Al-Qurtubi - Al-Baqara : 244
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور (مسلمانو ! ) خدا کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ خدا (سب کچھ) سنتا (اور سب کچھ) جانتا ہے
آیت نمبر : 244۔ یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑائی کرنے کا خطاب حضور نبی رحمت ﷺ کی امت کو ہے، یہ جمہور کا قول ہے اور اس سے ارادہ اور نیت یہ کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہی بلند ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 329 دارالکتب العلمیہ) اور اللہ تعالیٰ کے راستے کثیر ہیں اور یہ ہر راستے کو عام ہیں، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” قل ہذہ سبیلی “۔ ترجمہ : آپ فرما دیجئے یہ میری راہ ہے) امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ کے راستے کثیر ہیں اور کوئی راستہ نہیں ہے مگر اس پر یا اس میں یا اس کے لئے قتال کیا جاتا ہے اور انمیں سب سے عظیم دین اسلام ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ خطاب ان لوگوں کے لئے ہے جو بنی اسرائیل میں سے زندہ کیے گئے یہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ضحاک (رح) سے مروی ہے اور ” وقاقتلوا “ میں واؤ سابقہ امر پر عطف کرنے کے لئے ہے اور کلام میں اس کی تقدیر کو چھوڑ دیا گیا ہے : وقال لھم، قاتلوا اور پہلے قول کی بنا پر یہ سارا کلام سابقہ جملہ پر معطوف ہے، اور کلام میں مضمر ماننے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ نحاس نے کہا ہے : (آیت) “ وقاتلوا “ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مومنین کو حکم ہے کہ تم نہ بھاگو جیسا کہ وہ بھاگ گئے، (آیت) ” واعلموا ان اللہ سمیع علیم “۔ یعنی وہ تمہارے قول کو بھی سن لے گا اگر تم نے اس کی مثل کہا جیسا کہ انہوں نے کہا اور اس سے تمہاری مراد کو بھی جان لے گا۔ اور علامہ طبری نے کہا ہے : اس قول کی کوئی دلیل اور وجہ نہیں ہے جس نے یہ کہا کہ لڑائی کرنے کا حکم ان لوگوں کو ہے جنہیں زندہ کیا گیا۔ واللہ اعلم۔
Top