Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 123
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے فِيْ : میں كُلِّ : ہر قَرْيَةٍ : بستی اَكٰبِرَ : بڑے مُجْرِمِيْهَا : اس کے مجرم لِيَمْكُرُوْا : تاکہ وہ حیلے کریں فِيْهَا : اس میں وَمَا : اور نہیں يَمْكُرُوْنَ : وہ حیلے کرتے اِلَّا : مگر بِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَمَا : اور نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
اور اس طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے بڑے لوگوں (رئیسوں) کو جرم کرنے والا بنایا کہ وہاں شرارتیں کریں اور یہ لوگ اپنے ہی ساتھ شرارت کر رہے ہیں اور ان کو (ذرا بھی) خبر نہیں
رکوع نمبر 15 ۔ آیات 123 ۔ تا ۔ 130 ۔ اسرار و معارف : اور کافر و مشرک تو مردہ ہیں جن کے مقابل مومن کی مثال ایسی ہے جیسے مردوں میں زندہ۔ قرآن حکیم جو ارشاد فرماتا ہے وہ شاعرانہ تعلی نہیں ہوتی بلکہ عین حق ہوتا ہے اسے محض مثال نہ سمجھا جائے زندگی اس صلاحیت سے عبارت ہے جو مقصد تخلیق کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی چیز میں پایا جاتا ہے اسی اصول کے تحت ہر شے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں مصروف ہے خواہ وہ آسمانی مخلوق ہے یا زمینی سورج چاند ستاروں سے لے کر ہوا بادل پانی مٹی نباتات اور حیوانات وغیرہ ان میں سے جو چیز اپنی صفت کھو بیٹھے وہ مردہ ہی شمار ہوگی جیسے سورج روشنی سے محروم ہوجائے یا کوئی جانور اپنے کام کا اہل نہ رہے تو وہ مردہ اور بیکار شمار ہوگا اسی طرح انسان بھی ایک مخلوق ہے اور اس کی ذمہ داری بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ دنیا کی زندگی کہاں سے شروع ہوئی اس کا خاتمہ کیا ہے اور سب کاروبار حیات کا نتیجہ کیا ہوگا اس سب پر نگاہ کرکے ایسا کردار اپنائے جو اسے انجام کار کامیابی سے ہمکنار کردے اور ایسے لوگوں کا دامن تھامے جو اس موضوع پر صحیح رہنمائی کرسکتے ہوں یہی وجہ ہے کہ نبوت پر ایمان ضروری ہے کہ انبیاء کے بغیر اس وسیع میدان کی پہنایوں میں کسی کی نگاہ کام نہیں کرسکتی اسی عظیم مقصد نے انسانیت کو ساری مخلوق میں فضیلت عطا کردی ورنہ جن بےدین دانشور کہلانے والوں نے انسان کو محض ایک ہوشیار جانور قرار دیا ہے انہوں نے انسان کو گدھے اور درندوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے اگر انسان کا مقصد حیات صرف کھانا پینا گھر بنانا یا اولاد پیدا کرنا اور مرجانا ہی ہے تو پھر اس میدان میں بیشمار جانور اس سے بازی لے جاسکتے ہیں کہ بہترین قدرتی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں اس سے زیادہ صحت مند اور طاقتور ہوتے ہیں اچھی خوراک پسند کرکے کھاتے ہیں گھر بناتے اور بچے پالتے ہیں جب کہ یہ ہزار قسم کی مشینوں کا متاہج ہے وہ بےتکلف زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے بھلے برے یعنی نفع یا نقصان دینے والی چیزوں سے واقف ہوتے ہیں علاوہ ازیں جانوروں کا گوشت کھال ہڈیاں تک دوسروں کے کام آتی ہیں حتی کہ نباتات میں بھی یہ اوصاف موجود ہیں کہ پھل پھول لکڑی اور چھال تک مفید ہوتی ہے ان سب چیزوں کی منفعت صرف دنیا کی زندگی کے لیے ہے جب کہ انسان کا کردار خالق کائنات کے قرب کو پانے کی اہلیت رکھتا ہے دنیا کی ساری مخلوق کی زندگی صرف دنیا کے ساتھ ہے جب کہ انسان ہمیشہ کے لیے ہے اگر وہ ابدی کامیابی کے لیے کام نہیں کر رہا جس کی بنیاد ایمان ہے تو اس کی روح ایک مردہ لاش ہے جسے جسم کی قبر گھسیٹ رہی اور ایمان ایک نور ہے اس اعتبار سے بھی کہ راہ حیات روشن کردیتا ہے اور انسان اس طویل سفر کے نشیب و فراز دیکھ سکتا ہے پھر گڑھوں میں گرنے کی بجائے درست راستہ اختیار کرسکتا ہے جب کہ کافر نور ایمان سے محرومی کے باعث ضلالت و گمراہی کے گڑھوں میں گرتا رہتا ہے اور بالآخر تباہ ہوجاتا ہے اور اس معنی میں بھی نور ہے کہ نبی رحمت ﷺ کے قلب اطہر کی نورانیت قبول ایمان کے سبب مومن کے قلب سے رابطہ پیدا کرتی ہے پھر جس قدر اطاعت کرتا ہے یہ روشنی بڑھتی رہتی ہے حتی کہ وہ قوت پیدا کرلیتا ہے کہ اس سے ملنے والے بھی راستہ پانے لگتے ہیں یعنی وہ اس نور کو لیکر امور دنیا میں سرگرم رہتا ہے اور میدان عمل میں راہ حق کو واضح کرتا چلا جاتا ہے محض گوشہ گیری میں اختیار نہیں کرتا اگر کشفاً دیکھا جائے تو ہر مومن کے دل کی تار رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر سے جڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس میں کمی یا زیادتی کا مدار اتباع اور اطاعت پر ہوتا ہے۔ نور ایمان اور تصوف : جن لوگوں کو ایمان کے ساتھ آپ ﷺ سے شرف صحبت نصیب ہوا۔ ان کے قلوب روشنی کے مینار بن گئے اور وہ شرف صحابیت سے مشرف ہوئے جو نبوت کے بعد اعلی ترین درجہ ہے اسی کے طفیل انہیں کمال اطاعت بھی نصیب ہوا یہ دولت سینہ بسینہ تابعین تبع تابعین اور مشائخ عظام نے مجالس سے ہی حاصل کی یہی سارا تصوف ہے اور تمام مجاہدوں کا ماحصل۔ اور یہی سب سے بڑا فائدہ ہے جو مومن سے انسانیت کو نصیب ہوتا ہے کہ اس کے ہمنشین بھی دلوں کی روشنی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اس کے مقابل جو اس روشنی سے محروم ہیں یعنی کفار اور اسی تاریکی میں سرگرداں ہیں اس سے نکل بھی نہیں پار ہے وہ ہرگز ان کے برابر نہیں ہوسکتے بلکہ کفر کی تاریکی نے ان کے مزاج ہی بدل دئیے ہیں اور انہیں یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ اس تاریکی پر مزید سیاہی چڑھانا ہی بہت بڑا کام ہے ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ نے یہی بات ان کے مزاجوں میں پیدا کردی ہے لہذا وہ اسی میں غرق ہوتے جا رہے ہیں اور اس مرض کا شکار عموماً امرا ہوتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس وسائل زیادہ ہوتے ہیں چناچہ جب وہ گناہوں میں ڈوب گئے تو اللہ نے ان کے دلوں میں ٹیڑھا پن پیدا فرما دیا جو اس امت میں نہیں پہلے بھی ہوتا رہا ہے چناچہ انہوں نے اپنی برائیوں کو پھیلانے کی چالیں چلیں تو غریب اور عام لوگ بھی ان کی دیکھا دیکھی اس برائی اور کفر میں مبتلا ہوتے چلے گئے اس لیے نہ تو لوگوں کی کثرت کو دیکھا جائے گا اور نہ یہ خیال کرنا چاہئے کہ بڑے بڑے لوگ کیا کہتے ہیں بلکہ معیار صرف اور صرف حق ہے جو بھی حق پر ہو اس کا ساتھ اختیار کرنا چاہئے کفار بظاہر تو سب کچھ حق کو مٹانے کے لیے کرتے ہیں مگر یہ تدبیریں خود ان کے خلاف پڑتی ہیں کہ ان کی کوششوں کی وجہ سے یہ اپنی دائمی زندگی کو ناکامیوں اور نامرادیوں سے بھر رہے ہیں۔ ذرا ان کا حال دیکھئے جب ان کے پاس اللہ کریم کا پیغام پہنچا اور اللہ کا نبی ﷺ نوید حیات لایا تو کہنے لگے بھئی ہم جب مانیں گے جب وہی بات جو آپ سے ہوتی ہے ہم سے کبھی ہو آخر ہم بھی تو انسان ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کی وساطت سے ہی بات سنیں۔ نبوت و رسالت : یہ نادان اور جاہل لوگ نبوت و رسالت کی عظمت سے نا آشنا ہیں ان کا خیال خام ہے کہ ہم مالدار سردار ہیں یا ہمارے پاس اقتدار ہے یا اور کوئی خاندانی یا نسبی وجاہت ہے تو ہم سے بھی بات ہوجائے حالانکہ مکالمہ الہی کے سزاوار صرانبیا ہوتے ہیں اور یہ عہدہ انعام باری ہے جو وہ اپنی پسند سے عطا فرماتے ہیں کوئی بھی انسان خاندانی وجاہت یا اقتدار یا علم و فن اور محنت و مجاہدہ سے نبی نہیں بن سکتا یہ اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ رسالت کیسے عطا فرماتا ہے اور نبی کیسے بناتا ہے یعنی انبیاء بیشک انسان ہی ہوتے ہیں مگر وہ معیار انسانیت ہوتے ہیں تخلیقی طور پر ایک خاص استعداد کے مالک ہوتے ہیں اور معصوم عن الخطا یعنی ان کے مقدس وجودوں میں خطا کا مادہ ہی نہیں ہوتا غیر معصوم ساری زندگی خطا نہ کرے خطا کا امکان تو موجود رہتا ہے۔ اس لیے وہ حامل وحی نہیں ہوسکتا یہ دولت صرف ان کو نصیب ہوتی ہے جنہیں اللہ کریم عطا فرمائیں تم بھی انسان ہو تو پھر اپنا بچپن لڑکپن اور جوانی اللہ کریم کے نبی ﷺ کے مقابل لاؤ دیکھو کتنے فاصلے ہیں یہی دھوکا ان حضرات کو بھی لگتا ہے جو اپنے کو انسان سمجھ کر بشریت انبیاء کا انکار کردیتے ہیں اور واقعی اگر ہم اپنی اس حالت کے ساتھ انسان ہیں تو نبی ﷺ کو بہرحال افضل ہونا چاہئے مگر حق یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ انسان کامل ہیں اور ہم میں جو ادا آپ کی غلامی اور نسبت کی ہے وہ انسانیت ہے اور جو عقیدہ یا کردار آپ کے نور سے محروم ہے وہ مھض حیوانیت ہے ان کا یہ مطالبہ نہ صرف انکار ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی گستاخی جیسا جرم عظیم ہے اس کے بدلے انہیں سخت عزاب کے ساتھ نہایت ذلت بھی ملے گی اور ان کی ساری اکڑ خاک میں مل جائے گی آخرت میں تو ایسا یقیناً ہوگا تاریخ عالم نے اس دنیا میں بھی گستاخان رسالت کا غرور خاک میں ملتے دیکھا ہے بعض لوگ تو محض دیکھا دیکھی ان کے ساتھ شامل تھے آخر توبہ نصیب ہوئی اور خدام رسالت میں پناہ ملی مگر جو لوگ ہر حال میں مخالفت پہ تل گئے تھے وہ سب ذلت کی موت سے دو چار ہو کر باعث عبرت بن گئے۔ شرح صدر فیضان صحبت کا اثر ہے : اللہ کریم جسے ہدایت دینا چاہیں اس کا سینہ قبول اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں مراد یہ ہے کہ جو بھی انسان اللہ سے ہدایت کا طالب ہو یا اس کے دل میں ہدایت کی طلب پیدا ہو تو اللہ کریم اسے ایسے اسباب مہیا فرما دیتے ہیں جن کی وجہ سے اس کا دل روشن ہو کر اس قابل ہوجاتا ہے کہ اللہ کی بات قبول کرسکے اس کی مثال صحابہ کرام ہیں جنہیں حق تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی صحبت نصیب فرمائی تو ان کے سینے احکام الہی کو اس طرح قبول کرتے تھے کہ کبھی کسی کو نہ وسوسہ پیدا ہوا اور نہ اعتراض ان کے سوالات تشریح اور وضاحت کے لیے تو ہوتے تھے مگر انہیں کبھی اعتراض پیدا نہ ہوا اس کی وجہ ان کا شرح صدر تھا یعنی دل کی وہ حالت کہ حق کو فوراً قبول کرلیتا تھا اور باطل کو رد کردیتا تھا اسی لیے اللہ نے انہیں معیار حق قرار دے دیا یہی نعمت وارثان نبوت کی مجالس میں تقسیم ہوتی ہے اور اس کے حصول کے لیے جو محنت و مجاہدہ شیخ کی صحبت میں رہ کر یا اس کے طریقے سے کیا جاتا ہے اسے اصطلاح میں تصوف کہا جاتا ہے اور یہی معیار بھی ہے کہ اگر دل میں نیکی کی طلب اور خشوع خضوع پیدا ہورہا ہے تو جس شخص کی مجلس میں یہ دولت ملے وہ اکسیر ہے ورنہ محض کشف اور عجائبات کا ظہور کوئی مقصد نہیں۔ اور شبہات دور کرنے کا طریقہ بھی اسی نعمت کا حصول ہے ورنہ محض دلائل اور مباحثہ سے کبھی یقین کی دولت نہیں ملتی یہی حال اس کے برعکس کا ہے اگر اللہ کریم ناراض ہوں جس کا سبب بھی انسان کی اختیار کردہ راہ اور اس کا عمل ہی ہوتا ہے تو پھر سینہ اسلام کے لیے تنگ ہوجاتا ہے اتنا تنگ کہ قبول اسلام ہی اسے دنیا میں مشکل ترین کام نظر آتا ہے اور اطاعت الہی دشوار ترین محسوس ہوتی ہے اور اس کے دل پر نجاست اور تاریکی کی تہ بڑھتی چلی جاتی ہے یہ وہ نامرادی ہے جو اہل اللہ کی مخالفت کا ثمر ہے کہ دل تباہ ہو کر گناہوں میں غرق ہوجاتے ہیں۔ اس لیے مذکورہ راستہ ہی آپ ﷺ کے رب کا پسندیدہ اور سیدھا راستہ ہے یعنی نیک لوگوں کا ساتھ ہی نیک عمل تک پہنچانے کا باعث بنتا ہے اور اہل ھق سے ہی ہدایت ملتی ہے اگر کسی شخص کے اپنے عقاید یا اعمال درست نہ ہوں تو وہ خود اس دولت سے محروم ہونے کی وجہ سے دوسروں کو اس سے کیا حصہ دے سکتا ہے لہذا اہل اللہ کی مجالس میں حصول حق کی خاطر حاضری ضروری ہے محض دنیاوی فوائد کو مقصد بنا لینے والے صحیح راستے پر نہیں ہوسکتے اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہے تو باتیں بہت واضح کرکے ارشاد فرما دی گئی ہیں لیکن محض کج بحثی کرنے والوں کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ کشف بہت بڑا انعام بھی ہے : ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ کے پاس سلامتی کے گھر ہیں یعنی آخرت میں جنت اور دنیا میں رضائے الہی کی طلب اور ان کے اس کردار کی وجہ سے کہ انہوں نے ایمان قبول کیا اور اہل حق کی مجلس اختیار کی انہیں اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے وہ دنیا میں بھی پریشان نہیں ہوتے یہاں صاحب معارف القرآن نے لکھا ہے کہ دنیا میں اللہ کریم آخرت کی نعمتوں کو مستحضر فرما دیتے ہیں جس کی وجہ سے اگر دنیا میں تکلیف بھی آئے تو ان نعمتوں کے مقابل ہیچ نظر آتی ہے جیسے دنیا کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے لوگ کس قدر تکالی فبرداشت کرلیتے ہیں مہینہ بھر کی تھکن کو تنخواہ کی امید پر برداشت کرتے ہیں اور منصب و اقتدار کے لیے کیسے کیسے جتن کرتے ہیں اسی طرح اگر اللہ کسی پر آخرت اور اس کی نعمتوں کو منکشف فرما دیں تو دنیاوی تکالیف کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی جب کہ یہ صرف نور ایمان اور فیوضات نبوت سے ہی ممکن ہے۔ دوسرا انعام انہیں معیت باری کا نصیب ہتا ہے اور تمام امور میں اللہ کی تائید اور مدد شامل ہوتی ہے اگر بظاہر تکلیف یا ناکامی بھی ہو تو رضائے دوست ہونے کی وجہ سے لذت سے خالی نہیں ہوتی۔ صورتا مصیبت مگر حقیقتاً ایک گونہ انبساط لیے ہوئے ہوتی ہے۔ شیطان سے رابطہ : رہا دوسر فریق یعنی کفار تو یہ اکیلے نہیں بلکہ دل کی سیاہی شیطان کے ساتھ رابطہ پیدا کرتی ہے اور یہ لوگ اس سے راہنمائی بھی حاصل کرتے ہیں اور بعض خواہشات کی تکمیل بھی چاہتے ہیں اس کی وضاحت اس روز ہوجائے گی جب ہم ان سب کو اکٹھا جمع کریں گے اور جنوں سے یعنی شیاطین سے سوال ہوگا کہ تم نے تو بہت سے انسان اپنے تابع کرلیے تو ان کے دوست انسان پکار اٹھیں گے کہ بیشک ہم نے ایک دوسرے سے فائدے حاصل کئے شیطان الجن نے یہ فائدہ حاصل کیا کہ بہت سے انسانوں کو گمراہ کرکے اپنے پیچھے لگا لیا اور انسانوں میں سے جو شیطان بن گئے انہوں نے تکمیل خواہشات کی راہیں سیکھیں اور شیطان کے اثر سے مختلف شعبدے حاصل کرکے لوگوں پر رعب جمایا اور ان کے مال عزتیں برباد کیں یہی بدکاروں سے عجائبات کے ظاہر ہونے کا راز ہے چناچہ دونوں آخرت سے محروم ہو کر اور گناہوں سے لد کر کفر کی ظلمت لیے اس انجام کو پہنچ گئے ہیں جو ان اعمال پر مقرر تھا تو ارشاد ہوگا کہ اب تم دونوں گروہوں کا ٹھکانہ جہنم ہے جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہوگا اللہ کے سوا کوئی وہاں سے نکال نہیں سکتا اور اللہ نے کافر کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے کہ اسے جہنم سے کبھی نہ نکالے گا اور اس کے فیصلے بہت درست ہوتے ہیں کہ وہ حکمت والا بھی ہے اور دانا تر بھی۔ آخرت کا ساتھ : ہم ظالموں کو ظالموں کے ساتھ ملا دیتے ہیں کہ ان کے اعمال ایک جیسے ہوتے ہیں اس کی کوئی صورتیں مفسرین کرام نے نقل فرمائی ہیں ایک مفہوم تو یہ ہے آخرت کا حشر نسل رنگ وطن یا زبان وغیرہ کی بنیاد پر نہ ہوگا بلکہ عقائد اور اعمال کی بنیاد پر ہوگا کافر کافر کے ساتھ جمع ہوگا اور مومن مومن کے ساتھ خواہ دنیا میں ان کا رنگ ونسل کا فرق ہو یا زمانے کا اسی لیے بعض گناہوں پر فرعون اور ہامان کے ساتھ حشر ہونے کی وعید حدیث شریف میں ملتی ہے پھر کافروں کے بھی درجے ہوں گے اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے اور عموماً سب ہی ایک جیسے ہوں گے کہ سب کا تعلق شیطان سے تھا جس نے انہیں پوری طرح تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ایسے ہی مومن بھی اپنے اپنے درجے کے لوگوں کے ساتھ کوئی عبادت گذاروں سے ہوگا تو کوئی مجاہدین میں سے کسی نے علمی خدمات انجام دی ہوں گی تو دوسروں نے مال قربان کئے ہوں گے غرض یہ کہ دنیا کی تقسیم اور پارٹی بندی یا رنگ و نسل کا اعتبار نہیں نہ اس کی کوئی حیثیت ہوگی۔ دوسرا مفہوم اس کا دنیا میں بھی نگاہوں کے سامنے ہے کہ ہر مزاج کے آدمی کو ایسے ہی افراد کی مجلس نصیب ہوتی ہے اگر دل میں نیکی کی طلب پیدا ہوجائے تو اللہ کریم نیک لوگوں کی صحبت میں پہنچا دیتا ہے جس کے باعث مزید توفیق ارزاں ہوتی ہے اور شرح صدر اور دل کی روشنی نصیب ہوتی ہے مگر دل میں کھوٹ ہو تو مجالس بھی بری ملتی ہیں جو مزید گمراہی میں دھکیلنے کا سبب بنتی ہیں ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اللہ کسی حاکم پر راضی ہو تو اسے نیک عامل اور وزراء عطا کرتا ہے اور حکومت میں انصاف اور ترقی کا دور دورہ ہوتا ہے اگر خفا ہو تو برا عملہ دیتا ہے جو اسے چاہے بھی تو اچھا کام کرنے نہیں دیتے۔ یہی حال قوموں کا ہے کہ بدکاروں پر برے حاکم مسلط کردئیے جاتے ہیں تیسرا مفہوم یہی ہے کہ ظالموں پر ظالم ہی مسلط کرکے انہیں سزا دی جاتی ہے پھر ان پر کوئی اور مسلط ہوجاتا ہے یا بڑا ظالم عذاب الہی کی گرفت میں آجاتا ہے دنیا بھی اخروی انجام کا شیشہ دکھاتی ہے فرق اتنا ہے کہ یہاں توبہ کی فرصت موجود ہے اگر کوئی واپس آنا چاہے تو راستہ بند نہیں جبکہ آخرت میں واپسی کا راستہ نہیں ہوگا۔
Top