Tafseer-e-Madani - Nooh : 4
یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُؤَخِّرْكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ١ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يَغْفِرْ لَكُمْ : بخش دے گا تمہارے لیے مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ : تمہارے گناہوں میں سے وَيُؤَخِّرْكُمْ : اور مہلت دے گا تم کو اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : مقرر وقت تک اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ : بیشک اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت اِذَا جَآءَ : جب آجاتا ہے لَا يُؤَخَّرُ : تو ڈھیل نہیں دی جاتی۔ تاخیر نہیں کی جاتی لَوْ كُنْتُمْ : اگر ہو تم تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے
جس پر درگزر فرما لے گا وہ (غفور رحیم) تمہارے گناہوں میں سے اور مہلت عطا فرما دے گا تم کو ایک مقرر وقت تک بلاشبہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آ پہنچتا ہے تو پھر اسے ٹالا نہیں جاسکتا کاش کہ تم لوگ جان لیتے
3 ۔ عبادت و اطاعت کا پہلا اہم ثمرہ مغفرت ذنوب : سو ارشاد فرمایا گیا اور عبادت وتقوی اور اطاعت و فرمانبرداری کے ثمرات کے ذکر وبیان کے طور پر ارشاد فرمایا گیا سو اطاعت پیغمبر کے ثمران کے بیان کے سلسلے میں پہال نتیجہ وثمرہ یہ فرمایا گیا کہ وہ درگزر فرما دے گا تمہارے گناہوں سے، یعنی تمہارے ان گناہوں سے جو اس سے پہلے تم نے زمانہ کفر کے دور میں کیے ہیں کہ اسلام لانے سے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا الاسلام یھدم ما کان قبلہ یعنی اس سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور گناہوں سے یہاں پر مراد وہ گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے کیونکہ حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں ہوتے، جب تک کہ ادا کردیے جائیں یا جب تک کہ اصحاب حقوق ان کو خود اپنی مرضی اور خوشی سے معاف نہ کردیں، بہرکیف یہاں پر حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کے تین ارکان بیان ہوئے۔ اللہ کی توحید، شریعت الہی کی پابندی اور رسول کی اطاعت، اور انہی تین ارکان پر حضرات انبیاء کرام (علیہم السلام) کی دعوت مبنی رہی ہے، اور انہی کے استحکام پر دین کے استحکام کا دارومدار ہے اور ان تینوں پر انسان کو ان عظیم الشان فوائد وثمرات سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے، جن میں سب سے اہم اور بنیادی نتیجہ وثمرہ ہے مغفرت ذنوب۔ یعنی اس سے وہ تمام گناہ معاف فرما دیے جائیں گے جو اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں کیے ہوں گے اور جن گناہوں کا صدور و ارتکاب انسان سے ایمان کی زندگی اختیار کرنے کے بعد ہوتا ہے، ان کی معافی کا طریقہ توبہ و استغفار ہی ہے، جیسا کہ سورة توبہ کی آیت نمبر 17 میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، سو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اگر تم لوگ میری دعوت کو قبول کر کے ایمان لے آؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے وہ سب گناہ معاف فرما دے گا جو تم لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں کیے تھے اور آئندہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ذریعے اپنے لیے ذخیرہ آخرت کا سامان کرسکو گے، اور اس طرح تمہاری بگڑی بن جائے گی۔ 4 ۔ عبادت و اطاعت کا دوسرا بڑا ثمرہ مہلت سے سرفرازی : سو حضرت نوح (علیہ السلام) نے ایمان و اطاعت کے دوسرے بڑے ثمرے کا ذکر کرتے ہوئے اپنی قوم سے فرمایا کہ اور وہ تم کو مہلت دے گا ایک معین مدت تک کے لیے یعنی اس مدت تک کے لیے جو تمہاری موت کے لیے اس کی طرف سے مقرر ہے، اس سے پہلے تم پر عذاب نہیں آئے گا، اس سے علماء کرام نے یہ استدلال فرمایا ہے اعمال صالحہ سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور برکت نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ صلہ رحمی کے بارے میں صحیح حدیث میں وارد ہے کہ اس سے عمر بڑھتی ہے اور رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ چناچہ اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا " من احب ان یبیط لہ فی رزقہ وینسالہ فی اثرہ فلیصل رحمہ " یعنی جو کوئی یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں وسعت اور کشادگی کی جائے اس کی زندگی لمبی ہو تو وہ صلہ رحمی کرے۔ بہرکیف حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں نے میری یہ تینوں باتیں مان لیں تو اللہ تمہارے گزشتہ جرائم اور گناہوں کو معاف فرما دے گا اور ایک معین مدت تک تم کو اس دنیا میں مہلت دے دے گا اور اجل مسمی (معین مدت) کی اس قید سے اس حقیقت کو بھی ظاہر فرمایا گیا کہ اس دنیا کی کوئی بھی مہلت غیر محدود نہیں ہوتی، بلکہ وہ محدود و مقید ہی ہوتی ہے، یہ دنیا پوری اور اس کی ہر چیز فانی اور وقتی ہے۔ سو حضرت نوح (علیہ السلام) کے اس ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا۔ پس ہر انسان کو خواہ وہ نیک ہو یا بد اس امر کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت بہرحال محدود اور فانی و مختصر ہے جس نے بہرحال ختم ہو کر رہنا ہے، پس جس نے اس سے صحیح طور پر فائدہ اٹھا لیا وہی کامیاب ہے اور جس نے اس اہم حقیقت سے غفلت و لاپرواہی برتی وہ ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہوگیا۔ 5 ۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ قطعی طور پر حق ہے، سبحانہ وتعالی : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلا شبہ اللہ کا مقرر فرمودہ وقت جب آجاتا ہے تو اس کو ٹالا نہیں جاسکتا، کہ خود وہ قادر مطلق سبحانہ وتعالی تو اس موقع پر اس کو ٹالتا نہیں اور اس کے سوا کسی اور کے ٹالے کا یارا نہیں ہوسکتا اس لیے اللہ کا مقرر کردہ وقت اور وعدہ بہرحال پورا ہو کر رہتا ہے، پس اس کا وقت آجانے پر اس کے ٹلنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہوسکتی، لہذا اس سے پیشتر ہی اس سے بچنے کی فکر کرو اے عقل سلیم رکھنے والو، اس سے جیسا کہ ابھی اوپر والے حاشیے میں بھی گزرا، حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس حقیقت کی طرف توجہد لائی کہ اس دنیا کی ہر فرصت بہرحال فانی اور محدود ہے، اس لیے نیک اور بد میں سے ہر کسی کو یہ حقیقت ہمیشہ مسحضر رکھنی چاہیے، پس جو اس حقیقت کو مستحضر رکھیں گے وہی زندگی کی اس فرصت محدود سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور جو اس کو بھول جائیں گے ان کے لیے یہ دنیا سراسر وبال اور خسران ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس سے اس امر کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ کا وعدہ بہرحال اور قطعی طور پر اٹل ہے، اس نے اپنے وقت پر بہرحال پورا ہو کر رہنا ہے کوئی اس میں رکاوٹ نہیں بن سکتا کہ معاملہ سب کا اللہ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، اپنی حکمت پے پایاں کے مطابق۔ 6 ۔ علم حق کی روشنی صلاح و فلاح کی اصل اساس : سو حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ کاش کہ تم لوگ جان لیتے، یعنی تم جان لیتے حق اور حقیقت امر کو اور تم اپنی اپنی اصلاح کرلیتے، فرصت عمر کے ہاتھ سے نکلنے ہونے سے پہلے اور اس طرح تم بچ جاتے اس دردناک عذاب اور اپنے اس برے انجام سے، جس کے تم مستحق ہو، اور جس نے آنے کے بعد پھر ٹلنا نہیں، سو اس کے آجانے کے بعد اس سے نکلنے اور بچنے کی کوئی صورت تمہارے لیے ممکن نہیں ہوسکے گی، سو ا سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ صلاح و فلاح کی اصل اساس و بنیاد علم حق کی روشنی ہی ہے جو انسان کے لیے راہ نجات کو روشن اور واضح کرتی ہے، اور اس کو مہالک و مخاطر سے آگہی بخشتی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو سمجھنے اور اپنانے والے لوگ تھوڑ؁ اور بہت تھوڑے ہیں، ورنہ اکثریت غفلت اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی مہالک کی طرف بڑھی چلی جارہی ہے، اس لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے بڑے درد بھرے انداز میں ان سے فرمایا کہ کاش کہ تم لوگ جان لیتے، اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق و صواب پر مستقیم و گامزن رہنے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکرو فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top