Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 81
وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
وَقُلْ : اور کہ دیں آپ جَآءَ : آیا الْحَقُّ : حق وَزَهَقَ : اور نابود ہوگیا الْبَاطِلُ : باطل اِنَّ : بیشک الْبَاطِلَ : باطل كَانَ : ہے ہی زَهُوْقًا : مٹنے والا
اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا۔ بےشک باطل نابود ہونے والا ہے
وَقُلْ اور (اے محمد ﷺ فتح مکہ کے وقت جب آپ شہر میں داخل ہوں تو) کہئے۔ جَاۗءَ الْحَقُّ حق (یعنی اسلام یا قرآن یا خالص اللہ کی عبادت کا وقت) آگیا۔ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ: اور باطل گیا ‘ یعنی شرک برباد ہوگیا ‘ بتوں کی پوجا کا دور گیا۔ زَہَقَ کا معنی ہے خَرَجَ ۔ زَہَقَ رُوْحُہٗ اس کی روح نکل گئی۔ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا : باطل بلاشبہ برباد ہونے والا ہی ہے۔ یعنی باطل اس قابل ہی ہے کہ فنا ہوجائے قائم نہ رہے۔ باطل ہوتا ہی بےبنیاد ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن (کعبہ میں) داخل ہوئے اس زمانہ میں کعبہ کے گرداگرد 360 استھان تھے ‘ اس وقت دست مبارک میں لکڑی تھی ‘ آپ اس لکڑی کی نوک سے ہر بت کو کچوکا دیتے جا رہے تھے اور فرماتے جا رہے تھے جَآءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ۔ وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُرواہ البخاری و مسلم والترمذی والنسائی۔ طبرانی نے الصغیر میں اور ابن مردویہ نے اور الدلائل میں بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔
Top