Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 107
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے فِيْ : میں كُلِّ : ہر قَرْيَةٍ : بستی اَكٰبِرَ : بڑے مُجْرِمِيْهَا : اس کے مجرم لِيَمْكُرُوْا : تاکہ وہ حیلے کریں فِيْهَا : اس میں وَمَا : اور نہیں يَمْكُرُوْنَ : وہ حیلے کرتے اِلَّا : مگر بِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَمَا : اور نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
آپ کہہ دیجیے اللہ ہی تمہیں نجات دیتا ہے ان سے اور ہر غم سے، اس کے بعد بھی تم شرک کرنے لگتے ہو،97 ۔
97 ۔ عام نفس بشری کی خباثت کا بیان ہے کہ مصیبت کے وقت تو کم ظرف انسان رونے گڑگڑانے چلانے لگتا ہے۔ اور ادھر مصیبت ختم ہوئی کہ ادھر پھر وہی اکڑ پیدا ہوجاتی ہے۔ (آیت) ” ومن کل کرب “۔ یعنی ایک وہی مصیبت کی کیا تخصیص ہے، نجات جس غم سے بھی ملتی ہے، نجات دینے والا ہر حال میں وہی ہوتا ہے۔
Top