Tafseer-e-Mazhari - Al-Waaqia : 13
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ
ثُلَّةٌ : ایک بڑا گروہ ہیں مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ : اگلے لوگوں میں سے
وہ بہت سے تو اگلے لوگوں میں سے ہوں گے
ثلۃ من الاولین ان کا ایک بڑا گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہوگا ثُلَّۃٌ : یعنی کثیر۔ اَلْاَوَّلِیْنَ : سے مراد ہیں صدر اوّل کے مسلمان ‘ یعنی تینوں قرون ‘ صحابہ ‘ تابعین اور تبع تابعین۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری امت کا بہترین قرن میرا قرن ہے (یعنی دور صحابہ ؓ پھر وہ لوگ جو میرے قرآن والوں کے متصل ہیں (یعنی تابعین) پھر وہ لوگ ہیں جو قرن دوئم کے متصل ہیں (یعنی تبع تابعین) ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو بغیر طلب شہادت کے گواہیاں دیں گے ‘ خیانت کریں گے ‘ امانتدار نہیں ہوں گے ‘ نذریں مانیں گے مگر نذر کو پورا نہیں کریں گے ‘ الخ۔ (متفق علیہ) مسلم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور نسائی نے حضرت عمر کی روایت سے بھی یہ حدیث اسی طرح بیان کی ہے۔ ترمذی اور حاکم نے حضرت عمران ؓ کی روایت سے خیر القرون قرنی کے بجائے خیر الناس قرنی الی آخر الحدیث بیان کی ہے۔ صحیحین میں حضرت ابن مسعود کی روایت سے بھی خیر القرون کی جگہ خیر الناس کا لفظ آیا ہے۔ مسلم نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بھی یہی لفظ نقل کیا ہے۔ صحیحین میں حضرت ابن مسعود کی روایت سے بھی خیر القرون کی جگہ خیر الناس کا لفظ آیا ہے۔ مسلم نے حضرت عائشہ کی روایت سے بھی یہی لفظ نقل کیا ہے۔ صحیحین میں حضرت ابوسعید ؓ خدری کی مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے صحابیوں کو برا نہ کہو ‘ اگر تم میں سے کوئی کوہ احد کے برابر سونا راہ خدا میں خرچ کریگا تو میرے کسی ایک صحابی کے ایک سیر بلکہ آدھے سیر (چھوارے ‘ غلّہ وغیرہ) کے برابر بھی نہ ہوگا۔ الْاٰخِرِیْنَ : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو 1000 ھ کے بعد ہوئے اور اللہ نے ان کو کمالات نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اکثر اہل تفسیر کا قول ہے کہ : ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ سے مراد ہیں وہ تمام امتیں جو حضرت آدم ( علیہ السلام) سے رسول اللہ ﷺ کے عہد نبوت تک گزریں اور قلیل من الآخرین سے امت محمدیہ مراد ہے۔ زجاج نے کہا : جن لوگوں نے حضرت آدم ( علیہ السلام) سے لے کر (رسول اللہ ﷺ تک) تمام انبیاء کو دیکھا اور سب کی تصدیق کی ‘ ان کی تعداد ان صحابہ ؓ سے زائد تھی جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔ میں کہتا ہوں یہ تفسیر بعید از فہم ہے اور خلاف عقل ہے۔ اس تفسیر پر تو لازم آتا ہے کہ سابقہ امتوں کو قرب الٰہی امت محمدیہ سے بڑھ کر حاصل ہوگا اوراقوام ماضیہ کا مرتبہ عند اللہ اس امت سے اعلیٰ ہے کیونکہ ارباب فضل کی کثرت امت کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے لیکن یہ قول آیات قرآنیہ کے بھی خلاف ہے اور فصیح احادیث کے بھی۔ اللہ نے صراحۃً فرمایا ہے : کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ..... اور فرمایا : لَتِکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا۔ حدیث گرامی میں آیا ہے : انتم تنمون سبعین امۃ انتم خیرھا واکرمھا علی اللہ۔ بہز بن حکیم نے اپنے دادا کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ والترمذی) ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے۔ امام احمد ‘ بزار اور طبرانی نے صحیح حدیث سے بیان کیا کہ حضرت جابر ؓ نے فرمایا : میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ‘ آپ ﷺ فرما رہے تھے ‘ مجھے امید ہے کہ میری اتباع کرنے والے اہل جنت میں ایک چوتھائی ہوں گے۔ ہم نے یہ سن کر تکبیر کہی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں امید رکھتا ہوں کہ (کُل جنتی) لوگوں میں میری امت ایک تہائی ہوگی۔ ہم نے پھر تکبیر کہی۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں امید رکھتا ہوں کہ (کُل جنتیوں میں) میری امت نصف ہوگی۔ امام بخاری (رح) نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا کہ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا تم پسند کرو گے کہ (کل) اہل جنت میں تم ایک چوتھائی ہو ؟ ہم نے عرض کیا : جی ہاں ! فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ میں امید کرتا ہوں کہ (کل) جنتیوں میں تم آدھے ہو گے۔ ترمذی ‘ حاکم اور بیہقی نے حضرت بریدہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی ‘ اسّی تمہاری اور چالیس باقی امتوں میں سے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ طبرانی نے حضرت ابو موسیٰ ‘ حضرت ابن عباس ‘ حضرت معاویہ بن حبیدہ اور حضرت ابن مسعود کی روایت سے بھی اسی طرح بیان کیا ہے۔
Top