Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَ
: اور
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
مُوْسٰى
: موسیٰ نے
لِقَوْمِهٖٓ
: اپنی قوم سے
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ تعالیٰ
يَاْمُرُكُمْ
: حکم دیتا ہے تم کو
اَنْ
: یہ کہ
تَذْبَحُوْا
: تم ذبح کرو
بَقَرَةً
: ایک گائے
قَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اَتَتَّخِذُنَا
: کیا تم کرتے ہو ہم سے
ھُزُوًا
: مذاق
قَالَ
: اس نے کہا ( موسیٰ )
اَعُوْذُ
: میں پناہ مانگتا ہوں
بِاللّٰهِ
: اللہ کی (اس بات سے
اَنْ
: کہ
اَكُوْنَ
: میں ہوجاؤں
مِنَ
: سے
الْجٰهِلِيْنَ
: جاہلوں میں سے
اور جب کہا موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے بیشک اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو۔ تو انہوں نے کہا کیا تو بناتا ہے ہم کو ٹھٹھا کیا ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا۔ پناہ بخدا۔ اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی حیلہ سازی کا تذکرہ بیان فرمایا تھا۔ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کو کس طرح توڑتے تھے۔ اس جرم کی پاداش میں ان کی شکلوں کو تبدیل کردیا گیا۔ اور بالآخر وہ ہلاک ہوگئے۔ آیت زیر درس میں بنی اسرائیل کے ایک اور واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں اس قوم کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ مگر انہوں نے اس حکم کو ٹالنا چاہا۔ اور اس ضمن میں طرح طرح کے سوال کئے۔ گویا بال کی کھال اتار رہے ہیں۔ من حیث القوم یہ خرابی بھی بنی اسرائیل میں موجود تھی اس آیت میں اسی بات کا ذکر کیا گیا ہے۔ واقعاتی ربط : دراصل گائے ذبح کرنے کا حکم ایک خاص مقصد کے تحت دیا گیا تھا۔ جس کا ذکر اگلے رکوع کی پہلی آیت میں ہے “ واذقتلتم نفسا فادرءتم فیھا ” جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈالا ۔ اور الزام ایک دوسرے کے سر تھوپنے لگے “ واللہ مخرج ما کنتم تکتمون ” اور اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے۔ جس کو تم چھپاتے ہو۔ قتل تو ہوگیا۔ مگر قاتل کا پتا نہیں چلتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم ایک گائے ذبح کرو اور اس کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر مارو ، تو وہ زندہ ہو کر خود بتا دے گا۔ کہ اس کا قاتل کان ہے ، چناچہ قاتل کا پتہ چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کا تذکرہ آیت زیر درس میں ہو رہا ہے۔ اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس مقصد کی خاطر گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا۔ اس کو تو بعد میں بیان کیا ہے۔ مگر اس حکم کا تذکرہ پہلے کردیا گیا ہے۔ گویا واقعات کے تقدم و تاخر کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اس کے متعلق مفسرین کرام بیان کرتے ہیں (1 ) کہ قرآن پاک کا اسلوب بیان یہ ہے کہ جو چیز زیادہ ضروری ہوتی ہے اسے پہلے بیان کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کے دو اجزاء ہیں۔ ایک اصل قتل ۔ جس میں مقتول کا حق ضائع ہوا۔ اور دوسرا جزو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے “ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ ” اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم بندوں کے حق پر مقدم ہے اس لئے گائے ذبح کرنے کے واقعہ کو مقد رکھا ، اور اصل واقعہ قتل کو مؤخر کردیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں بعض دوسری مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے حق کو بندوں پر مقدم رکھا گیا ہے۔ مثلاً “ وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوا الدین احسانا ” تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنا حق پہلے بیان کیا اور والدین یعنی بندوں کا بعد میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح سورة لقمان میں آتا ہے “ وان جاھدک علی ان تشرک بی ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما ” اگر ماں باپ اللہ تعالیٰ کے حقوق ضائع کرنا چاہیں یعنی تمہیں شرک پر آمادہ کریں تو ان کی اطاعت مت کرو۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھا اس واقعہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ذبح گائے کو مقدم رکھا۔ کہ یہ اس کا اپنا حق ہے اور مقتول کے حق یعنی دیت یا قصاص وغیرہ کو مؤخر کردیا۔ اس واقعہ سے حیات بعد الممات کا مسئلہ بھی حل ہوتا ہے۔ “ کذلک یحی اللہ الموتی ” کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اس مردہ کو دوبارہ زندہ کردیا۔ اور اس نے اپنے قاتل کی نشاندہی کردی اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے روز تمام مردوں کو دوبارہ زندہ کر دے گا۔ اور پھر حساب کتاب اور جزا و سزا کے تمام واقعات پیش آئیں گے۔ وجہ قتل : ملا علی قاری (رح) دسویں صدی کے بڑے پائے کے محدث گزرے ہیں آپ کا اصل وطن ہرات تھا۔ مگر مکہ میں آباد ہوگئے تھے۔ انہوں نے عربی میں مرقات کے نام سے مشکوۃ شریف کی بلند پایہ شرح لکھی ہے۔ اپنی اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک بڑا دولتمند شخص تھا۔ جس کی ایک بیٹی تھی۔ کسی نے اسے نکاح کا پیغام بھیجا مگر اس شخص نے قبول نہ کیا جس کی وجہ سے اسے قتل کردیا گیا۔ عام طور پر مفسرین کرام وجہ قتل یہ بیان کرتے ہیں (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 108) کہ عامیل نامی ایک دولت مند شخص تھا جو کہ لاولد تھا۔ اس کے بھائی کے لڑکے اس کی جائیداد کے وارث تھے۔ چناچہ اس کے بھتیجے اس تاک میں تھے کہ یہ مرے تو اس کی جائیداد پر قبضہ کریں ۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) لکھتے ہیں (2 تفسیر عزیزی فارسی ص 278 پارہ 1) کہ اس شخص کے بھتیجے مناسب موقع کی تلاش میں رہے۔ آخر ایک دن اسے کسی کام کے بہانے کہیں دوسری جگہ لے گئے اور ویرانے میں جا کر قتل کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے خود ہی رونا پیٹنا شروع کردیا کہ کسی نے ان کے چچا کو قتل کردیا ہے۔ حتیٰ کہ قریبی بستی والوں پر قتل کا الزام لگایا۔ اور ان سے دیت بھی طلب کی۔ مگر بستی والوں نے اس قتل میں ملوث ہونے کی نفی کی اور کہا کہ ہم اس معاملہ میں بالکل بےگناہ ہیں “ نادرءتم فیھا ” میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔ کہ تم قتل کا الزام ایک دوسرے پر لگا رہے تھے۔ قانون قسامت : قانون قسامت یہ ہے (3 ۔ ہدایہ ج 4 ص 526 ، 547) کہ اگر کسی مقتول کے قاتل کا پتا نہ چلتا ہو۔ تو وقوعہ قتل سے قریب تریب بستی کے لوگوں سے قتل کے متعلق دریافت کیا جائے گا۔ اگر وہ انکار کریں تو ان میں سے پچاس آدمی منتخب کرکے قسم دلائی جائے گی۔ کہ نہ انہوں نے خود قتل کیا ہے۔ اور نہ وہ قاتل کو جانتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ لوگ قتل کے الزام سے تو بری ہوجائیں گے۔ تاہم انہیں مقتول کے ورثا کو دیت یعنی خون بہا دینا پڑیگا۔ اس واقعہ کے متعلق مفسرین کرام کی مختلف آراء ہیں۔ بعض کہتے ہیں (4 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 278 پارہ نمبر 1) کہ قتل کے اس واقعہ کے وقت بنی اسرائیل میں قسامت کا قانون رائج تھا۔ جس کا ذکر توراۃ میں بھی موجود ہے۔ اور یہ ہماری شریعت میں بھی موجود ہے۔ بنی اسرائیل کا قانون قسامت یہ تھا۔ کہ قاتل نامعلوم ہونے کی صورت میں وقوعہ کی قریبی بستی سے معتبرین کو نکالا جائے گا۔ اور وہ لوگ بچھیا (گائے) لیں جس نے نہ حل چلایا ہو ۔ بلکہ درمیانی عمر کی ہو۔ اور بےعیب ہو ۔ وہ لوگ بچھیا کو پاس بہنے والی ندی پر لیجا کر اسکی گردن توڑ دیں۔ اور پھر لادی خاندان کے کا من اس پر کچھ پڑھیں پڑھائیں۔ یہ لوگ اس ندی پر اپنے ہاتھ دھوئیں اور یوں کہیں کہ اے پروردگار ہم اس خون سے بری ہیں نہ ہم کو علم ہے کہ یہ خون کس نے کیا ہے جب وہ ایسا کریں گے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے گا۔ کثرت سوال سے بچو : بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 32) کہ جس وقت قتل کا یہ واقعہ پیش آیا اس وقت تک توراۃ نازل ہی نہیں ہوئی تھی۔ چونکہ ان کے پاس اس مسئلہ کا حل موجود نہیں تھا۔ اس لیے وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی تھے اور ظاہری طور پر حکومت بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی تھی۔ چناچہ آپ نے ان لوگوں کو فرمایا کہ بھائی ! ایک گائے ذبح کرو تو تمہارے مسئلہ کا حل نکل آئے گا۔ صحیح حدیث میں آتا ہے (2 ۔ تفسیر مظہری ج 1 ص 80 ، درمنثور ج 1 ص 77 ، ابن کثیر ج 1 ص 21) کہ اگر بنی اسرائیل اس وقت لیت ولعل نہ کرتے بلکہ کوئی بھی گائے ذبح کردیتے تو بات بن جاتی۔ مگر ان کی طبعیتوں میں تعمق تھا۔ وہ بال کی کھال اتارنا جانتے تھے۔ انہوں نے پیغمبر کا حکم ماننے کی بجائے طرح طرح کے سوالات کرنے شروع کردیے نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ جوں جوں سوال کرتے گئے توں توں سختی بڑھتی گئی حتیٰ کہ بیچ نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہ رہا اور وہ مجبور ہوگئے ۔ مگر اس حیلہ سازی میں کافی عرصہ گزر گیا۔ اور انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم پر عمل نہ کیا۔ اسی لیے حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (3 ) کہ تعمق اچھا نہیں ہر بات میں بال کی کھال نہ اتارو بلکہ حکم پر عمل کرو۔ جس قدر زیادہ باریکی میں جاؤ گے۔ اسی قدر سختی میں مبتلا ہوگے۔ اور آخر مجبور ہوجاؤ گے۔ قاتل کی تلاش کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک لمبا راستہ اختیار کیا ۔ کہ اس طرح گائے ذبح کرو اور پھر اس کے جسم کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش پر مارو تو وہ خود اپنے قاتل کا نام بتا دے گا۔ حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے۔ انہیں بذریعہ وحی بھی قاتل کی خبر مل سکتی تھی اور وہ ان کو بتا سکتے تھے۔ اس کے متعلق مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اسرائیلیوں کے دماغوں میں تعمق بھرا ہوا تھا۔ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) براہ راست قاتل کی نشاندہی کردیتے تو قوم بگڑ جاتی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کی عادات کو خوب سمجھتے تھے۔ جب وہ توراۃ لے کر آئے تھے۔ تو اس وقت بھی اسرائیلیوں نے اسے اللہ تعالیٰ کی کتاب ماننے سے انکار کردیا تھا۔ آخر مجبور ہو کر انہوں نے اسے تسلیم کیا۔ پھر انہوں نے عہد و پیمان کو بھی توڑا۔ اور جب ان پر جبر کیا گیا کوہ طور ان کے سروں پر معلق کردیا گیا۔ پھر وہ راہ راست پر آئے۔ اور توراۃ پر عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ نبی سے قطع تعلقی : امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ) کہ اس قسم کی برائیاں نبی کے علم و عمل سے علیحدگی کی بنا پر پیدا ہوتی ہیں۔ اور نبی سے لاتعلقی تین وجوہ سے ہوتی ہے۔ اولاً بیخبر ی یعنی امتی کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ نبی کا عمل اور عقیدہ کیا ہے۔ ثانیاً یہ کہ طبیعتوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے۔ امتی اصل راستے سے بھٹک جائیں تو بھی نبی سے تعلق کمزور پڑجاتا ہے۔ تیسری وجہ ماحول کا اثر ہے۔ جب لوگ معاشرے کے دیگر لوگوں سے متاثر ہو کر ان کا طریقہ اختیار کرلیں۔ تو پھر بھی اپنے نبی سے قطع تعلقی پیدا ہوجاتی ہے۔ بنی اسرائیل میں یہ تینوں بیماریاں موجود تھیں جن کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بات بات میں تکرار کرتے تھے۔ حجت بازی اور حیلہ بازی کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو ٹالنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ بیماریاں آج امت محمدیہ میں بھی موجود ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا (2 ۔ بخاری ج 2 ص 1088 ، مسلم ج 2 ص 339) “ لتتبعن سنن من کان قبلکم ” یعنی اے میری امت ! ایک وقت آئے گا۔ جب تم بھی پہلی قوموں کی طرح ہی ہوجاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ ان کمزوریوں سے محفوظ رکھے۔ اور نبی (علیہ السلام) کی صحیح اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔ ٹھٹھا حرام ہے : ارشاد ہوتا ہے “ واذ قال موسیٰ لقومہ ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ ” اس واقعہ کو یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کرو۔ بقرہ کا لفظ عربی زبان میں عام طور پر گائے پر بولا جاتا ہے۔ مگر یہ لفظ اسم جنس کے طور پر بھی اختیار کیا جاتا ہے یعنی نر اور مادہ یا گائے اور بیل دونوں پر استعمال ہوتا ہے بعض (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 281 ، 282) کہتے ہیں کہ جس جانور کو اللہ تعالیٰ نے ذبح کرنے کا حکم دیا تھا۔ وہ گائے نہیں بلکہ بیل تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیکر تمہارے مسئلہ کا حل فرمایا ہے۔ تم حکم کے مطابق گائے یا بیل ذبح کرکے اس کے گوشت کا ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگاؤ تو یہ زندہ ہو کر خود اپنے قاتل کا نام بتا دے گا ۔ مگر وہ ظالم قوم تعمیل حکم کی بجائے کہنے لگی۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) “ قالوا اتتخذنا ھزوا ” کیا آپ ہمارے ساتھ ٹھٹھا (مذاق) کرتے ہیں بھلا ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ مردہ دوبارہ زندہ ہوجائے۔ اور اپنے قاتل کی نشاندہی کرے۔ یہ تو آپ ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہیں ۔ “ ھزوا ” مصدر بمعنی للمفعول ہے۔ لفظی معنی یہ ہے کہ کیا تم ہمیں ٹھٹھا کیا ہوا بناتا ہے۔ دیکھو ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا عظیم اور صاحب کتاب نبی ہے۔ مگر قوم اس قدر بگڑی ہوئی ہے کہ معجزہ کا انکار کر رہی ہے۔ حالانکہ تھوڑا عرصہ قبل ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر کئی ایک معجزات کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں فرعون کی غلامی سے نجات دلائی پھر یہ چالیس سال تک صحرا میں سرگرداں پھرتے رہے۔ من وسلویٰ کھاتے رہے۔ پانی کے لیے بارہ چشمے جاری ہوئے۔ اس کے باوجود مزاج فاسد ہیں۔ صاف کہہ دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس بات سے کہ جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔ اے نادانوں ! تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ میں خدا تعالیٰ کا نبی ہو کر خدا تعالیٰ کا حکم سنا رہا ہوں۔ تم کہتے ہو کہ مخول کر رہا ہوں۔ یہ تو جاہلوں کا کام ہے ۔ اسی لیے ہماری شریعت میں ٹھٹھا حرام ہے۔ سورة حجرات میں آتا ہے ۔ “ لا یسخر قوم من قوم ” کوئی قوم کسی قوم سے ٹھٹھا نہ کرے۔ یہ ہنسی مذاق جس سے دوسرے کی تحقیر ہوتی ہو۔ سخت منع ہے۔ ہاں ایسا مذاق جس سے دوسرے کی تحقیر کا پہلو نہ نکلتا ہو جائز ہے۔ تاہم اس کی زیادتی بھی مناسب نہیں۔ خوشی طبعی جائز ہے : صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں (1 ۔ ترمذی ص 293 وشمائل مع ترمذی ص 585) کہ بعض اوقات حضور ﷺ ہمارے ساتھ خوش طبعی بھی فرمایا کرتے تھے۔ ہم نے عرض کیا۔ کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہو کر خوش طبعی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہاں میں خوش طبعی کرتا ہوں۔ مگر میری خوش طبعی اور عام لوگوں کی خوش طبعی میں بنیادی طور پر فرق ہے۔ “ ان لا اقول الا حقا ” میں حق کے بغیر کچھ نہیں کہتا۔ خواہ خوش طبعی ہی ہو۔ حدیث شریف میں موجود ہے (2 ۔ ترمذی ص 293 وشمائل مع ترمذی ص 585) کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا حضور ! میں جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ مگر میرے پاس سواری نہیں ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔ تمہیں اونٹ کے بچے پر سوار کردیں گے۔ اس نے سمجھا کہ شاید حضور اونٹ کا کوئی بچہ عنایت فرمائیں گے۔ کہنے لگا مگر میں اس پر سواری کیا کروں گا۔ اس کی تو حفاظت کرنی پڑے گی۔ نامعلوم کتنے سال بعد وہ بچہ سواری کے قابل ہوگا۔ اس کی یہ بات سن کر حضور ﷺ مسکرائے اور فرمایا کہ تم نے اونٹ کے بچے کو بالکل چھوٹا بچہ کیوں سمجھ لیا۔ بڑا اونٹ بھی تو کسی اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے میں تمہیں اونٹ کا وہ بچہ دوں گا جو سواری کے قابل ہوگا ۔ اسی طرح ایک بڑھیا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ کے نبی ! میرے لیے جنت کی دعا فرمائیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا ۔ اے اُم فلاں ! کوئی بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوسکتی۔ وہ بیچاری پر یان ہوگئی۔ جب وہ روتی ہوئی جانے لگی تو حضور ﷺ نے اسے واپس بلوایا ، اور فرمایا کہ میں نے صحیح بات کی ہے۔ جنت میں بوڑھی عورت نہیں جائیگی۔ بلکہ جو بھی جائے گی۔ جوانی کے عالم میں جائے گی۔ جنتی مرد اور عورتیں سب تیس پینتس سال کے پیٹے میں ہوں گے۔ جب وہ جنت میں جائیں گے۔ الغرض ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا پناہ بخدا کہ میں ٹھٹھا کر کے جاہل بن جاؤں یہ ان نبوت کے خلاف ہے میں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا رہا ہوں۔ اس کا حکم سن رہا ہوں اور تم اسے ٹھٹھے پر محمول کر رہے ہو۔ اب وہ سمجھے کہ یہ تو سنجیدہ بات ہے۔ چناچہ انہوں نے سوالات کرنے شروع کردیے جن کا ذکر آگے آرہا ہے ۔
Top