجئے پس رسول اللہ ﷺ نے اپنا ہاتھ انہیں دیا تو انہوں نے کہا : بلاشبہ میرے دو باغ ہیں ان میں سے ایک سافلہ (نچلی زمین) میں ہے اور دوسرا عالیہ (بلند زمین) میں، قسم بخدا میں ان کے سوا کسی شے کا مالک نہیں ہوں، تحقیق میں نے وہ دونوں باغ اللہ تعالیٰ کو قرض دے دیے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تو ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے لئے دیدے اور دوسرے کو اپنے اپنے بال بچوں کی گزر اوقات کے لئے رکھ لے۔ “ انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں آپ کو گواہ بنا کرلیتا ہوں : میں نے ان میں سے زیادہ اچھا اور بہتر اللہ تعالیٰ کے لئے دیدیا اور وہ وہ باغ ہے جس میں چھ سو درخت ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تب اللہ تعالیٰ اس کے عوض تجھے جنت کی جزا عطا فرمائے گا ، “ پھر ابو الدحداح ؓ چل پڑے یہاں تک کہ ام الدحداح کے پاس آپہنچے اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ باغ میں درختوں کے نیچے گھوم پھر رہی تھی تو آپ کہنے لگے : ھداک ربی سبل الرشاد الی سبیل الخیر والسداد : بینی من الحائط بالوداد فقد مضی قرضا الی التناد : اقرضتہ اللہ علی اعتمادی بالطوع لا من ولا ارتداد : الا رجاء الضعف فی المعاد فارتحلی بالنفس والاولاد : والبر لا شک فخیر زاد قدمہ المرء الی المعاد : تو ام الدحداح نے کہا : تو نے نفع بخش سودا کیا ہے اللہ تعالیٰ تجھے اس میں برکت عطا فرمائے جو تو نے خریدا ہے، پھر ام الدحداح نے آپ کو جواب دیا اس طرح کہا : بشرک اللہ بخیر وفرح مثلک ادی مالدیہ ونصح : قدمتع اللہ عیالی ومنح بالعجوۃ السوداء والزھوالبلح : والعبد یسعی ولہ ماقد کدح طول اللیالی وعلیہ ما اجترح : پھر ام الدحداح اپنے بچوں کے پاس آئی، جو کچھ ان کے مونہوں میں تھا اسے نکالنے لگی اور جوان کے پاس خوشوں میں تھا اسے بھی جھاڑ دیا یہاں تک کہ وہ دوسرے باغ میں منتقل ہوگئی اور حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” کتنے ہی پھلوں سے لدے ہوئے بھاری بھر کم درخت اور وسیع گھر ابو الدحداح کے لئے ہیں “۔ (1) (شعب الایمان، جلد 3، صفحہ 250، دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (2) ابن عربی نے کہا ہے : مخلوق خالق کے حکم، اس کی حکمت، اس کی قدرت، اس کی مشیت اور اس کی قضا وقدر کے مطابق تقسیم ہوگئی جب انہوں نے یہ آیت سنی پس وہ تینوں حصوں میں بٹ گئے۔ پہلا گروہ انتہائی کمینہ اور رذیل ہے۔ انہوں نے کہا : بیشک محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب فقیر اور ہمارا محتاج ہے اور ہم غنی ہیں، پس یہ ایسی جہالت ہے جو کسی بھی صاحب عقل پر مخفی نہیں، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول سے ان کا رد کیا : (آیت) ” لقد سمع اللہ قول الذین قالوا ان اللہ فقیر ونحن اغنیآء۔ (آل عمران : 181) اور دوسرا گروہ وہ ہے کہ جب اس نے یہ قول سنا تو اس نے بخل اور کنجوسی کو ترجیح دی اور مال میں رغبت کو مقدم سمجھا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کچھ خرچ نہ کیا، نہ انہوں نے کسی قیدی کو چھڑایا اور نہ کسی کی معاونت کی، اطاعت وپیروی سے سستی اور کوتاہی کرتے ہوئے اور اس دنیا کی طرف میلان رکھتے ہوئے۔ اور تیسرا گروہ وہ ہے جس نے یہ قول سنا تو اس کی پیروی اور تعمیل میں جلدی کی اور ان میں سے ایک قبول کرنے والے نے تو اپنے مال کی طرف تیزی سے بڑھنے کو ترجیح دی جیسا کہ حضرت ابوالدحداح ؓ وغیرہ۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قرضا حسنا “۔ القرض کا معنی ہے : اسم لکل مایلتمس علیہ الجزاء یعنی قرض ہر اس شے کا نام ہے جس پر وہ جزا کا طالب ہوتا ہے۔ اقرض فلان فلانا یعنی فلاں نے فلاں کو وہ عطا کیا جس کے بدل کا وہ اس سے تقاضا کرسکتا ہے۔ لبید نے کہا : واذا جو زیت قرضا فاجزہ انما یجزیالغتی لیس الجمل : جب تجھے بطور قرض جزا دی جائے تو تو اس کی جزا دے بلاشبہ جوان ہی جزا اور بدلہ دیتا ہے نہ کہ اونٹ۔ اور القرض یعنی قاف کے کسرہ کے ساتھ یہ بھی ایک لغت ہے جسے کسائی نے بیان کیا ہے اور استقرضت من فلان کا معنی ہے میں نے اس سے قرض طلب کیا پس اس نے مجھے قرض دے دیا، اور اقترضت منہ کا معنی ہے میں نے قرض لیا، اور زجاج نے کہا ہے : لغت میں قرض کا معنی ہے ” البلاء الحسن والبلاء السی ‘۔ یعنی اچھی آزمائش اور بری آزمائش، امیہ نے کہا ہے : کل امری سوف یجزی قرضہ حسنا او سیئا ومدینا مثل مادانا : ہرآدمی کو اس کے قرض کا بدلہ دیا جائے گا چاہے وہ حسن ہو یا سئیہ ہو اور جس کو قرض دیا گیا ہے وہ قرض دینے والے کی مثل ہے۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے : تجازی القروض بامثالھا فبالخیر خیرا وبالشر شرا ‘: قرضوں کا بدلہ ان کی مثلوں کے ساتھ ہی دیا جائے گا پس اچھائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ اور شرکا بدلہ شر کے ساتھ ہوگا۔ اور کسائی نے کہا ہے : قرض سے مراد وہ اچھے یا برے اعمال ہیں جو گزر گئے اور کلمے کا اصل معنی قطع کرنا اور کاٹنا ہے اور اسی سے المقراض القوم : اس کا معنی ہے ان کا اثر ختم ہوگیا اور وہ ہلاک ہوگئے اور یہاں پر القرض اسم ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر یہاں اقراضا ہوتا۔ اس آیت میں قرض کی استدعا کا مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگوں کی تقریب الی الفہم اور انہیں ایسے انداز سے مانوس کرنے کے لئے ہے جسے وہ سمجھ سکتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ تو الغنی الحمید ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بندہ مومن کی وہ عطا جس کے عوض وہ آخرت میں ثواب کی امید رکھتا ہے اسے قرض کے ساتھ تشبیہ دی ہے جیسا کہ اس نے جنت کے حصول میں جان اور مال دینے کو بیع اور شرا سے تشبیہ دی ہے، اس کا بیان سورة براءت میں آئے گا، انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس آیت سے مراد صدقہ پر اور فقراء اور محتاج لوگوں پر مال خرچ کرنے اور ان پر وسعت و خوشحالی لانے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کی مدد ونصرت کرنے پر ابھارنا اور برانگیختہ کرنا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے کنایۃ فقیر کو اپنی ذات کے ساتھ ذکر کیا ہے صدقہ کی ترغیب دیتے ہوئے، اس کی علت یہ ہے کہ اس کی ذات حاجات سے منزہ اور پاک ہے جیسا کہ اس نے مریض بھوکے اور پیاسے کو کنایۃ اپنی ذات سے تعبیر کیا ہے حالانکہ اس کی ذات نقائص وآلام سے پاک ہے۔ اور صحیح حدیث میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے خبر ہے (یعنی حدیث قدسی ہے) کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہ کی اور میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا اور تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا اور میں نے تجھ سے پانی طلب کیا اور تو نے مجھے پانی نہ پلایا ، “ تو یہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں تجھے کیسے پلا سکتا تھا حالانکہ تو رب العالمین ہے ؟ تو رب العالمین فرمائے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا اور تو نے اسے نہ پلایا، بلاشبہ اگر تو نے اسے پلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا (1) (صحیح مسلم کتاب السیر والصلۃ والادب، جلد 2، صفحہ 318، وزارت) اور اسی طرح ان چیزوں میں بھی ہے جو اس سے پہلے ہیں۔ اسے مسلم اور بخاری نے روایت کیا ہے اور یہ سب کی سب اس کے لئے محل شرف میں واقع ہیں جس کے بارے اسے ترغیب دینے کے لئے کنایۃ ذکر کیا جس کو اس کے ساتھ خطاب کیا گیا۔ مسئلہ نمبر : (4) قرض لینے والے پر قرض کو واپس لوٹانا واجب ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں کچھ خرچ کیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ضائع نہ ہوگا بلکہ وہ بالیقین ثواب لوٹائے گا اور اس نے جزا کو مبہم رکھا ہے اور حدیث شریف میں ہے :” اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا گیا (مال) سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ تک بڑھا دیا جاتا ہے (2) (جامع ترمذی کتاب الجہاد، جلد 1، صفحہ 196، وزارت، جامع ترمذی، باب ماجاء فی فضل النفقۃ فی الخ، حدیث 1550، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) جیسا کہ اس کا بیان اس سورة میں اس ارشاد کے تحت آئے گا۔ (آیت) ” مثل اللہ الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ انبتت سبع سنابل “۔ الآیہ (بقرہ : 261) اور یہاں فرمایا : (آیت) ” فیضعفہ لہ اضعافا کثیرۃ “۔ (بقرہ : 245) اور اس کی نہ کوئی انتہا ہے اور نہ کوئی حد۔ مسئلہ نمبر : (5) قرض کا ثواب بہت زیادہ ہے، کیونکہ اس میں ایک مسلمان کے لئے وسعت اور کشادگی لانا ہے، ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حضرت انس بن مالک ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں نے شب معراج جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا : صدقے کا اجر اس کی دس مثل ہے اور قرض کا اجر اٹھارہ مثل، تو میں نے حضرت جبرایل امین (علیہ السلام) کو کہا : قرض میں کیا ہے کہ وہ صدقہ سے افضل ہے ؟ تو انہوں نے کہا : کیونکہ سائل سوال کرتا ہے اور اس کے پاس (کچھ مال موجود ہوتا ہے) اور قرض لینے والا بغیر حاجت کے قرض کا مطالبہ نہیں کرتا (3) (سنن ابن ماجہ کتاب الصدقات، جلد 1، صفحہ 177، وزارت تعلیم، سنن ابن ماجہ، باب القرض، حدیث نمبر 2421، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) محمد بن خلف عسقلانی، یعلی، سلیمان بن یسیر نے قیس بن روی سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ سلیمان بن اذنان نے علقمہ کو ایک ہزار دریم انکی عطا (وظیفہ) تک قرض دیے پھر جب ان کی عطا کا وقت نکل گیا تو انہوں نے ان سے اس کا تقاضا کیا اور اس پر شدت اور سختی کا اظہار کیا، تو انہوں نے وہ پورا کردیا، گویا علقمہ ناراض ہوگئے اور کئی مہینے ٹھہرے رہے (اور ان سے نہ ملے) پھر ان کے پاس آئے اور کہا : مجھے ایک ہزار درہم میری عطا تک قرض دیجئے، انہوں نے کہا ہاں بڑی عزت و کرامت سے، اے ام عتبہ وہ تھیلا لاؤ جس پر مہر لگی ہوئی ہے اور وہ تمہارے پاس ہے، راوی کا بیان ہے : چناچہ وہ لے کر آئی تو انہوں نے کہا : قسم بخدا یہ تمہارے وہی دراہم ہیں جو تم نے مجھے دیے تھے، میں نے ان میں سے ایک درہم بھی نہیں ہلایا، تو آپ نے کہا : تیرے باپ کی قسم ! جو تو نے میرے ساتھ سلوک کیا کس نے تجھے اس پر ابھارا ؟ تو انہوں نے کہا : میں نے تم سے سنا ہے کہ تم حضرت ابن مسعود ؓ سے بیان کرتے ہو کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو دو بار قرض دیتا ہے تو وہ اس کے ایک بارصدقہ دینے کی طرح ہے (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، جلد 1، صفحہ 177، وزارت تعلیم) “ فرمایا مجھے ابن مسعود ؓ نے اسی طرح خبر دی ہے۔ (ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے یہ روایت اس طرح مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” جو مسلمان بھی کسی مسلمان کو ایک دفعہ قرض دیتا ہے وہ اس کے دو دفعہ صدقہ کے برابر ہوجاتا ہے۔ “ اسے ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے اور بیہقی نے مرفوع اور موقوف روایت کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (6) آدمی کا قرض ایک کا بدلہ ایک ہوتا ہے، یعنی وہ اس پر اتنا ہی لوٹائے گا جتنا اس نے اسے قرض دیا ہے اور اہل علم نے اس پر اجماع کیا ہے کہ دنانیر، دراہم، گندم، جو، کھجور، کشمش اور ہر وہ شے طعام میں سے جس کی مثل موجود ہے اسے قرض کے طور پر لینا جائز ہے اور مسلمانوں نے اپنے نبی مکرم ﷺ سے نقل کرتے ہوئے اس پر اجماع کیا ہے کہ قرض میں زیادتی کی شرط لگانا ربا ہے، اگرچہ وہ چارے کی ایک مٹھی ہو، جیسا کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے بیان کیا ہے یا ایک دانہ ہو اور جو چیز قرض کے طور پر لی ہے اس سے افضل واپس لوٹاناجائز ہے، بشرطیکہ اس کی شرط نہ لگائی جائے، کیونکہ یہ احسان کے باب سے ہے۔ البکر کے بارے میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے : ” بیشک تم میں سے اچھا وہ ہے جو قضا کے اعتبار سے زیادہ اچھا ہے۔ (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، جلد 1، صفحہ 176، وزارت تعلیم) اسے ائمہ نے روایت کیا ہے، یعنی بخاری اور مسلم وغیرہما نے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعریف کی ہے جس نے ادائیگی اچھے طریقہ سے کی اور اسے مطلق قرار دیا اور اسے کسی صفت سے مقید نہ کیا اور اسی طرح آپ ﷺ نے البکر کے بارے میں فیصلہ فرمایا اور اس سے مراد وہ ہے جو چوتھے سال میں داخل ہو، کیونکہ وہ اس میں اپنے رباعیہ دانت گرا دیتا ہے اور یہ وہ دانت ہیں جو ثنایا سے ملے ہوتے ہیں اور یہ چاروں رباعیات کہلاتے ہیں، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے اس سے منع کیا ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جس نے قرض لیا ہے وہ قرض دینے والے کو کچھ ہدیہ وغیرہ دے اور نہ ہی قرض دینے والے کو اسے قبول کرنا حلال ہے مگر یہ کہ پہلے بھی دونوں کی عادت ہو (کہ وہ ہدیہ اور تحفہ وغیرہ دیتے رہتے ہوں) سنت اسی طرح ہے، ابن ماجہ نے بیان کیا ہے کہ ہشام بن عمار، اسماعیل بن عیاش، عتبہ بن حمید الضبی نے یحییٰ بن ابی اسحاق الہنائی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جو اپنے بھائی کو مال قرض کے طور پر دیتا ہے اور وہ اسے کچھ ہدیہ دیتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی کو قرض دے اور وہ اسے ہدیہ دے یا اسے اپنی سواری پر سوار کرے تو وہ اسے نہ قبول کرے اور نہ اس کی سواری پر سوار ہو مگر یہ کہ ان دونوں کے درمیان اس سے پہلے بھی یہ عادت جاریہ ہو (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، جلد 1، صفحہ 177، وزارت تعلیم، سنن ابن ماجہ، باب القرض، حدیث نمبر 2422، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (8) قرض مال میں سے ہوتا ہے، تحقیق ہم اس کا حکم بیان کرچکے ہیں اور یہ عزت وآبرو سے بھی ہوتا ہے، حضور نبی کریم ﷺ سے حدیث مروی ہے : ” کیا ہم میں سے کوئی ابو ضمضم کی طرح ہونے سے عاجز ہوگا کہ جب وہ اپنے گھر سے نکلتا تو کہتا : اے اللہ ! میں نے اپنی عزت تیرے بندوں پر صدقہ کردی ‘ (2) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ : 231، دارالفکر) اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے : ” تو اپنی عزت اپنے فقر و افلاس کے دن کے لئے قرض دے دے۔ “ مراد یہ ہے کہ جو کئی تجھے گالی گلوچ دے تو تو اس سے حق نہ لے اور نہ تو اس پر حد قائم کر یہاں تک کہ قیامت کا دن آجائے جو وافر اجر دینے والا ہے۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا ہے : عزت کو صدقہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اور امام مالک (رح) سے مروی ہے، ابن عربی (رح) نے کہا ہے : یہ فاسد ہے، حضور ﷺ نے حدیث صحیح میں کہا ہے : ” بیشک تمہارے خون اور تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں۔ (3) (صحیح بخاری، کتاب المغازی، جلد 2، صفحہ 632، وزارت تعلیم) ۔ “ الحدیث۔ اور یہ تقاضا کرتی ہے کہ یہ تینوں محرمات اس میں ایک کے قائم مقام ہیں کہ انکا احترام کرنا آدمی کے لئے فرض اور لازم ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) قولہ تعالیٰ (آیت) ” حسنا “۔ واقدی نے کہا ہے : جس کی ذات کو اچھا شمار کیا جائے اور عمرو بن عثمان صدفی نے کہا ہے کہ اس کے ساتھ نہ احسان جتلایا جائے اور نہ وہ اسے اذیت اور پریشانی میں مبتلا کرے۔ اور سہل بن عبداللہ نے کہا ہے : وہ اپنے قرض میں کسی عوض کا اعتقاد نہ رکھتا ہو۔ مسئلہ نمبر : (10) قولہ تعالیٰ (آیت) ” فیضعفہ لہ “۔ عاصم وغیرہ نے فیضاعفہ الف اور فاء کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے ابن عامر اور یعقوب نے عین کو مشدد بغیر الف کے اور فاء کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن کثیر، ابو جعفر اور شیبہ نے تشدید اور فاء کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسروں نے الف کے ساتھ اور فاء کو مرفوع پڑھا ہے جنہوں نین اسے رفع دیا ہے انہوں نے یقرض کے ساتھ ملایا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت ” ھو یضاعفہ “ ہے اور جنہوں نے منصوب پڑھا ہے تو انہوں نے فاء کے ساتھ استفہام کا جواب بنایا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے ان مضمر ہے، تشدید اور تخفیف دونوں لغتیں ہیں، اور تشدید کی دلیل ” اضعافا کثیرۃ ہے کیونکہ تشدید کثرت بیان کرنے کے لئے ہوتی ہے اور حسن اور سدی نے کہا ہے : ہم اس تضعیف (کئی گنا) کو نہیں جانتے مگر صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ اس کا ارشاد گرامی ہے : (آیت) ” ویؤت من لدنہ اجر عظیما “۔ (النسائ) حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا ہے : یہ جہاد کے نفقہ کے بارے میں ہے اور ہم حساب لگاتے تھے اور حضور نبی مکرم ﷺ ہمارے درمیان تھے کہ ایک آدمی کا خرچہ اپنی ذات پر اور اپنے رفقاء پر اور اپنی سواری پر بیس لکھا تھا۔ مسئلہ نمبر : (11) قولہ تعالیٰ (آیت) ” واللہ یقبض ویبصط “۔ یہ ہر شے میں عام ہے پس وہی تنگ کرنے والا ہے اور وہی فراخ اور کشادہ کرنے والا ہے، ہم نے ” شرح الاسماء الحسنی فی الکتاب الاسنی “ میں ان دونوں پر بحث کی ہے۔ (آیت) ” والیہ ترجعون “ یہ وعید ہے کہ وہ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا دے گا۔
Top