Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 245
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً١ؕ وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ١۪ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
مَنْ : کون ذَا : وہ الَّذِيْ : جو کہ يُقْرِضُ : قرض دے اللّٰهَ : اللہ قَرْضًا : قرض حَسَنًا : اچھا فَيُضٰعِفَهٗ : پس وہ اسے بڑھا دے لَهٗٓ : اس کے لیے اَضْعَافًا : کئی گنا كَثِيْرَةً : زیادہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يَقْبِضُ : تنگی کرتا ہے وَيَبْصُۜطُ : اور فراخی کرتا ہے وَاِلَيْهِ : اور اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے
کون ہے جو اللہ کو خوشدلی کے ساتھ قرض [ دیتا ہے تاکہ اللہ اس کا دیا ہوا (قیامت کے روز) دوگنا ، سہ گنا کر کے ادا کرے ، اور (رزق کی) تنگی اور کشائش کا رشتہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے (کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں) اور اسی کے حضور تم سب کو لوٹنا ہے
اللہ کو قرض دینا کیا ہے ؟ 411: جان بلاشبہ بہت عزیز چیز ہے لیکن بعض اوقات مال خرچ کرنا جان سے بھی زیادہ مشکل ہوجاتا ہے لیکن جہاد فی سبیل اللہ میں جس طرح جان پیش کرنا پڑتی ہے بالکل اسی طرح مال بھی خرچ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ سامان حرب خریدنا ، دوسروں کو تیاری میں مدد دینا ، خصوصاً جن کے پاس مال نہیں ان کو مالی کمک پہنچانا بھی ضروریاتِ جہاد میں سے ہے۔ اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ خلافت اسلامی کو تمہاری دولت کی ضرورت ہو تو بغیر حیل و حجت روپیہ صرف کرو۔ میدانِ جنگ میں جاتے ہی تمہیں فتح و کامرانی نصیب ہوگی ، اس قدر مال غنیمت ملے گا کہ سمیٹ نہ سکو گے اور جس طرح تم نے اسلام کی بقاء و قیام کے لیے مال صرف کیا تھا اس سے کئی گنا زیادہ تم کو مل جائے گا ، صدہا جگہوں پر ہلالی پرچم بلند ہوگا اور ہزاروں کافر و مشرک دائرئہ اسلام میں داخل ہوں گے۔ تم غربت و افلاس کی پرواہ نہ کرو کہ قبض و بسط اور تنگدستی و کشائش اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ تمہارے پاس لاکھوں ، کروڑوں روپیہ ہو مگر اللہ ایسے سامان پیدا کر دے کہ تمام دولت تمہارے لیے بیکار ثابت ہو اور تم ناداری و تہی دستی کی زندگی بسر کرو اور یہ بھی اسی کے اختیار میں ہے کہ غربت کے ایّام میں تمہیں ایسی فرحت و شادمانی نوازش کرے کہ بڑے بڑے دولتمندوں کو بھی وہ نصیب نہ ہو۔ ” قَرْضًا حَسَنًا “ اصطلاح قرآنی میں اس لفظ سے مراد وہ رقم ہے جو دین اسلام کی کسی مد میں خرچ ہو سکے۔ اس جگہ مراد مصارف جہاد ہیں۔ اس ملّی چندہ کو قرض اور پھر قرض حسنہ سے تعبیر کرنا عین محاورئہ عرب کے مطابق ہے کہ اہل عرب ہر اچھے معاوضہ والے عمل کو اچھے قرض اور ہر برے معاوضہ والے عمل کو برے قرض سے تعبیر کرتے تھے۔ عرب ایک مشہور تجارت پیش قوم تھی۔ قرض ، بیع و شراء کے الفاظ اگر ان کی زبان کا جزو بن گئے ہوں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہاں قرض اس کو مجازاً کہہ دیا ورنہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح قرض کا عوض ضروری دیا جاتا ہے اسی طرح تمہارے انفاق فی سبیل اللہ کا عوض بھی ضروری ملے گا اور بڑھانے کا بیان کتاب و سنت میں دوسری جگہوں پر بھی بار بار آیا ہے اور پھر یہ بات بھی صحیح ہے کہ لوگوں کی حاجت برآری کی جائے تو یہ بھی نیک کام ہے ، جس کو قرض سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام ؓ نے اس آیت کے نزول کے بعد اللہ کی راہ میں ، خصوصاً جہاد میں بےدریغ روپیہ صرف کیا اور ایسے ایسے ایمان افروز واقعات رونما ہوئے کہ ان کو پڑھ اور سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کس کمال کے لوگ تھے وہ ؟ ایسا بھی ہوا کہ سب کا سب مال قرض الٰہی میں دینے کو تیار ہوگئے اور قبول کرنے والے یعنی رسول عربی ﷺ کو بار بار کہنا پڑا کہ نہیں ! سارا نہیں آدھا نہیں تیسرا حصہ ۔ مختلف لوگوں سے مختلف حصوں کے ساتھ وصول کیا جبکہ ان کا تقاضا زیادہ خرچ کرنے کا تھا۔ تیاری مکمل ہوچکی ہے اور ہر ایک فرزند اسلام جہاد فی سبیل اللہ کے جوش و ولولہ سے سرفروشی کے لیے تیار ہے مگر جب تک اس عظیم الشان گروہ کے لیے کوئی امیر نہ ہو جو میدان جنگ میں لے جا کر پوری مہارت کے ساتھ ان کو لڑا سکے ، اس انبوئہ کثیر کو حرکت نہیں دی جاسکتی۔ اب آنے والی آیات میں امیر کی ضرورت اس کی خصائص و امتیازات اور وجوہ انتخاب پر گفتگو کی جاتی ہے۔
Top