Al-Quran-al-Kareem - Al-Waaqia : 13
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ
ثُلَّةٌ : ایک بڑا گروہ ہیں مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ : اگلے لوگوں میں سے
بہت بڑی جماعت پہلوں سے۔
ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ :”ثلۃ“ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے ، ایک بڑی جماعت۔ اللہ تعالیٰ نے سابقون کے متعلق ”ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ“ اور اصحاب الیمین کے متعلق ”ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَ قَلِیْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ“ فرمایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں جگہ ”الاولین“ اور ”الاخرین“ سے مراد کیا ہے ؟ تو اس کے متعلق اہل علم کے دو قول ہیں ، ایک یہ کہ ”الاولین“ سے مراد پہلی امتیں ہیں اور ’ ’ الاخرین“ سے مراد ہماری امت ہے۔ انہیں ”الاخرین“ اس لیے کہا گیا کہ وہ تمام امتوں میں سے آخری امت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ سابقون پہلی امتوں میں سے ایک بڑی جماعت ہیں اور آخری امت میں سے قلیل ہیں۔ طبری نے تفسیر میں یہی قول ذکر فرمایا ہے، کوئی اور قول ذکر ہی نہیں کیا اور راحج قول بھی یہی قوم ہوتا ہے ، کیونکہ آدم ؑ سے لے کر رسول اللہ ﷺ تک مشہور قول کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ تو انبیاء ہی گزرے ہیں۔ انبیاء سمیت ان کی امتوں کے سابقون یقینا بہت بڑی جماعت ہوں گے ، ان کی نسبت سے ہماری امت کے سابقون کی تعداد کم ہوگی۔ ہاں اصحاب الیمین جس طرح پہلی امتوں کے بہت بڑی جماعت ہوں گے ، ان کی نسبت سے ہماری امت کے سابقون کی تعداد کم ہوگی۔ ہاں اصحاب الیمین جس طرح پہلی امتوں کے بہت بڑی جماعت ہوں گے ہماری امت کے بھی بہت بڑی جماعت ہوں گے ، حتیٰ کہ ہماری امت کے افراد اہل جنت کا نصف ہوں گے ، جیسا کہ ”ثلثۃ من الاخرین“ کی تفسیر میں احادیث آرہی ہیں۔ اس قول کے راحج ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں قیامت کا ذکر ہو رہا ہے اور اس دن یہ تین گروہ صرف ہماری امت کے نہیں ہوں گے بلکہ آدم ؑ سے لے کر آخری ابن آدم تک سب لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوں گے۔ اس اعتبار سے بھی اولین سے مراد پہلی امتیں ہیں اور آخرین سے مراد امت محمد ﷺ کے لوگ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے بھی اس قول کی تائید ہوتی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :(نحن الاخرون السابقون یوم القیاۃ بید انھم اوتوا الکتاب من قلبنا ، ثم ھذا یومھم الذی فرض علیھم فاختلفوا فیہ ، فھدانا اللہ ، فالناس لنا فیہ تبع ، الیھود عذر والنصاری بعد غد) (بخاری ، الجمعۃ ، باب فرض الجمعۃ۔۔۔۔۔ 876، عن ابی ہریرۃ ؓ) ”ہم آخر میں آنے والے ہیں ، قیامت ے دن پہلے ہوں گے۔ اس لیے ان لوگوں کو ہم سے پہلے کتاب دی گئی ، پھر یہ (جمعہ کا) دن جو ان پر فرض کیا گیا تو انہوں نے اس میں اختلاف کیا ، تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت دی ، چناچہ لوگ اس میں ہمارے پیچھے ہیں ، یہود اگلے دن اور نصاری اس سے اگلے دن“۔ دوسرا قول جسے ابن کثیر نے ترجیح دی ہے ، یہ ہے کہ دونوں جگہ اولین اور آخرین سے مراد امت محمد ﷺ کے اولین و آخرین ہیں اور مطلب یہ ہے کہ سابقون اس امت کے شروع کے لوگوں میں سے ایک بہت بڑی جماعت ہوں گے اور بعد کے لوگوں میں سے کم تعداد میں ہوں گے۔ البتہ اصحاب الیمین امت کے شروع کے لوگوں میں بہت بڑی جماعت ہوں گے اور آخرحصے کے لوگوں سے بھی بہت بڑی جماعت ہوں گے۔ شروع کے لوگوں سے مراد صحابہ کرام ؓ اور ان سے قریب زمانوں کے لوگ ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(خیر الناس قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ثم یحییٰ ء قوم تسبق شھادۃ احدھم یمینہ و یمینہ شھادتہ) (بخاری ، فضائل الصحابۃ ، باب فضائل اصحاب النبی ﷺ۔۔۔۔: 3651)”سب لوگوں سے بہتر میرا زمانہ ہے ، پھر وہ لوگ جو ان سے ملیں گے ، پھر وہ لوگ جو ان سے ملیں گے ، پھر کچھ لوگ آئیں گے جن کی شہادت ان کی قسم سے پہلے اور ان کی قسم ان کی شہادت سے پہلے ہوگی۔“ ابن کثیر ؒ تعالیٰ نے ایک تیسرا قول ذکر فرمایا ہے کہ ہر امت کے ابتدائی لوگوں میں سابقون کی ایک بڑی جماعت ہوئی ہے جب کہ بعد کے لوگوں میں وہ قلیل ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تینوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں ، اپنی اپنی جگہ تینوں درست ہیں ، البتہ آیات کے سیاق کے مطابق یہاں پہلا راجح معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)
Top