Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 260
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ كَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰى١ؕ قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ١ؕ قَالَ بَلٰى وَ لٰكِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ١ؕ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْهُنَّ اِلَیْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ یَاْتِیْنَكَ سَعْیًا١ؕ وَ اعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰھٖمُ : ابراہیم رَبِّ : میرے رب اَرِنِيْ : مجھے دکھا كَيْفَ : کیونکر تُحْيِ : تو زندہ کرتا ہے الْمَوْتٰى : مردہ قَالَ : اس نے کہا اَوَلَمْ : کیا نہیں تُؤْمِنْ : یقین کیا قَالَ : اس نے کہا بَلٰي : کیوں نہیں وَلٰكِنْ : بلکہ لِّيَطْمَئِنَّ : تاکہ اطمینان ہوجائے قَلْبِىْ : میرا دل قَالَ : اس نے کہا فَخُذْ : پس پکڑ لے اَرْبَعَةً : چار مِّنَ : سے الطَّيْرِ : پرندے فَصُرْھُنَّ : پھر ان کو ہلا اِلَيْكَ : اپنے ساتھ ثُمَّ : پھر اجْعَلْ : رکھ دے عَلٰي : پر كُلِّ : ہر جَبَلٍ : پہاڑ مِّنْهُنَّ : ان سے (انکے) جُزْءًا : ٹکڑے ثُمَّ : پھر ادْعُهُنَّ : انہیں بلا يَاْتِيْنَكَ : وہ تیرے پاس آئینگے سَعْيًا : دوڑتے ہوئے وَاعْلَمْ : اور جان لے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور اس بات کو یاد کرو جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار سے کہا کہ مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے اللہ عالیٰ نے فرمایا ، کیا تم یقین نہیں رکھتے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کیوں نہیں میں یقین رکھتا ہوں لیکن یہ اس لیے تا کہ میرا دل تسکین پکڑے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، کیا تم یقین نہیں رکھتے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کیوں نہیں میں یقین رکھتا ہوں لیکن یہ اس لیے تا کہ میرا دل تسکین پکڑے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، چار پرندے پکڑ لو اور پھر انہیں اپنے پاس مانوس کرلو ( یا اپنے پاس ٹکڑے ٹکڑے کردو) پھر ہر پہاڑ پر ان میں سے ایک ایک جزو رکھ دو ۔ پھر ان کو بلائو ، وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے اور جان لو کہ بیشک اللہ تعالیٰ کمال قدرت کا مالک اور حکمت والا ہے
تمہید توحید باری تعالیٰ ، اس کی کمال قدرت اور بعثت بعد الموت کے متعلق اس رکوع میں دو واقعات آچکے ہیں ، گزشتہ سے پیوستہ درس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کے مناظرے کی تفصیلات بیان ہوئی تھیں اور گزشتہ درس میں حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ آیا تھا جس میں انہوں نے موت وحیات کے منظر کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر کے اطمینان قلب حاصل کیا ۔ آج کے درس میں اسی قسم کا تیسرا واقعہ بیان ہو رہا ہے۔ اس میں بھی بعث بعد الموت کا بیان ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خو د اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ انہیں مردوں کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرایا جائے تا کہ ان کا ایمان عین الیقین کے درجے تک پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ چار پرندے لے کر ذبح کرو ، ان کے گوشت آپس میں ملا دو ، پھر ان کے تھوڑے تھوڑے حصے مختلف پہاڑوں پر رکھ دو ، اس کے بعد ہر ایک پرندے کو اس کا نام لے کر بلائو ، وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے ۔ اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی آنکھوں سے مردہ پرندوں کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھ کر اطمینان قلب حاصل کیا ۔ پس منظر بعض مفسرین کرام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اللہ تعالیٰ سے اس سوال کے پس منظر میں یہ بات بیان کرتے ہیں کہ موت اور زندگی سے متعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ مکالمہ ہوچکا تھا۔ جس میں آپ نے دعویٰ کیا تھا کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے۔ مگر نمرود اس کا مطلب نہ سمجھ سکا اور اس نے بےگناہ کو قتل کرادیا اور مجرم کو آزاد کردیا چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی اس احمقانہ حرکت پر موضوع سخن بدل کر طلوع شمس کی دلیل پیش کردی جس سے نمرود عاجز آ گیا تو مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اگرچہ ابراہیم (علیہ السلام) کو پورا پورا یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ مگر ان کے دل میں موت وحیات کا منظر اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر نیکی خواہش پید اہوئی ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھا دیا کہ کس طرح پرندے زندہ ہوگئے۔ بعض دوسرے مفسرین اس پس منظر میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دریا کے کنارے پر ایک مردہ جانور پڑا دیکھا ۔ جب دریا میں مد آتی اور پانی کناروں سے باہر نکلتا تو دریائی جانور مر دہ جانور کا گوشت کھاتے اور جب پانی پیچھے ہٹ جاتا تو خشکی کے جانور اس مردار کا گوشت کھاتے اور اوپر سے پرندے بھی آ کر گوشت کھا جاتے ، یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دل میں خیال پیدا ہوا کہ اس مردار کا گوشت خشکی ، پانی اور فضا کے جانور کھا رہے ہیں ، یہ گوشت کتنے مختلف پیٹوں میں جا رہا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مختلف اجزاء کس کس جگہ سے کیسے اکٹھے کر کے اس کو دوبارہ زندہ کریگا ۔ لہٰذا ان کی خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ انہیں وہ کیفیت مشاہدہ کرا دے جس طرح وہ قیامت کے دن لوگوں کو دوبارہ زندہ کریگا ۔ چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا ۔ واذقال ابراہیم رب ارنی کیف تحی الموتی اے مولا کریم ! مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کریگا ، اللہ تعالیٰ نے جواب دیا قال اولم تو من کیا تمہیں یقین نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ کیا تمہیں اس معاملے میں کوئی شک ہے۔ قال بلی ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کیوں نہیں ، میں یقین رکھتا ہوں ، مگر سوال کرنے کا مقصد یہ ہے ۔ ولکن لیطمن قلبی کہ میں اس معاملے میں اطمینا ن قلب چاہتا ہوں ۔ انبیاء شک سے پاک ہیں اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابراہیم (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کسی شک کی بناء پر تھا کہ واقعی کوئی شخص مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے یا نہیں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ اس معاملہ میں تو کسی عام مومن کو بھی شک نہیں ہو سکتا ۔ ابراہیم (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے انہیں یہ شک کیسے ہو سکتا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا اولم تو من تو یقین نہیں رکھتا کہ مردے دوبارہ زندہ ہوجائیں گے ۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) کا جواب تھا بلیٰ کیوں نہیں زندہ ہو سکتے ؟ اے اللہ کریم ! مجھے تو یقین کامل ہے ، مگر میں محض تسکین قلب کے لیے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں ۔ لہٰذا وہاں پر شک کا کوئی احتمال نہیں تھا۔ صحیحین کی روایت میں آتا ہے حضور ﷺ ے فرمایا ۔ نحن احق بالشک من ابراہیم یعنی اگر ابراہیم (علیہ السلام) کو کسی قسم کا شک یا تردد ہوتا تو ہم ان کی نسبت شک کرنے کے زیادہ حق دار ہیں ۔ مگر ایسا نہیں ہے نہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کبھی شک ہوا اور نہ میں نے کبھی اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک کیا ہے ۔ انبیاء ہمیشہ شک سے پاک ہوتے ہیں ۔ اطمینان قلب کے لیے کسی چیز کا مطالبہ کرنا کمال یقین کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ تسکین قلب ایمان سے زائد چیز ہے ۔ سورة فتح میں حدیبیہ کے واقعہ سے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب صحابہ کرام ؓ درخت کے نیچے بیٹھ کر حضور ﷺ کے دست مبارک پر بیعت رضوان کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ ۔۔۔ انکے دلوں کی بات کو جانتا تھا فانزل السکینہ علیھم اور ان پر تسکین نازل فرمائی ۔ نبی کریم اور تمام صحابہ کرام ؓ کو تسکین قلب حاصل ہوگئی ۔ بعض دوسرے مواقع پر بھی اس قسم کے ارشادات ملتے ہیں ۔ تو بہر حال نبی کریم ﷺ نے بھی یہی بات سمجھائی کہ مردوں کو زندہ کرنے یا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کسی بھی معاملے میں کسی نبی کو شک نہیں ہو سکتا ۔ جب میں کسی معاملہ میں شک نہیں کرتا تو ابراہیم (علیہ السلام) کیسے شک کرسکتے تھے۔ حضر ت علی ؓ کا مقولہ ہے لو کشف الغطاء مازودت یقینا یعنی اگر غیب کا پردہ بھی کھول دیا جائے۔ تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا ۔ اس قول سے بعض لوگوں نے یہ اخذ کیا ہے کہ حضرت علی ؓ ۔۔۔۔۔ کا علم الیقین اتناپختہ ہے کہ عین الیقین سے ان کے ایمان میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا ۔ بر خلاف اس کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اطمینان قلب کے لیے خود عین الیقین کا مطالبہ کر رہے ہیں لہٰذا بقول ان کے اس سے حضرت علی ؓ کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر فضلیت ثابت ہوتی ہے۔ بھائی ! یہ بات نہیں ہے ۔ حضرت علی ؓ تو اولیاء الہ میں سے ہیں جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ ہیں ۔ ان کے مراتب میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ مفسر قرآن مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ ایک ولی کا عین الیقین بھی نبی کے علم الیقین تک نہیں پہنچ سکتا ، نبی کا اصل یقین ہی اتنا بلند ہے کہ ولی کی وہاں تک رسائی نہیں ۔ چہ جائیکہ بنی کے طمانیت قلب والے یقین تک پہنچ جائے وہ تو اور بھی بلند ہوتا ہے ، لہٰذا ولی کی نبی پر فضلیت تو کجا ، وہ تو انبیاء کی گرد تک کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ حضرت علی ؓ کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کی حد تک ان کا یقین اتنا پختہ ہے کہ اس میں مزید اضافے کی گنجائش نہیں اگرچہ درمیان سے غیب کا پردہ بھی اٹھ جائے آپ نے اطمینان قلب کی بات نہیں کی ۔ یقین اور طمانیت قلب دو علیحدہ چیزیں ہیں ۔ اسی لیے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی فرمایا تھا کہ مولا کریم ! تیری قدرت پر مجھے پورا پورا یقین ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ، مگر میں دلی اطمینان چاہتا ہوں جو کہ اس سے اگلا درجہ ہے ، مجھے میری آنکھوں سے مشاہدہ کرا دے کہ مردے کس طرح زندہ ہوتے ہیں۔ چار پرندے قال اللہ تعالیٰ نے فرمایا فخذاربعۃ من الطیر چار پرندے پکڑ لو ۔ فصر ھن الیک انکو مانوس کرلو ، اپنی طرف مائل کرلو ۔ بعض اسے ص کی زیر کے ساتھ فصر ھن پڑھتے ہیں ۔ صار یصیر کا معنی ٹکڑے ٹکڑے کرنا بھی ہوتا ہے اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا کہ چار پر دنے لو اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دو ۔ بہر حال یہ لفظ دونوں معنوں میں آتا ہے ۔ اپنے ساتھ ماوس کرلو ، یا ذبح کر کے بوٹی بوٹی کر دو ۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ پرندوں کو محض مانوس کیا گیا تھا ، ذبح نہیں کیا گیا تھا ۔ مگر یہ تفسیر مردو د ہے اصل بات یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان پر ندوں کو ذبح کیا ، ا کے پر اتار دیے اور ان کا گوشت ٹکڑے ٹکڑے کر کے آپس میں ملا دیا ۔ خلط ملط کردیا ، جیسے گوشت کا قیمہ کیا جاتا ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ چار جانور کون کون سے تھے۔ قرآن پاک میں تو اسکی تفصیل نہیں ہے ۔ البتہ تفسیروں میں آتا ہے کہ یہ چار جانور ، مرغ ، کوا ، کبوتر اور امور تھے۔ اور ان پردوں کا انتخاب اس وجہ سے تھا کہ ان میں کوئی نہ کوئی انسانی صفت پائی جاتی ہے مثلاً مرغ میں شہوت کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے اور یہی چیز انسان میں بد درجہ اتم موجود ہے۔ اسی وجہ سے بڑے ہنگامے ، جنگیں اور پھر تباہی ہوتی ہے کوے میں حرص کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور بعض انسان بھی حرص و ہوا میں بہت آگے ہوتے ہیں ۔ کبوتر میں دنیا کی محبت بیحد ہوتی ہے اور بعض دنیا دار انسان بھی اسی مرض میں مبتلا ہوتے تھے ، چوتھا جانور مور ہے اس میں تکبر کی فروانی ہوتی ہے جب خوش ہوتا ہے تو ناچنے لگتا ہے اور اپنے خوبصورت پر پھیلا دیتا ہے۔ اسے اپنے حس و جمال پر بڑا فخر ہے مگر جب اپنے پائوں کی طرف دیکھتا ہے تو شرمسارہو جاتا ہی اور پر گرا دیتا ہے۔ یہی حال حضرت انسان کا بھی ہے ذرا آسودگی ملتی ہے تو غرورو تکبر کرتا ہے ۔ بات بات پر اکڑنا شروع کردیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی پکڑآتی ہے تو ہتھیار ڈال دیتا ہے ۔ بعض لوگوں نے کوے کی جگہ گدھ کا ذکر کیا ہے وہ بھی کھانے کا بڑا لالچی ہوتا ہے۔ جب کہ اکثر انسان بھی کھانے پینے کو ہی زندگی سمجھتے ہیں ۔ انسان میں پائے جانے والے ان چار اوصاف یعنی حرص ، شہوت ، حب دنیا اور تکبر کے علاوہ ہر انسان کے بعض اپنے اپنے خواص بھی ہیں۔ جن میں خون ، سودا ، بلغم اور صفرا شامل ہیں ۔ بہر حال ان چار اوصاف والے پرندوں کے انتخاب سے یہ با ت بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ان کو ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان بھی اگر ان اوصاف فبیحہ کو کچل ڈالے تو کمال تک پہنچ جائے گا ، جب تک یہ گندے اوصاف انسان میں موجود رہیں ، وہ کامیابی کی منزل سے ہم کنار نہیں ہو سکتا۔ پرندوں کی موت و حیات بہر حال قرآن پاک یا حضور ﷺ نے ان پرندوں کی تفصیل نہیں بتائی۔ اس قسم کی باتیں تفسیری روایات میں آتی ہیں۔ اس قسم کی باتیں تفسیری روایات میں آتی ہیں۔ اس قسم کی حکمت کی باتیں مفسرین کرام سمجھا دیتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چاروں پرندوں کو ذبح کیا ۔ ان کے پر علیحدہ کردیئے۔ پھر ان کے گوشت کا قیمہ کر کے آپس میں ملا دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ثم اجعل علی کل جبل منھن جزء پھر ہر پہاڑ پر اس ملے جلے گوشت کا ایک جزو رکھ دو ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ے تعمیل حکم کیا ، اس قیمہ کے چار حصے کیے اور چار مختلف پہاڑوں پر رکھ دیے۔ پھر ارشاد ہوا ثم ادعھ پھر انہیں بلائو تفسیری روایات میں آتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے باری باری ہر ایک پردے کا نام لے کر بلایا اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا ۔ یاتیک سعیا ً تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آئیں گے چناچہ ایسا ہی ہوا۔ جب آپ نے مرغ کو آواز دی تو فضا میں اس کی ہڈیاں نمودار ہوئیں پھر اس کے گوشت کا جو حصہ جس جس پہا ڑ پر تھا ۔ وہاں سے فوراً آیا اور ہڈیوں پر چڑھ گیا ۔ پھر مرغ کے پر آ کر لگ گئے اور مکمل مرغ بن کر زندہ ہوگیا ۔ اس طرح دوسرے پردے بھی زندہ سلامت ہوگئے۔ جس طرح عزیر (علیہ السلام) کے گدھے کی ہڈیاں اکٹھی ہوئیں ان پر گوشت چڑھا اور پھر وہ مکمل گدھا بن کر آواز دیے لگا اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نظروں کے سامے ذبح شدہ پرندے دوبارہ زندہ ہوگئے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا کہ وہ مردوں کو کیسے زندہ کریگا ۔ یہ جواب تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس سوال کا رب اری کیفی تحی الموتی کہ مولا کریم ! مجھے مشاہدہ کرا دے کہ تو کس طرح مردوں کو زدہ کرتا ہے۔ کمال قدرت کا مشاہدہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت کا ایک نمونہ ہے اس قسم کے بیشمار مشاہدات انسان اپنی روزمرہ زندگی میں کرتا ہے۔ انسان کی آنکھوں کے سامنے بالکل خشک ہوجاتی ہے۔ کوئی سبزہ نہیں ہوتا ، پھر بارش ہوتی ہے ، تو پھر سر سبز ہوجاتی ہے ، گویا اللہ تعالیٰ یحییٰ الارض بعد موتھا مردہ زمین کو دوبارہ زندہ کردیتا ہے۔ فرمایا کذلک یحییٰ اللہ الموتی اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کردیگا یہ کوئی عجوبہ نہیں جس کا انکار کردیا جائے ۔ اس قسم کی چیزیں تو ہم ہر روز اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ ہر موسم کی اپنی بہار ہوتی ہے ، کبھی درخت اور نباتات اپنے جوبن پر ہوتے ہیں ، پھر خزاں کا موسم آتا ہے تو درختوں کے پتے گر جاتے ہیں اور درخت ٹنڈ منڈہو جاتے ہیں ۔ پھر جب بہار کا موسم آتا ہے تو نئے شگوفے پھوٹتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے درخت ہرے بھرے ہوجاتے ہیں ، ان میں پھل لگتے ہیں ۔ پکتے ہیں اور پھر لوگ انہیں اتار لیتے ہیں ۔ یہی حال سبزیوں اور فصلوں کا ہے جب موسم آتا ہے تو کسان زمین کو پانی دیتا ہے یا آسمان سے بارش برستی ہے پھر زمین میں ہل چلایا جاتا ہے بیج بویا جاتا ہے پھر فصل اور سبزیاں اگتی ہیں اور جب پک کر تیار ہوجاتی ہیں تو انہیں کاٹ لیا جاتا ہے اور زمین پھر ایک دفعہ ویران ہوجاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے ایک مردہ کے زندہ ہونے کا واقعہ گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ گائے ذبح کرو اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا اس مردہ کو لگائو تو وہ زندہ ہوجائے گا ۔ وہاں پر بھی یہی الفاظ آئے تھے ” کذلک یحییٰ اللہ الموتی “ اللہ تعالیٰ اسی طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ یہاں پر بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی آنکھوں کے سامے ذبح شدہ پرندوں کو زندہ کیا ۔ مطلب یہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کمال قدرت کا مالک ہے جب اس کا حکم ہوگا ۔ قیامت برپا ہوگی ۔ تو تمام مردے دوبارہ زندہ ہوجائیں گے ۔ فرمایا واعلم اور جا لو ، خوب اچھی طرح سمجھ لو ، ان اللہ عزیز حکیم کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے ۔ جس طرح چاہے کرے ، اس کے کام میں کوئی رکاوٹ ہیں ڈال سکتا ، وہ حکیم ہے ، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ۔ وہ کمال درجہ کی حکمت کا مالک ہے عزیز کا مالک عزت والا بھی ہوتا ہے یہ خدا کی صفت ہے ، وہ عزت کا مالک بھی ہے۔ معجزہ اور کرامت اس رکوع میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور کمال قدرت کے تین واقعات آ چکے ہیں ۔ خصوصاًبعث بعد الموت کے متعلق حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ پرندوں والا واقعہ بالکل واضح ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ اس قسم کا جو عجوبہ ظاہر کرتا ہے ، اسے معجزہ کہتے ہیں ۔ قرآن پاک اور احادیث میں بیشمار معجزات کا تذکرہ موجود ہے ۔ اگر اس قسم کے واقعات کسی امتی کے ہاتھ پر ظاہر ہوں تو وہ کرامت کہلاتے ہیں ۔ قادری سلسلہ کے بزرگوں میں سے یہاں پنجاب میں ایک بزرگ شیخ عبد القادر جیلانی (رح) کی اولاد میں سے تھے ان کے لیے ثابت ہے کہ انہوں نے اللہ کے حکم سے مردہ کو زندہ کیا تھا۔ لکھنؤ میں ایک مردہ کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔ لوگوں نے یہ کرامت بھی دیکھی۔ شاہ ولی اللہ دہلوی (رح) کے چچا کے سامنے بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا انہوں نے بھی مردہ کو زندہ کیا تھا الغرض ! اس قسم کے واقعات کرامت کہلاتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشی کر لینی چاہیے کہ معجزہ یا کرامت اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے ۔ ایسا کام انسان کے اختیار میں ہیں ہے۔ وما کان لرسول ان یاتی بایۃ الا باذن اللہ کسی نبی کے اختیار میں بھی ہیں ، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسا کرسکتا ہے لہٰذا معجزات اور کرامات کے جو سچے واقعات ہیں ۔ انہیں تسلیم کرنا چاہئے ، مگر بلا تحقیق ہر بےسروپا کو کرامت تسلیم کرنا درست نہیں ہے ۔ شیخ عبد القادر جیلانی (رح) کے ہاتھ پر بہت سی کرامات ظاہر ہوئیں جن کا ثبوت ملتا ہے مگر بارہ سال تک کشتی ڈبوین والے واقعہ کی کوئی اصل نہیں ہے ، لہٰذا یہ قابل تسلیم ہر گز نہیں۔ معجزہ اور کرامت کے علاوہ ایک اور چیز ہے ، جسے استدراج کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی کافر کے ہاتھ میں بھی کوئی عجوبہ ظاہر کر دے ، مگر یہ عزت والی بات نہیں ہوتی بلکہ یہ امتحان ہوتا ہے ، جس طرح حدیث شریف میں موجود ہے کہ دجال مردوں کو زندہ کریگا یہ کرامت نہیں بلکہ استدراج ہوگا ۔ توحید باری تعالیٰ اور معاد کے متعلق تین واقعات بیان کرنے کے بعد روئے سخن پھر انفاق فی سبیل اللہ کی طرف جاتا ہے اگلی آیا ت کا تعلق پھر اسی پہلی افقوا مما رزقنکم کے ساتھ ہے ، لہٰذا اگلے رکوع کا موضوع پھر وہیں سے چلے گا ، جہاں پچھلا بیان ختم ہوا تھا ، درمیان میں اس کی تائید کے لیے تین واقعات کا ذکر آ گیا ہے۔
Top