Tafseer-e-Mazhari - Nooh : 4
وَّ اِنَّ عَلَیْكَ اللَّعْنَةَ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ
وَّاِنَّ : اور بیشک عَلَيْكَ : تجھ پر اللَّعْنَةَ : لعنت اِلٰى : تک يَوْمِ الدِّيْنِ : روز انصاف
اور تجھ پر قیامت کے دن تک لعنت (برسے گی)
وان علیک اللعنۃ الی یوم الدین اور روز جزاء تک تجھ پر لعنت یقینی ہے۔ روز جزاء پر پھٹکار اور لعنت کی انتہاء ہے ‘ اس کے بعد اعمال کی (اُخروی) سزا و جزا ہوگی اور لعنت اخروی کے عذاب کا وقت آجائے گا۔ یا یہ مطلب ہے کہ روز جزاء تک تو لعنت ہوگی اور اس کے بعد ایسی سخت سزا دی جائے گی کہ اس کی موجودگی میں دنیوی لعنت بھول جائے گی۔ بعض نے کہا : (لعنت کو یوم الدین تک جاری رکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد لعنت ختم ہوجائے گی بلکہ یہ ایک محاورہ کی بات ہے) طویل ترین مدت کیلئے کہا جاتا ہے کہ قیامت تک یہ بات ہوتی رہے گی یا نہ ہوگی (اس کا مطلب یہ نہیں کہ قیامت کے بعد اس کے خلاف ہوگا بلکہ کام کے ہونے ‘ نہ ہونے کی ایک طویل ترین مدت بیان کرنا مقصود ہوتی ہے) ۔ بغوی نے کہا : آسمان پر بھی ابلیس ملعون ہے اور زمین پر بھی۔ آسمان والے بھی اس پر ایسی ہی لعنت کرتے ہیں جیسے زمین والے __ میں کہتا ہوں : (آسمان و زمین والے کیا ‘ آسمان اور زمین کے خالق نے اس پر لعنت کی ہے اور فرمایا ہے : وَاِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَۃَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ ۔
Top