Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ نے لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ يَاْمُرُكُمْ : حکم دیتا ہے تم کو اَنْ : یہ کہ تَذْبَحُوْا : تم ذبح کرو بَقَرَةً : ایک گائے قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَتَتَّخِذُنَا : کیا تم کرتے ہو ہم سے ھُزُوًا : مذاق قَالَ : اس نے کہا ( موسیٰ ) اَعُوْذُ : میں پناہ مانگتا ہوں بِاللّٰهِ : اللہ کی (اس بات سے اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہلوں میں سے
اور جب کہا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے بیشک اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو۔ تو انہوں نے کہا کیا تو بناتا ہے ہم کو ٹھٹھا کیا ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا۔ پناہ بخدا۔ اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی حیلہ سازی کا تذکرہ بیان فرمایا تھا۔ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کو کس طرح توڑتے تھے۔ اس جرم کی پاداش میں ان کی شکلوں کو تبدیل کردیا گیا۔ اور بالآخر وہ ہلاک ہوگئے۔ آیت زیر درس میں بنی اسرائیل کے ایک اور واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں اس قوم کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ مگر انہوں نے اس حکم کو ٹالنا چاہا۔ اور اس ضمن میں طرح طرح کے سوال کئے۔ گویا بال کی کھال اتار رہے ہیں۔ من حیث القوم یہ خرابی بھی بنی اسرائیل میں موجود تھی اس آیت میں اسی بات کا ذکر کیا گیا ہے۔ واقعاتی ربط : دراصل گائے ذبح کرنے کا حکم ایک خاص مقصد کے تحت دیا گیا تھا۔ جس کا ذکر اگلے رکوع کی پہلی آیت میں ہے “ واذقتلتم نفسا فادرءتم فیھا ” جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا ۔ اور الزام ایک دوسرے کے سر تھوپنے لگے “ واللہ مخرج ما کنتم تکتمون ” اور اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے۔ جس کو تم چھپاتے ہو۔ قتل تو ہوگیا۔ مگر قاتل کا پتا نہیں چلتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم ایک گائے ذبح کرو اور اس کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر مارو ، تو وہ زندہ ہو کر خود بتا دے گا۔ کہ اس کا قاتل کان ہے ، چناچہ قاتل کا پتہ چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کا تذکرہ آیت زیر درس میں ہو رہا ہے۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس مقصد کی خاطر گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا۔ اس کو تو بعد میں بیان کیا ہے۔ مگر اس حکم کا تذکرہ پہلے کردیا گیا ہے۔ گویا واقعات کے تقدم و تاخر کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اس کے متعلق مفسرین کرام بیان کرتے ہیں (1 ) کہ قرآن پاک کا اسلوب بیان یہ ہے کہ جو چیز زیادہ ضروری ہوتی ہے اسے پہلے بیان کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کے دو اجزاء ہیں۔ ایک اصل قتل ۔ جس میں مقتول کا حق ضائع ہوا۔ اور دوسرا جزو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے “ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ ” اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم بندوں کے حق پر مقدم ہے اس لئے گائے ذبح کرنے کے واقعہ کو مقد رکھا ، اور اصل واقعہ قتل کو مؤخر کردیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں بعض دوسری مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے حق کو بندوں پر مقدم رکھا گیا ہے۔ مثلاً “ وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوا الدین احسانا ” تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنا حق پہلے بیان کیا اور والدین یعنی بندوں کا بعد میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح سورة لقمان میں آتا ہے “ وان جاھدک علی ان تشرک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما ” اگر ماں باپ اللہ تعالیٰ کے حقوق ضائع کرنا چاہیں یعنی تمہیں شرک پر آمادہ کریں تو ان کی اطاعت مت کرو۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھا اس واقعہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ذبح گائے کو مقدم رکھا۔ کہ یہ اس کا اپنا حق ہے اور مقتول کے حق یعنی دیت یا قصاص وغیرہ کو مؤخر کردیا۔ اس واقعہ سے حیات بعد الممات کا مسئلہ بھی حل ہوتا ہے۔ “ کذلک یحی اللہ الموتی ” کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اس مردہ کو دوبارہ زندہ کردیا۔ اور اس نے اپنے قاتل کی نشاندہی کردی اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے روز تمام مردوں کو دوبارہ زندہ کر دے گا۔ اور پھر حساب کتاب اور جزا و سزا کے تمام واقعات پیش آئیں گے۔ وجہ قتل : ملا علی قاری (رح) دسویں صدی کے بڑے پائے کے محدث گزرے ہیں آپ کا اصل وطن ہرات تھا۔ مگر مکہ میں آباد ہوگئے تھے۔ انہوں نے عربی میں مرقات کے نام سے مشکوۃ شریف کی بلند پایہ شرح لکھی ہے۔ اپنی اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک بڑا دولتمند شخص تھا۔ جس کی ایک بیٹی تھی۔ کسی نے اسے نکاح کا پیغام بھیجا مگر اس شخص نے قبول نہ کیا جس کی وجہ سے اسے قتل کردیا گیا۔ عام طور پر مفسرین کرام وجہ قتل یہ بیان کرتے ہیں (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 108) کہ عامیل نامی ایک دولت مند شخص تھا جو کہ لاولد تھا۔ اس کے بھائی کے لڑکے اس کی جائیداد کے وارث تھے۔ چناچہ اس کے بھتیجے اس تاک میں تھے کہ یہ مرے تو اس کی جائیداد پر قبضہ کریں ۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) لکھتے ہیں (2 تفسیر عزیزی فارسی ص 278 پارہ 1) کہ اس شخص کے بھتیجے مناسب موقع کی تلاش میں رہے۔ آخر ایک دن اسے کسی کام کے بہانے کہیں دوسری جگہ لے گئے اور ویرانے میں جا کر قتل کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے خود ہی رونا پیٹنا شروع کردیا کہ کسی نے ان کے چچا کو قتل کردیا ہے۔ حتیٰ کہ قریبی بستی والوں پر قتل کا الزام لگایا۔ اور ان سے دیت بھی طلب کی۔ مگر بستی والوں نے اس قتل میں ملوث ہونے کی نفی کی اور کہا کہ ہم اس معاملہ میں بالکل بےگناہ ہیں “ نادرءتم فیھا ” میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔ کہ تم قتل کا الزام ایک دوسرے پر لگا رہے تھے۔ قانون قسامت : قانون قسامت یہ ہے (3 ۔ ہدایہ ج 4 ص 526 ، 547) کہ اگر کسی مقتول کے قاتل کا پتا نہ چلتا ہو۔ تو وقوعہ قتل سے قریب تریب بستی کے لوگوں سے قتل کے متعلق دریافت کیا جائے گا۔ اگر وہ انکار کریں تو ان میں سے پچاس آدمی منتخب کرکے قسم دلائی جائے گی۔ کہ نہ انہوں نے خود قتل کیا ہے۔ اور نہ وہ قاتل کو جانتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ لوگ قتل کے الزام سے تو بری ہوجائیں گے۔ تاہم انہیں مقتول کے ورثا کو دیت یعنی خون بہا دینا پڑیگا۔ اس واقعہ کے متعلق مفسرین کرام کی مختلف آراء ہیں۔ بعض کہتے ہیں (4 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 278 پارہ نمبر 1) کہ قتل کے اس واقعہ کے وقت بنی اسرائیل میں قسامت کا قانون رائج تھا۔ جس کا ذکر توراۃ میں بھی موجود ہے۔ اور یہ ہماری شریعت میں بھی موجود ہے۔ بنی اسرائیل کا قانون قسامت یہ تھا۔ کہ قاتل نامعلوم ہونے کی صورت میں وقوعہ کی قریبی بستی سے معتبرین کو نکالا جائے گا۔ اور وہ لوگ بچھیا (گائے) لیں جس نے نہ حل چلایا ہو ۔ بلکہ درمیانی عمر کی ہو۔ اور بےعیب ہو ۔ وہ لوگ بچھیا کو پاس بہنے والی ندی پر لیجا کر اسکی گردن توڑ دیں۔ اور پھر لادی خاندان کے کا من اس پر کچھ پڑھیں پڑھائیں۔ یہ لوگ اس ندی پر اپنے ہاتھ دھوئیں اور یوں کہیں کہ اے پروردگار ہم اس خون سے بری ہیں نہ ہم کو علم ہے کہ یہ خون کس نے کیا ہے جب وہ ایسا کریں گے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا۔ کثرت سوال سے بچو : بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 32) کہ جس وقت قتل کا یہ واقعہ پیش آیا اس وقت تک توراۃ نازل ہی نہیں ہوئی تھی۔ چونکہ ان کے پاس اس مسئلہ کا حل موجود نہیں تھا۔ اس لیے وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی تھے اور ظاہری طور پر حکومت بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی تھی۔ چناچہ آپ نے ان لوگوں کو فرمایا کہ بھائی ! ایک گائے ذبح کرو تو تمہارے مسئلہ کا حل نکل آئے گا۔ صحیح حدیث میں آتا ہے (2 ۔ تفسیر مظہری ج 1 ص 80 ، درمنثور ج 1 ص 77 ، ابن کثیر ج 1 ص 21) کہ اگر بنی اسرائیل اس وقت لیت ولعل نہ کرتے بلکہ کوئی بھی گائے ذبح کردیتے تو بات بن جاتی۔ مگر ان کی طبعیتوں میں تعمق تھا۔ وہ بال کی کھال اتارنا جانتے تھے۔ انہوں نے پیغمبر کا حکم ماننے کی بجائے طرح طرح کے سوالات کرنے شروع کردیے نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ جوں جوں سوال کرتے گئے توں توں سختی بڑھتی گئی حتیٰ کہ بیچ نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہ رہا اور وہ مجبور ہوگئے ۔ مگر اس حیلہ سازی میں کافی عرصہ گزر گیا۔ اور انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم پر عمل نہ کیا۔ اسی لیے حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (3 ) کہ تعمق اچھا نہیں ہر بات میں بال کی کھال نہ اتارو بلکہ حکم پر عمل کرو۔ جس قدر زیادہ باریکی میں جاؤ گے۔ اسی قدر سختی میں مبتلا ہوگے۔ اور آخر مجبور ہوجاؤ گے۔ قاتل کی تلاش کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک لمبا راستہ اختیار کیا ۔ کہ اس طرح گائے ذبح کرو اور پھر اس کے جسم کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش پر مارو تو وہ خود اپنے قاتل کا نام بتا دے گا۔ حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ انہیں بذریعہ وحی بھی قاتل کی خبر مل سکتی تھی اور وہ ان کو بتا سکتے تھے۔ اس کے متعلق مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اسرائیلیوں کے دماغوں میں تعمق بھرا ہوا تھا۔ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) براہ راست قاتل کی نشاندہی کردیتے تو قوم بگڑ جاتی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کی عادات کو خوب سمجھتے تھے۔ جب وہ توراۃ لے کر آئے تھے۔ تو اس وقت بھی اسرائیلیوں نے اسے اللہ تعالیٰ کی کتاب ماننے سے انکار کردیا تھا۔ آخر مجبور ہو کر انہوں نے اسے تسلیم کیا۔ پھر انہوں نے عہد و پیمان کو بھی توڑا۔ اور جب ان پر جبر کیا گیا کوہ طور ان کے سروں پر معلق کردیا گیا۔ پھر وہ راہ راست پر آئے۔ اور توراۃ پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ نبی سے قطع تعلقی : امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ) کہ اس قسم کی برائیاں نبی کے علم و عمل سے علیحدگی کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں۔ اور نبی سے لاتعلقی تین وجوہ سے ہوتی ہے۔ اولاً بیخبر ی یعنی امتی کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ نبی کا عمل اور عقیدہ کیا ہے۔ ثانیاً یہ کہ طبیعتوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے۔ امتی اصل راستے سے بھٹک جائیں تو بھی نبی سے تعلق کمزور پڑجاتا ہے۔ تیسری وجہ ماحول کا اثر ہے۔ جب لوگ معاشرے کے دیگر لوگوں سے متاثر ہو کر ان کا طریقہ اختیار کرلیں۔ تو پھر بھی اپنے نبی سے قطع تعلقی پیدا ہوجاتی ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ تینوں بیماریاں موجود تھیں جن کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بات بات میں تکرار کرتے تھے۔ حجت بازی اور حیلہ بازی کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو ٹالنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ بیماریاں آج امت محمدیہ میں بھی موجود ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا (2 ۔ بخاری ج 2 ص 1088 ، مسلم ج 2 ص 339) “ لتتبعن سنن من کان قبلکم ” یعنی اے میری امت ! ایک وقت آئے گا۔ جب تم بھی پہلی قوموں کی طرح ہی ہوجاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ ان کمزوریوں سے محفوظ رکھے۔ اور نبی (علیہ السلام) کی صحیح اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ ٹھٹھا حرام ہے : ارشاد ہوتا ہے “ واذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ ” اس واقعہ کو یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو۔ بقرہ کا لفظ عربی زبان میں عام طور پر گائے پر بولا جاتا ہے۔ مگر یہ لفظ اسم جنس کے طور پر بھی اختیار کیا جاتا ہے یعنی نر اور مادہ یا گائے اور بیل دونوں پر استعمال ہوتا ہے بعض (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 281 ، 282) کہتے ہیں کہ جس جانور کو اللہ تعالیٰ نے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ وہ گائے نہیں بلکہ بیل تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیکر تمہارے مسئلہ کا حل فرمایا ہے۔ تم حکم کے مطابق گائے یا بیل ذبح کرکے اس کے گوشت کا ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگاؤ تو یہ زندہ ہو کر خود اپنے قاتل کا نام بتا دے گا ۔ مگر وہ ظالم قوم تعمیل حکم کی بجائے کہنے لگی۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) “ قالوا اتتخذنا ھزوا ” کیا آپ ہمارے ساتھ ٹھٹھا (مذاق) کرتے ہیں بھلا ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ مردہ دوبارہ زندہ ہوجائے۔ اور اپنے قاتل کی نشاندہی کرے۔ یہ تو آپ ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہیں ۔ “ ھزوا ” مصدر بمعنی للمفعول ہے۔ لفظی معنی یہ ہے کہ کیا تم ہمیں ٹھٹھا کیا ہوا بناتا ہے۔ دیکھو ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا عظیم اور صاحب کتاب نبی ہے۔ مگر قوم اس قدر بگڑی ہوئی ہے کہ معجزہ کا انکار کر رہی ہے۔ حالانکہ تھوڑا عرصہ قبل ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر کئی ایک معجزات کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرعون کی غلامی سے نجات دلائی پھر یہ چالیس سال تک صحرا میں سرگرداں پھرتے رہے۔ من وسلویٰ کھاتے رہے۔ پانی کے لیے بارہ چشمے جاری ہوئے۔ اس کے باوجود مزاج فاسد ہیں۔ صاف کہہ دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس بات سے کہ جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔ اے نادانوں ! تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ میں خدا تعالیٰ کا نبی ہو کر خدا تعالیٰ کا حکم سنا رہا ہوں۔ تم کہتے ہو کہ مخول کر رہا ہوں۔ یہ تو جاہلوں کا کام ہے ۔ اسی لیے ہماری شریعت میں ٹھٹھا حرام ہے۔ سورة حجرات میں آتا ہے ۔ “ لا یسخر قوم من قوم ” کوئی قوم کسی قوم سے ٹھٹھا نہ کرے۔ یہ ہنسی مذاق جس سے دوسرے کی تحقیر ہوتی ہو۔ سخت منع ہے۔ ہاں ایسا مذاق جس سے دوسرے کی تحقیر کا پہلو نہ نکلتا ہو جائز ہے۔ تاہم اس کی زیادتی بھی مناسب نہیں۔ خوشی طبعی جائز ہے : صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں (1 ۔ ترمذی ص 293 وشمائل مع ترمذی ص 585) کہ بعض اوقات حضور ﷺ ہمارے ساتھ خوش طبعی بھی فرمایا کرتے تھے۔ ہم نے عرض کیا۔ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہو کر خوش طبعی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں میں خوش طبعی کرتا ہوں۔ مگر میری خوش طبعی اور عام لوگوں کی خوش طبعی میں بنیادی طور پر فرق ہے۔ “ ان لا اقول الا حقا ” میں حق کے بغیر کچھ نہیں کہتا۔ خواہ خوش طبعی ہی ہو۔ حدیث شریف میں موجود ہے (2 ۔ ترمذی ص 293 وشمائل مع ترمذی ص 585) کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا حضور ! میں جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ مگر میرے پاس سواری نہیں ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔ تمہیں اونٹ کے بچے پر سوار کردیں گے۔ اس نے سمجھا کہ شاید حضور اونٹ کا کوئی بچہ عنایت فرمائیں گے۔ کہنے لگا مگر میں اس پر سواری کیا کروں گا۔ اس کی تو حفاظت کرنی پڑے گی۔ نامعلوم کتنے سال بعد وہ بچہ سواری کے قابل ہوگا۔ اس کی یہ بات سن کر حضور ﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ تم نے اونٹ کے بچے کو بالکل چھوٹا بچہ کیوں سمجھ لیا۔ بڑا اونٹ بھی تو کسی اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے میں تمہیں اونٹ کا وہ بچہ دوں گا جو سواری کے قابل ہوگا ۔ اسی طرح ایک بڑھیا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ کے نبی ! میرے لیے جنت کی دعا فرمائیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا ۔ اے اُم فلاں ! کوئی بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوسکتی۔ وہ بیچاری پر یان ہوگئی۔ جب وہ روتی ہوئی جانے لگی تو حضور ﷺ نے اسے واپس بلوایا ، اور فرمایا کہ میں نے صحیح بات کی ہے۔ جنت میں بوڑھی عورت نہیں جائیگی۔ بلکہ جو بھی جائے گی۔ جوانی کے عالم میں جائے گی۔ جنتی مرد اور عورتیں سب تیس پینتس سال کے پیٹے میں ہوں گے۔ جب وہ جنت میں جائیں گے۔ الغرض ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا پناہ بخدا کہ میں ٹھٹھا کر کے جاہل بن جاؤں یہ ان نبوت کے خلاف ہے میں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا رہا ہوں۔ اس کا حکم سن رہا ہوں اور تم اسے ٹھٹھے پر محمول کر رہے ہو۔ اب وہ سمجھے کہ یہ تو سنجیدہ بات ہے۔ چناچہ انہوں نے سوالات کرنے شروع کردیے جن کا ذکر آگے آرہا ہے ۔
Top