Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 123
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے فِيْ : میں كُلِّ : ہر قَرْيَةٍ : بستی اَكٰبِرَ : بڑے مُجْرِمِيْهَا : اس کے مجرم لِيَمْكُرُوْا : تاکہ وہ حیلے کریں فِيْهَا : اس میں وَمَا : اور نہیں يَمْكُرُوْنَ : وہ حیلے کرتے اِلَّا : مگر بِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَمَا : اور نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
اور اسی طرح (جس طرح کہ مکہ کے یہ جرائم پیشہ سردار ہیں) ہم نے مقرر کردیئے ہر بستی میں وہاں کے بڑے مجرم، تاکہ وہ اس میں اپنے مکر و فریب کی کاروائیاں کرتے رہیں، حالانکہ حقیقت میں یہ مکر و فریب وہ اپنی ہی جانوں سے کرتے ہیں، مگر وہ شعور نہیں رکھتے
240 ایک اور سنت کونیہ اور دستور خداوندی کا بیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اسی طرح ہم نے مقرر کردیے ہر بستی میں وہاں کے بڑے مجرم تاکہ وہ وہاں پر اپنے مکر و فریب کی کارروائیاں کریں۔ یعنی ان کو اس کی چھوٹ دی گئی۔ سو ہر بستی میں بڑے مجرموں کا پایا جانا قدرت کا ایک اور دستور اور سنت کونیہ ہے۔ پس ہر بستی میں بڑے مجرموں کا پایا جانا قدرت کا ایک قدیم دستور اور اس کی سنت ہے جو اس کائنات میں کارفرما ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان مجرموں کو ہم نے ڈھیل دئیے رکھی تاکہ اس سے ایک طرف تو ان کا پیمانہ جرم لبریز ہوتا رہے اور دوسری طرف اہل حق کی ابتلاء و آزمائش کے تقاضے بھی تکمیل پذیر ہوں۔ ان کے درجات بلند ہوں اور ان کے جواہر فطرت مزید از مزید نکھر کر سامنے آسکیں۔ سو ہماری مشیت اسی طرح کی حکمتوں کے باعث بہرحال یہی رہی۔ اور ہمارا یہی قانون و نظام اور دستور اس عالم ہست و بود میں سائد و رائج رہا کہ ہر بستی اور ہر قوم کے مجرم لوگوں کو ایسے ہی ڈھیل ملتی رہے۔ سو یہی مطلب ہے { جَعَلْنَا } کا۔ یعنی " ہماری سنت اور ہمارا دستور ہمیشہ یہی رہا "۔ سو شیاطینِ جن و انس آج جو اس دعوت حق اور اہل حق کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں تو یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں۔ بلکہ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ جس بستی میں بھی دعوت حق بلند ہوئی تو وہاں کے اہل باطل کے گرو اور وہاں کے بڑے مجرم جن کے مفادات باطل سے وابستہ تھے وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور وہ اپنے طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے کام لینے لگے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت و دستور کے مطابق ان کو ایک خاص وقت تک ڈھیل دی تاکہ جو کمائی وہ کرنا چاہتے ہیں کرلیں۔ اور آخرکار وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ سو اس سنت کونیہ کے ذکر وبیان میں جہاں ایک طرف اہل حق کے لیے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے کہ اہل باطل کے ساتھ تصادم وٹکراؤ کا یہ سلسلہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ ایسا ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے اور دوسری طرف اس میں اہل کفر و باطل کے لیے تنبیہ وتحذیر ہے کہ اگر وہ باز نہ آئے تو ان کا انجام بڑا ہی ہولناک ہے۔ جیسا کہ یہودیوں کا ہوچکا کہ اللہ کا قانون بےلاگ اور سب کے لیے یکساں ہے اور ان کو جو ڈھیل ملی ہوئی ہے وہ بہرحال ڈھیل ہے جس نے بہرحال ختم ہوجانا ہے ۔ والعیاذ باللہ - 241 مجرموں کا مکر و فریب خود انہی کیخلاف : کہ اس کا وبال انہی پر پڑے گا اور اس کا بھگتان خود انہی کو بھگتنا ہوگا۔ ورنہ حق کا اس سے بہرحال کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ کیونکہ حق تعالیٰ کا قانون اور دستور جو اس کی اس کائنات میں سائد و رائج اور کارفرما ہے وہ یہی ہے کہ بری چالیں چلنے والوں کے مکر و فریب کا اثر خود انہی پر پڑے گا اور اس دنیا میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو اس دنیا کے بعد آئے گا، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَلَا یَحِیْقُ الْمَکَرُ السَّیُّٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ } الآیۃ (فاطر : 42) ۔ مگر اللہ پاک چونکہ فوراً پکڑتا نہیں بلکہ ڈھیل پر ڈھیل دیتا جاتا ہے کہ ابتلاء و آزمائش کا تقاضا یہی ہے۔ اس لیے ایسے لوگ اس سے دھوکے میں پڑجاتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ اس طرح وہ اپنے ہی خسارے اور اس میں اضافے کا سامان کرتے ہیں اور اس احساس زیان کا فقدان ایک اور بڑا خسارہ ہے جس سے یہ لوگ دوچار ہوتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ -
Top