Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 123
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے فِيْ : میں كُلِّ : ہر قَرْيَةٍ : بستی اَكٰبِرَ : بڑے مُجْرِمِيْهَا : اس کے مجرم لِيَمْكُرُوْا : تاکہ وہ حیلے کریں فِيْهَا : اس میں وَمَا : اور نہیں يَمْكُرُوْنَ : وہ حیلے کرتے اِلَّا : مگر بِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَمَا : اور نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا تاکہ وہ وہاں چال چلا کریں حالانکہ وہ چال بس اپنے ہی خلاف چلتے ہیں اور (اس کو بھی) نہیں سمجھتے،179 ۔
179 ۔ یہ سرکش مجرمین جتنے چالاک بھی ہوں بہرحال دانا وصاحب فہم نہیں ہوتے، قرآن مجید چالاکی اور دانائی کے اس فرق کو بار بار واضح کرتا جاتا ہے۔ (آیت) ” کذلک “۔ یعنی جس طرح آج سردار ان مکہ آپ ﷺ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کررہے اور منصوبہ باندھ رہے ہیں۔ یعنی وکما جعلنا فی مکۃ صناد یدھا لیمکروا فیھا (کشاف) (آیت) ” جعلنا “۔ من فعل کی نسبت اپنی جانب حق تعالیٰ نے محض علت العلل تکوینی کی حیثیت سے کی ہے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کی رضاء بھی اس میں شامل ہے۔ (آیت) ” جعلنا فی کل قریۃ اکبر مجرمیھا “۔ ذکر پرانی امتوں کا ہورہا ہے کہ ان میں بھی اول اول رئیسوں اور سرداروں ہی نے پیغمبرانہ تحریک اصلاح کی مخالفت میں قدم اٹھایا۔ اور قرآن مجید اس کی تصریح بار بار کرتا ہے۔ خص الاکابر لانھم ھم الحاملون مع الضلال والماکرون بالناس (کشاف) لانھم لاجم ریاستھم اقدر علی الغدر والمکروترویج الا باطیل علی الناس من غیرھم (کبیر عن الزجاج) (آیت) ” لیمکروا فیھا “۔ یعنی وہ چالیں پیغمبروں کی مخالفت میں اپنے ملک میں چلیں گے، جن سے ان کا مستحق سزا ہونا خوب ثابت ہوجائے گا۔ ل۔ لام۔ عاقبت کا ہے۔ یعنی اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ قیل لام العاقبۃ والصیر ورۃ (بحر) (آیت) ” وما یمکرون الا بانفسھم “۔ یعنی ان چالوں کا وبال آخر کار خود انہی پر پڑتا ہے۔ ای وبال مکرھم راجع الیھم (قرطبی) لان مکرھم یحیق بھم (کشاف)
Top