Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Waaqia : 13
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ
ثُلَّةٌ : ایک بڑا گروہ ہیں مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ : اگلے لوگوں میں سے
وہ بہت سے تو اگلے لوگوں میں سے ہوں گے
13۔ 26۔ یہ مقربین کی تفصیل ہے کہ وہ پہلے لوگوں میں بہت ہیں اور پچھلوں میں تھوڑے۔ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے 4 ؎ کہ پہلوں سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) سے آنحضرت ﷺ تک کے لوگ ہیں یا اسی امت کے پہلے لوگ۔ اکثر سلف کا یہی قول ہے کہ اولین و آخرین اسی امت کے پہلے اور پچھلے لوگوں کو فرمایا ہے آیت کنتم خیرا مۃ سے اور اسی مضمون کی بہز بن حکیم کی اس حدیث سے جس کو ترمذی 1 ؎ ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ جب یہ امت اور امتوں سے بہتر ہے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ مقربین کی تعداد بہ نسبت اس امت کے اور امتوں میں زیادہ ہو۔ بہزبن حکم کی حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے یہ بہزبن حکیم بن معاویہ اپنے باپ اور دادا سے روایت کرتے ہیں اگرچہ صحیح بخاری و مسلم میں ان کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن ابن عدی نے اس سند کو قابل اعتبار ٹھہرایا ہے۔ مقربین کی جنت میں ساز و سامان یہ ہوگا کہ سونے کے تاروں کے بنے ہوئے تختوں پر ٹکیہ لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ نو عمر خوبصورت خادم پانی کے آبخورے شراب کے جام ‘ طرح طرح کے میوے کے طباق اور کباب کی رکابیاں لئے ہوئے حاضر ہوں گے۔ شراب وہ ہوگی کہ جس سے دنیا کی طرح نہ سر میں درد ہوگا نہ حواس میں کچھ فتور پڑے گا آبدار موتی کی صورت حوریں ہم نشینی کے لئے موجود ہوں گی۔ مخلدون کا یہ مطلب ہے کہ وہ نو عمر خادم ہمیشہ نو عمری کی حالت پر رہیں گے۔ صحیح قول یہی ہے کہ وہ و عمر لڑکے حوروں کی طرح جنت میں جدا پیدا کئے گئے ہیں اولاد آدم میں سے نہیں ہیں پھر یہ فرمایا کہ جنتی لوگ آپس میں سلام علیک جو کریں گے اسی کی آواز چاروں طرف سے آئے گی اور کسی طرح کی ایسی بےہودہ کوئی بات چیت نہ ہوگی جس سے جنت کے عیش میں کچھ خلل پڑے۔ سورة رحمن میں گزر چکا ہے کہ مقربین کی جنت کی منزلیں بھی بلند ہوں گی اور ان کا ساز و سامان بھی اعلیٰ درجہ کا ہوگا۔ (4 ؎ دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص 284 ج 4۔ ) (1 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة آل عمران ص 46 1 ج 2۔ )
Top