Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 123
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے فِيْ : میں كُلِّ : ہر قَرْيَةٍ : بستی اَكٰبِرَ : بڑے مُجْرِمِيْهَا : اس کے مجرم لِيَمْكُرُوْا : تاکہ وہ حیلے کریں فِيْهَا : اس میں وَمَا : اور نہیں يَمْكُرُوْنَ : وہ حیلے کرتے اِلَّا : مگر بِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَمَا : اور نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
اور اس طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بدکردار آدمیوں کو سردار بنا دیا تاکہ وہاں مکر و فریب کے جال بچھائیں اور فی الحقیقت وہ مکر و فریب نہیں کرتے مگر اپنے ہی ساتھ لیکن اس کا شعور نہیں رکھتے
ہر بستی میں اکابر اپنی مکاریوں کے جال بچھاتے رہے اور وہی کچھ اب بھی ہو رہا ہے : 189: بدمستیاں اور خرمستیاں کون کرتے ہیں ؟ وہی جو دنیا میں ایک وافر حصہ دیئے جاتے ہیں ان میں بہت ہی کم ایسے ہوتے ہیں کہ وہ سنبھل کر چال چلیں اور سنت اللہ یہی رہی ہے کہ ایسے بدمستوں کو قانون امہال کے ذریعہ ڈھیل دی جائے تاکہ وہ جہاں تک بڑھ سکتے ہیں بڑھ لیں ، کیوں ؟ اسلئے کہ جب ان کے نظریہ میں جو کچھ ہے یہی دنیا ہے اسلئے ان کی جتنی جدوجہد ہے وہ بھی ساری کی ساری اسی دنیا کی خاطر ہے اور حصول طلب کے مطابق دیا جانا ہمارا قانون طے ہوچکا ہے پھر ہم آخر قانون کے خلاف کیوں کریں اور کیوں نہ ان کی طلب کے مطابق ان کو دیا جائے۔ فرمایا دراصل یہ ہماری آزمائش کا ایک رخ ہے اور آج سے نہیں ابتدائے عالم سے یہ ہوتا چلا آرہا ہے کہ ہر بیتا کے رئیس اور مالدار اور بڑے لوگ ہی حقیقت اور انجام سے غافل چند روز کی ان فانی لذتوں میں مست ہو کر جرائم کے مرتکب ہوا کرتے ہیں اس لئے کہ ان کے خیال میں ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس “ کا قانون بالکل صحیح قانون ہے اور چونکہ لاٹھی انکے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ جس بھینس کو چاہتے ہیں ہنکا کرلے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور حق حق کا نعرہ بلند کرنے والے بھی ان کو مل جاتے ہیں اس لئے کہ ان سارے نعرے بازوں کا ایمان یہ ہوتا ہے کہ ” جس کے ہاتھ میں ڈوئی اس کا سب کوئی “ اور وہ چند معدودے لوگ جو ان کا راستہ تو روک نہیں سکتے البتہ ان کو ان برے اعمال سے روکنا چاہتے ہیں اور اسلئے ان کے اس انجام کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو یہی بڑے لوگ ان کے درپے ہوجاتے ہیں اور اپنے نعرہ بازوں سے ان کا ” تیاپانچا “ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اوپر آیت 112 میں اس کا بیان تفصیل سے گزر چکا کہ اے ہمارے رسول ! ﷺ یہ شیاطین جن وانس اس دعوت کی مخالفت میں جو ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے ہیں اور جن کا اس باطل سے مفاد وابستہ ہوتا ہے اسی طرح اپنی تمام چالوں کے ساتھ اس کو دبانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہی کچھ یہاں بھی ہوا ہے آپ ﷺ اس بات پر نگاہ رکھیں کہ ان کا انجام کیا ہونے والا ہے اس لئے کہ جو ان سے پہلوں کا حال ہوا وہی ان کا بھی ہوگا اگر ان کو ڈھیل دینا سنت اللہ ہے تو کیا ان کو پکڑلینا سنت اللہ نہیں ؟ ہاں ! ان کو ڈھیل کب تک دی جانا ہے اور پکڑ کا وقت کب ہے ؟ یہ انسانی عقل سے ماورا چیز ہے اس لئے اس کا تعلق ” بالغیب “ سے ہے یہ دنیا تو بہر حال دار العمل ہے دار الجزاء نہیں۔ ہاں مکافات عمل لازم وملزوم ہے اس لئے ان کے انجام سے سب کچھ واضح ہوجائے گا آپ اپنا کام کئے جائیں جب وہ برے اعمال کرنے سے نہیں گھبراتے تو آپ ﷺ اچھے اعمال سے کیوں گھبراتے ہیں جب ان کے برے اعمال کا نتیجہ لازم ہے تو آپ ﷺ کے اچھے اعمال کا نتیجہ بھی یقیناً لازم ہے۔ ہماری یہ ڈھیل ان کے حق میں بری اور آپ ﷺ کے حق میں اچھے نتائج پیدا کرے گی جو کمائی وہ کرنا چاہتے ہیں انکو کرنے دیں۔ وہ اس طرح کے مکرو فریب کر کے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں : 190: حق کیا ہے ؟ ایک پہاڑ ہے پھر پہاڑ سے ٹکر لینے والا اپنا ہی سر پھوڑتا ہے۔ اس لئے تو ان کو بدمست کہا گیا ہے کہ مدمستی میں سر پھوڑنے والے کو کم ہی پتہ چلتا ہے کہ میرا سر پھوٹ رہا ہے اگر اس کو یہ معلوم ہوجائے تو آخر وہ بدمست ہی کیوں ہوگا ؟ یاد رکھو کہ حق کی مخالفت کرنے والے حق کو نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو تباہ کرتے ہیں جو اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں اور نہیں سمجھتے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور اپنا کام کئے جاؤ وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ اس کا رزلٹ تمہارے سامنے آجائے۔ یہ بات فی الحقیقت ہے کہ جو مکروفریب کرتا ہے وہ حقیقت میں اپنے ہی ساتھ کرتا ہے لیکن اس کا شعور نہیں رکھتا اور اے ہمارے رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ کے مخالفین کی بھی یہی صورت حال ہے جو پہلوں کی تھی۔
Top