Tafseer-e-Baghwi - Al-Baqara : 245
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةً١ؕ وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ١۪ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
مَنْ : کون ذَا : وہ الَّذِيْ : جو کہ يُقْرِضُ : قرض دے اللّٰهَ : اللہ قَرْضًا : قرض حَسَنًا : اچھا فَيُضٰعِفَهٗ : پس وہ اسے بڑھا دے لَهٗٓ : اس کے لیے اَضْعَافًا : کئی گنا كَثِيْرَةً : زیادہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يَقْبِضُ : تنگی کرتا ہے وَيَبْصُۜطُ : اور فراخی کرتا ہے وَاِلَيْهِ : اور اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے
کوئی ہے کہ خدا کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے میں اس کو کئی حصے زیادہ دے گا ؟ اور خدا ہی روزی کو تنگ کرتا اور (وہی اسے) کشادہ کرتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے
قرضا حسنا کی مختلف تفاسیر اور وجہ تسمیہ : 245۔ (آیت)” من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا “۔ قرض ہر اس چیز کا نام ہے جو انسان اس غرض سے دے تاکہ اس پر بدلہ لے ، پس اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے اس عمل (صالح) کو جو وہ اس پر تیار شدہ اجر حاصل کرنے کی امید پر کرتے ہیں قرض کا نام دیا کیونکہ وہ یہ عمل ثواب کی طلب کے لیے کرتے ہیں ۔ کسائی (رح) فرماتے ہیں کہ قرض ہر وہ عمل ہے تو جو تونے آگے بھیجا ، وہ عمل اچھا ہو یا برا قرض کا اصل معنی لغت کے اعتبار سے قطع ہے ، قرض کو قرض اس لیے کہا جاتا ہے کہ قرض دینے والا اپنے مال کا کچھ حصہ کاٹ کر اس لیے دیتا ہے تاکہ اس جیسا (مال کا حصہ) اس کی طرف لوٹے اور کہا گیا ہے کہ آیت کریمہ میں مجاز اختصار ہے ، گویا کہ عبارت یوں ہے ” من ذالذی یقرض عباد اللہ والمحتاجین من خلقہ “۔ کون ہے وہ جو اللہ کے بندوں اور اس کی مخلوق میں سے محتاجوں کو قرض دیتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت)” ان الذین یؤذون اللہ ورسولہ “ اللہ کے بندوں کو ایذاء دیتے ہیں جس طرح کہ حدیث شریف میں آتا ہے سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمـ نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے اے ابن آدم (انسان) میں نے کھانا طلب کیا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں دیا تھا ، بندہ کہے گا میں تجھے کھانا کیسے دیتا حالانکہ تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تجھ سے میرے فلاں بندہ نے کھانا طلب کیا تھا تو نے اس کو کھانا نہیں دیا تھا کیا تجھے معلوم نہیں بیشک اگر تو اس کو کھانا دیتا تو میرے پاس پاتا ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت)” یقرض اللہ “ قرض حسنہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کرتے ہیں، حسین بن علی واقدی (رح) فرماتے ہیں کہ خوشدلی کے ساتھ ثواب کے لیے (خرچ کرتے ہیں) ابن مبارک (رح) فرماتے ہیں کہ مال حلال سے خرچ کرتے ہیں اور فرمایا اس خرچ پر احسان نہیں جتلاتے اور نہ ایذاء دیتے ہیں ۔ فیضاعفہ کی مختلف قراتیں : ” فیضاعفہ لہ “۔ ابن کثیر (رح) اور ابو جعفر (رح) اور ابن عامر (رح) اور یعقوب (رح) نے ” فیضعفہ “ پڑھا ہے اس کا باب تشدید ہے ۔ (یعنی تفعیل کے باب سے) سورة احزاب میں ابو عمرو نے اس قراۃ کی موافقت کی ہے (یعنی وہاں اس نے ” فیضعفہ “ پڑھا ہے) اور اوروں نے ” فیضاعفہ “ الف کے ساتھ اور تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے (باب مفاعلہ سے) اور یہ دونوں لغتیں ہیں شد کے ساتھ پڑھنے کی دلیل ، اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد (آیت)” اضعافا کثیرہ “ ہے کیونکہ تشدید برائے تکثیر ہوتی ہے (باب تفعیل میں کسی نہ کسی اعتبار سے کثرت کا مفہوم پایا جاتا ہے) ابن عامر (رح) ، عاصم (رح) اور یعقوب (رح) نے فاء کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے (یضاعف کی فاء پر زبر کے ساتھ) اسی طرح سورة حدید میں بھی استفہام کے جواب کی بنیاد پر اور کہا گیا ہے کہ فاء کی زبر اضمار ان کے اعتبار سے ہے یعنی ” یضاعفہ “ سے پہلے ان مقدر ہے اور باقیوں نے ” یضاعفہ “ کو فاء کی پیش کے ساتھ پڑھا ہے ، ” یقرض اللہ “ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور بعض نے کہا ہے کہ یہ تضعیف سات سو گنا تک ہے (آیت)” واللہ یقبض ویبسط “ اہل بصرہ اور حمزہ (رح) نے یہاں ” یبسط “ اور اعراف میں ” یبسط “ سین کے ساتھ پڑھا ہے جس طرح کہ اس کے ہم مثل اور لفظ ہیں اور ان دونوں لفظوں کو باقیوں نے صاد کے ساتھ پڑھا ہے ۔ یقبض ویبسط کی تفاسیر : 1۔ بعض کا قول ہے ” یقبض “ رزق روک کر ، روح قبض کرکے اور ” یبسط “ توسیع کرکے بعض کا قول ہے ۔ 2۔ ” یقبض “ صدقہ اور توبہ قبول کرکے اور ” یسبط “ انفاق فی سبیل اللہ کے بعد اور بھیج کر اور ثواب عطاء فرما کر۔ 3۔ بعض کا قول ہے کہ اس سے مراد زندہ کرنا اور مارنا ہے، پس جس کو اللہ تعالیٰ نے موت دی ، پس اسے قبض فرما لیا اور جس کی عمر کو بڑھایا ، لمبا کیا اس کے لیے بسط فرمایا ۔ 4۔ بعض کا قول ہے کہ قبض اور بسط دلوں کے اعتبار سے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو صدقہ کا حکم دیا تو خبر دی کہ بندوں کو اس خرچ کرنے پر قدرت حاصل نہیں مگر اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ فرمایا ، بعض دلوں کو منقبض فرماتا ہے ، پس خیر کے ساتھ اس کا دل نہیں کھلتا اور بعض دلوں کو فراخ فرماتا ہے ، پس وہ اپنی ذات کے فائدہ کی خاطر خیر (صدقہ) آگے بھیجتا ہے ، جس طرح حدیث شریف میں آتا ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتے ہیں بدلتے ہیں ۔ (الحدیث) ” والیہ ترجعون “۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف تم لوٹو گے ، پس اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کا تمہیں بدلہ دے گا ، حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ الیہ کی ضمیر تراب (مٹی) کی طرف لوٹ رہی ہے یعنی اس سے تراب (مٹی) جو کہ غیر مذکور ہے مراد ہے یعنی مٹی سے ان کو پیدا کیا اور اسی کی طرف لوٹیں گے ۔
Top