Aasan Quran - Al-Baqara : 245
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً١ؕ وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ١۪ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
مَنْ : کون ذَا : وہ الَّذِيْ : جو کہ يُقْرِضُ : قرض دے اللّٰهَ : اللہ قَرْضًا : قرض حَسَنًا : اچھا فَيُضٰعِفَهٗ : پس وہ اسے بڑھا دے لَهٗٓ : اس کے لیے اَضْعَافًا : کئی گنا كَثِيْرَةً : زیادہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يَقْبِضُ : تنگی کرتا ہے وَيَبْصُۜطُ : اور فراخی کرتا ہے وَاِلَيْهِ : اور اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے
کون ہے جو اللہ کو اچھے طریقے پر قرض دے، تاکہ وہ اسے اس کے مفاد میں اتنا بڑھائے چڑھائے کہ وہ بدر جہاز یا دہ ہوجائے ؟ (164) اور اللہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے، اور وہی وسعت دیتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا۔
164: اللہ کو قرض دینے سے مراد اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے، اس میں غریبوں کی امداد بھی داخل ہے اور جہاد کے مقاصد میں خرچ کرنا بھی ہے، اسے قرض مجازاً کہا گیا ہے ؛ کیونکہ اس کا بدلہ ثواب کی صورت میں دیا جائے گا، اور اچھے طریقے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے دیا جائے، دکھاوا یا دنیا میں بدلہ لینا مقصود نہ ہو، اور اگر جہاد کے لئے یا کسی غریب کی مدد کے طور پر قرض ہی دیا جائے تو اس پر کسی سود کا مطالبہ نہ ہو، کفار اپنی جنگی ضروریات کے لئے سود پر قرض لیتے تھے، مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اگرچہ دنیا میں تو انہیں سود نہیں ملے گا ؛ لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ اس کا ثواب اصل سے بدرجہا زیادہ عطا فرمائیں گے، جہاں تک اس خطرے کا تعلق ہے کہ اس طرح خرچ کرنے سے مال میں کمی ہوجائے گی، اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ تنگی اور وسعت اللہ ہی کے قبضے میں ہیں، جو شخص اللہ کے دین کے خاطر اپنا مال خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو تنگی پیش آنے نہیں دیں گے بشرطیکہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرے۔
Top