Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 270
وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُهٗ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
وَمَآ : اور جو اَنْفَقْتُمْ : تم خرچ کرو گے مِّنْ : سے نَّفَقَةٍ : کوئی خیرات اَوْ : یا نَذَرْتُمْ : تم نذر مانو مِّنْ نَّذْرٍ : کوئی نذر فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُهٗ : اسے جانتا ہے وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ اَنْصَارٍ : کوئی مددگار
تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی مانی ہو، اللہ کو اُس کا علم ہے، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
[وَمَآ : اور جو ] [اَنْفَقْتُمْ : تم لوگ خرچ کرتے ہو ] [مِّنْ نَّـفَقَۃٍ : کسی قسم کا خرچہ ] [اَوْ نَذَرْتُمْ : یا منت مانتے ہو ] [مِّنْ نَّذْرٍ : کسی قسم کی منت ] [فَاِنَّ اللّٰہَ : تو یقینا اللہ ] [یَعْلَمُہٗ : جانتا ہے اس کو ] [وَمَا : اور نہیں ہیں ] [لِلظّٰلِمِیْنَ : ظلم کرنے والوں کے لیے ] [مِنْ اَنصَارٍ : کسی قسم کے مددگار ] ترکیب : ” وَمَا اَنْفَقْتُمْ “ میں ” مَا “ موصولہ ‘ شرطیہ ہے۔ ” اَنْفَقْتُمْ “ سے ” مِنْ نَذْرٍ “ تک شرط ہے۔ اس میں افعالِ ماضی استعمال ہوئے ہیں ‘ اس لیے ان پر مجزوم ہونے کا عمل ظاہر نہیں ہوا اور وہ محلاً مجزوم ہیں۔ ” فَاِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُہٗ “ پورا جملہ جوابِ شرط ہے اور یہ پورا جملہ محلاً مجزوم ہے ‘ اس لیے اس میں استعمال ہونے والا فعل مضارع ” یَعْلَمُ “ مجزوم نہیں ہوا۔ اگر جوابِ شرط میں فعل مضارع آتا تب وہ مجزوم ہوتا۔ اس وقت جملہ اس طرح ہوتا ” فَـیَعْلَمْہُ اللّٰہُ “۔ ” وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ “ میں ” مَا “ نافیہ ہے۔ اس کا اسم ” مِنْ اَنْصَارٍ “ ہے جو مبتدأ مؤخر نکرہ کے طور پر آیا ہے اور ” لِلظّٰلِمِیْنَ “ قائم مقام خبر ہے۔ نوٹ (1) : احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں منت ماننے کو مستحسن نہیں قرار دیا گیا ہے۔ لیکن کوئی شخص اگر منت مان بیٹھے اور اس میں کسی شرعی قباحت کا کوئی پہلو نہ ہو تو اس کو پورا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ (تدبر قرآن) ہر انفاق اور منت کا عمل بھی اللہ کے علم میں ہوتا ہے اور ان کے پیچھے پوشیدہ جذبے اور نیت کو بھی اللہ جانتا ہے۔ یہ اعمال اگر صرف اللہ تعالیٰ کے لیے نہ ہوں ‘ بلکہ جذبے اور نیت میں کوئی فتور ہو ‘ تو پھر ایسے عمل کرنے والوں کو یہاں ظالم کہا گیا ہے۔
Top