Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 123
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
جَعَلْنَا
: ہم نے بنائے
فِيْ
: میں
كُلِّ
: ہر
قَرْيَةٍ
: بستی
اَكٰبِرَ
: بڑے
مُجْرِمِيْهَا
: اس کے مجرم
لِيَمْكُرُوْا
: تاکہ وہ حیلے کریں
فِيْهَا
: اس میں
وَمَا
: اور نہیں
يَمْكُرُوْنَ
: وہ حیلے کرتے
اِلَّا
: مگر
بِاَنْفُسِهِمْ
: اپنی جانوں پر
وَمَا
: اور نہیں
يَشْعُرُوْنَ
: وہ شعور رکھتے
اور اس طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے بڑے لوگوں (رئیسوں) کو جرم کرنے والا بنایا کہ وہاں شرارتیں کریں اور یہ لوگ اپنے ہی ساتھ شرارت کر رہے ہیں اور ان کو (ذرا بھی) خبر نہیں
رکوع نمبر 15 ۔ آیات 123 ۔ تا ۔ 130 ۔ اسرار و معارف : اور کافر و مشرک تو مردہ ہیں جن کے مقابل مومن کی مثال ایسی ہے جیسے مردوں میں زندہ۔ قرآن حکیم جو ارشاد فرماتا ہے وہ شاعرانہ تعلی نہیں ہوتی بلکہ عین حق ہوتا ہے اسے محض مثال نہ سمجھا جائے زندگی اس صلاحیت سے عبارت ہے جو مقصد تخلیق کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی چیز میں پایا جاتا ہے اسی اصول کے تحت ہر شے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں مصروف ہے خواہ وہ آسمانی مخلوق ہے یا زمینی سورج چاند ستاروں سے لے کر ہوا بادل پانی مٹی نباتات اور حیوانات وغیرہ ان میں سے جو چیز اپنی صفت کھو بیٹھے وہ مردہ ہی شمار ہوگی جیسے سورج روشنی سے محروم ہوجائے یا کوئی جانور اپنے کام کا اہل نہ رہے تو وہ مردہ اور بیکار شمار ہوگا اسی طرح انسان بھی ایک مخلوق ہے اور اس کی ذمہ داری بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ دنیا کی زندگی کہاں سے شروع ہوئی اس کا خاتمہ کیا ہے اور سب کاروبار حیات کا نتیجہ کیا ہوگا اس سب پر نگاہ کرکے ایسا کردار اپنائے جو اسے انجام کار کامیابی سے ہمکنار کردے اور ایسے لوگوں کا دامن تھامے جو اس موضوع پر صحیح رہنمائی کرسکتے ہوں یہی وجہ ہے کہ نبوت پر ایمان ضروری ہے کہ انبیاء کے بغیر اس وسیع میدان کی پہنایوں میں کسی کی نگاہ کام نہیں کرسکتی اسی عظیم مقصد نے انسانیت کو ساری مخلوق میں فضیلت عطا کردی ورنہ جن بےدین دانشور کہلانے والوں نے انسان کو محض ایک ہوشیار جانور قرار دیا ہے انہوں نے انسان کو گدھے اور درندوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے اگر انسان کا مقصد حیات صرف کھانا پینا گھر بنانا یا اولاد پیدا کرنا اور مرجانا ہی ہے تو پھر اس میدان میں بیشمار جانور اس سے بازی لے جاسکتے ہیں کہ بہترین قدرتی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں اس سے زیادہ صحت مند اور طاقتور ہوتے ہیں اچھی خوراک پسند کرکے کھاتے ہیں گھر بناتے اور بچے پالتے ہیں جب کہ یہ ہزار قسم کی مشینوں کا متاہج ہے وہ بےتکلف زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے بھلے برے یعنی نفع یا نقصان دینے والی چیزوں سے واقف ہوتے ہیں علاوہ ازیں جانوروں کا گوشت کھال ہڈیاں تک دوسروں کے کام آتی ہیں حتی کہ نباتات میں بھی یہ اوصاف موجود ہیں کہ پھل پھول لکڑی اور چھال تک مفید ہوتی ہے ان سب چیزوں کی منفعت صرف دنیا کی زندگی کے لیے ہے جب کہ انسان کا کردار خالق کائنات کے قرب کو پانے کی اہلیت رکھتا ہے دنیا کی ساری مخلوق کی زندگی صرف دنیا کے ساتھ ہے جب کہ انسان ہمیشہ کے لیے ہے اگر وہ ابدی کامیابی کے لیے کام نہیں کر رہا جس کی بنیاد ایمان ہے تو اس کی روح ایک مردہ لاش ہے جسے جسم کی قبر گھسیٹ رہی اور ایمان ایک نور ہے اس اعتبار سے بھی کہ راہ حیات روشن کردیتا ہے اور انسان اس طویل سفر کے نشیب و فراز دیکھ سکتا ہے پھر گڑھوں میں گرنے کی بجائے درست راستہ اختیار کرسکتا ہے جب کہ کافر نور ایمان سے محرومی کے باعث ضلالت و گمراہی کے گڑھوں میں گرتا رہتا ہے اور بالآخر تباہ ہوجاتا ہے اور اس معنی میں بھی نور ہے کہ نبی رحمت ﷺ کے قلب اطہر کی نورانیت قبول ایمان کے سبب مومن کے قلب سے رابطہ پیدا کرتی ہے پھر جس قدر اطاعت کرتا ہے یہ روشنی بڑھتی رہتی ہے حتی کہ وہ قوت پیدا کرلیتا ہے کہ اس سے ملنے والے بھی راستہ پانے لگتے ہیں یعنی وہ اس نور کو لیکر امور دنیا میں سرگرم رہتا ہے اور میدان عمل میں راہ حق کو واضح کرتا چلا جاتا ہے محض گوشہ گیری میں اختیار نہیں کرتا اگر کشفاً دیکھا جائے تو ہر مومن کے دل کی تار رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر سے جڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس میں کمی یا زیادتی کا مدار اتباع اور اطاعت پر ہوتا ہے۔ نور ایمان اور تصوف : جن لوگوں کو ایمان کے ساتھ آپ ﷺ سے شرف صحبت نصیب ہوا۔ ان کے قلوب روشنی کے مینار بن گئے اور وہ شرف صحابیت سے مشرف ہوئے جو نبوت کے بعد اعلی ترین درجہ ہے اسی کے طفیل انہیں کمال اطاعت بھی نصیب ہوا یہ دولت سینہ بسینہ تابعین تبع تابعین اور مشائخ عظام نے مجالس سے ہی حاصل کی یہی سارا تصوف ہے اور تمام مجاہدوں کا ماحصل۔ اور یہی سب سے بڑا فائدہ ہے جو مومن سے انسانیت کو نصیب ہوتا ہے کہ اس کے ہمنشین بھی دلوں کی روشنی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اس کے مقابل جو اس روشنی سے محروم ہیں یعنی کفار اور اسی تاریکی میں سرگرداں ہیں اس سے نکل بھی نہیں پار ہے وہ ہرگز ان کے برابر نہیں ہوسکتے بلکہ کفر کی تاریکی نے ان کے مزاج ہی بدل دئیے ہیں اور انہیں یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ اس تاریکی پر مزید سیاہی چڑھانا ہی بہت بڑا کام ہے ان کے گناہوں کی وجہ سے اللہ نے یہی بات ان کے مزاجوں میں پیدا کردی ہے لہذا وہ اسی میں غرق ہوتے جا رہے ہیں اور اس مرض کا شکار عموماً امرا ہوتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس وسائل زیادہ ہوتے ہیں چناچہ جب وہ گناہوں میں ڈوب گئے تو اللہ نے ان کے دلوں میں ٹیڑھا پن پیدا فرما دیا جو اس امت میں نہیں پہلے بھی ہوتا رہا ہے چناچہ انہوں نے اپنی برائیوں کو پھیلانے کی چالیں چلیں تو غریب اور عام لوگ بھی ان کی دیکھا دیکھی اس برائی اور کفر میں مبتلا ہوتے چلے گئے اس لیے نہ تو لوگوں کی کثرت کو دیکھا جائے گا اور نہ یہ خیال کرنا چاہئے کہ بڑے بڑے لوگ کیا کہتے ہیں بلکہ معیار صرف اور صرف حق ہے جو بھی حق پر ہو اس کا ساتھ اختیار کرنا چاہئے کفار بظاہر تو سب کچھ حق کو مٹانے کے لیے کرتے ہیں مگر یہ تدبیریں خود ان کے خلاف پڑتی ہیں کہ ان کی کوششوں کی وجہ سے یہ اپنی دائمی زندگی کو ناکامیوں اور نامرادیوں سے بھر رہے ہیں۔ ذرا ان کا حال دیکھئے جب ان کے پاس اللہ کریم کا پیغام پہنچا اور اللہ کا نبی ﷺ نوید حیات لایا تو کہنے لگے بھئی ہم جب مانیں گے جب وہی بات جو آپ سے ہوتی ہے ہم سے کبھی ہو آخر ہم بھی تو انسان ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہم آپ ﷺ کی وساطت سے ہی بات سنیں۔ نبوت و رسالت : یہ نادان اور جاہل لوگ نبوت و رسالت کی عظمت سے نا آشنا ہیں ان کا خیال خام ہے کہ ہم مالدار سردار ہیں یا ہمارے پاس اقتدار ہے یا اور کوئی خاندانی یا نسبی وجاہت ہے تو ہم سے بھی بات ہوجائے حالانکہ مکالمہ الہی کے سزاوار صرانبیا ہوتے ہیں اور یہ عہدہ انعام باری ہے جو وہ اپنی پسند سے عطا فرماتے ہیں کوئی بھی انسان خاندانی وجاہت یا اقتدار یا علم و فن اور محنت و مجاہدہ سے نبی نہیں بن سکتا یہ اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ رسالت کیسے عطا فرماتا ہے اور نبی کیسے بناتا ہے یعنی انبیاء بیشک انسان ہی ہوتے ہیں مگر وہ معیار انسانیت ہوتے ہیں تخلیقی طور پر ایک خاص استعداد کے مالک ہوتے ہیں اور معصوم عن الخطا یعنی ان کے مقدس وجودوں میں خطا کا مادہ ہی نہیں ہوتا غیر معصوم ساری زندگی خطا نہ کرے خطا کا امکان تو موجود رہتا ہے۔ اس لیے وہ حامل وحی نہیں ہوسکتا یہ دولت صرف ان کو نصیب ہوتی ہے جنہیں اللہ کریم عطا فرمائیں تم بھی انسان ہو تو پھر اپنا بچپن لڑکپن اور جوانی اللہ کریم کے نبی ﷺ کے مقابل لاؤ دیکھو کتنے فاصلے ہیں یہی دھوکا ان حضرات کو بھی لگتا ہے جو اپنے کو انسان سمجھ کر بشریت انبیاء کا انکار کردیتے ہیں اور واقعی اگر ہم اپنی اس حالت کے ساتھ انسان ہیں تو نبی ﷺ کو بہرحال افضل ہونا چاہئے مگر حق یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ انسان کامل ہیں اور ہم میں جو ادا آپ کی غلامی اور نسبت کی ہے وہ انسانیت ہے اور جو عقیدہ یا کردار آپ کے نور سے محروم ہے وہ مھض حیوانیت ہے ان کا یہ مطالبہ نہ صرف انکار ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی گستاخی جیسا جرم عظیم ہے اس کے بدلے انہیں سخت عزاب کے ساتھ نہایت ذلت بھی ملے گی اور ان کی ساری اکڑ خاک میں مل جائے گی آخرت میں تو ایسا یقیناً ہوگا تاریخ عالم نے اس دنیا میں بھی گستاخان رسالت کا غرور خاک میں ملتے دیکھا ہے بعض لوگ تو محض دیکھا دیکھی ان کے ساتھ شامل تھے آخر توبہ نصیب ہوئی اور خدام رسالت میں پناہ ملی مگر جو لوگ ہر حال میں مخالفت پہ تل گئے تھے وہ سب ذلت کی موت سے دو چار ہو کر باعث عبرت بن گئے۔ شرح صدر فیضان صحبت کا اثر ہے : اللہ کریم جسے ہدایت دینا چاہیں اس کا سینہ قبول اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں مراد یہ ہے کہ جو بھی انسان اللہ سے ہدایت کا طالب ہو یا اس کے دل میں ہدایت کی طلب پیدا ہو تو اللہ کریم اسے ایسے اسباب مہیا فرما دیتے ہیں جن کی وجہ سے اس کا دل روشن ہو کر اس قابل ہوجاتا ہے کہ اللہ کی بات قبول کرسکے اس کی مثال صحابہ کرام ہیں جنہیں حق تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی صحبت نصیب فرمائی تو ان کے سینے احکام الہی کو اس طرح قبول کرتے تھے کہ کبھی کسی کو نہ وسوسہ پیدا ہوا اور نہ اعتراض ان کے سوالات تشریح اور وضاحت کے لیے تو ہوتے تھے مگر انہیں کبھی اعتراض پیدا نہ ہوا اس کی وجہ ان کا شرح صدر تھا یعنی دل کی وہ حالت کہ حق کو فوراً قبول کرلیتا تھا اور باطل کو رد کردیتا تھا اسی لیے اللہ نے انہیں معیار حق قرار دے دیا یہی نعمت وارثان نبوت کی مجالس میں تقسیم ہوتی ہے اور اس کے حصول کے لیے جو محنت و مجاہدہ شیخ کی صحبت میں رہ کر یا اس کے طریقے سے کیا جاتا ہے اسے اصطلاح میں تصوف کہا جاتا ہے اور یہی معیار بھی ہے کہ اگر دل میں نیکی کی طلب اور خشوع خضوع پیدا ہورہا ہے تو جس شخص کی مجلس میں یہ دولت ملے وہ اکسیر ہے ورنہ محض کشف اور عجائبات کا ظہور کوئی مقصد نہیں۔ اور شبہات دور کرنے کا طریقہ بھی اسی نعمت کا حصول ہے ورنہ محض دلائل اور مباحثہ سے کبھی یقین کی دولت نہیں ملتی یہی حال اس کے برعکس کا ہے اگر اللہ کریم ناراض ہوں جس کا سبب بھی انسان کی اختیار کردہ راہ اور اس کا عمل ہی ہوتا ہے تو پھر سینہ اسلام کے لیے تنگ ہوجاتا ہے اتنا تنگ کہ قبول اسلام ہی اسے دنیا میں مشکل ترین کام نظر آتا ہے اور اطاعت الہی دشوار ترین محسوس ہوتی ہے اور اس کے دل پر نجاست اور تاریکی کی تہ بڑھتی چلی جاتی ہے یہ وہ نامرادی ہے جو اہل اللہ کی مخالفت کا ثمر ہے کہ دل تباہ ہو کر گناہوں میں غرق ہوجاتے ہیں۔ اس لیے مذکورہ راستہ ہی آپ ﷺ کے رب کا پسندیدہ اور سیدھا راستہ ہے یعنی نیک لوگوں کا ساتھ ہی نیک عمل تک پہنچانے کا باعث بنتا ہے اور اہل ھق سے ہی ہدایت ملتی ہے اگر کسی شخص کے اپنے عقاید یا اعمال درست نہ ہوں تو وہ خود اس دولت سے محروم ہونے کی وجہ سے دوسروں کو اس سے کیا حصہ دے سکتا ہے لہذا اہل اللہ کی مجالس میں حصول حق کی خاطر حاضری ضروری ہے محض دنیاوی فوائد کو مقصد بنا لینے والے صحیح راستے پر نہیں ہوسکتے اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہے تو باتیں بہت واضح کرکے ارشاد فرما دی گئی ہیں لیکن محض کج بحثی کرنے والوں کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ کشف بہت بڑا انعام بھی ہے : ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ کے پاس سلامتی کے گھر ہیں یعنی آخرت میں جنت اور دنیا میں رضائے الہی کی طلب اور ان کے اس کردار کی وجہ سے کہ انہوں نے ایمان قبول کیا اور اہل حق کی مجلس اختیار کی انہیں اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے وہ دنیا میں بھی پریشان نہیں ہوتے یہاں صاحب معارف القرآن نے لکھا ہے کہ دنیا میں اللہ کریم آخرت کی نعمتوں کو مستحضر فرما دیتے ہیں جس کی وجہ سے اگر دنیا میں تکلیف بھی آئے تو ان نعمتوں کے مقابل ہیچ نظر آتی ہے جیسے دنیا کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے لوگ کس قدر تکالی فبرداشت کرلیتے ہیں مہینہ بھر کی تھکن کو تنخواہ کی امید پر برداشت کرتے ہیں اور منصب و اقتدار کے لیے کیسے کیسے جتن کرتے ہیں اسی طرح اگر اللہ کسی پر آخرت اور اس کی نعمتوں کو منکشف فرما دیں تو دنیاوی تکالیف کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی جب کہ یہ صرف نور ایمان اور فیوضات نبوت سے ہی ممکن ہے۔ دوسرا انعام انہیں معیت باری کا نصیب ہتا ہے اور تمام امور میں اللہ کی تائید اور مدد شامل ہوتی ہے اگر بظاہر تکلیف یا ناکامی بھی ہو تو رضائے دوست ہونے کی وجہ سے لذت سے خالی نہیں ہوتی۔ صورتا مصیبت مگر حقیقتاً ایک گونہ انبساط لیے ہوئے ہوتی ہے۔ شیطان سے رابطہ : رہا دوسر فریق یعنی کفار تو یہ اکیلے نہیں بلکہ دل کی سیاہی شیطان کے ساتھ رابطہ پیدا کرتی ہے اور یہ لوگ اس سے راہنمائی بھی حاصل کرتے ہیں اور بعض خواہشات کی تکمیل بھی چاہتے ہیں اس کی وضاحت اس روز ہوجائے گی جب ہم ان سب کو اکٹھا جمع کریں گے اور جنوں سے یعنی شیاطین سے سوال ہوگا کہ تم نے تو بہت سے انسان اپنے تابع کرلیے تو ان کے دوست انسان پکار اٹھیں گے کہ بیشک ہم نے ایک دوسرے سے فائدے حاصل کئے شیطان الجن نے یہ فائدہ حاصل کیا کہ بہت سے انسانوں کو گمراہ کرکے اپنے پیچھے لگا لیا اور انسانوں میں سے جو شیطان بن گئے انہوں نے تکمیل خواہشات کی راہیں سیکھیں اور شیطان کے اثر سے مختلف شعبدے حاصل کرکے لوگوں پر رعب جمایا اور ان کے مال عزتیں برباد کیں یہی بدکاروں سے عجائبات کے ظاہر ہونے کا راز ہے چناچہ دونوں آخرت سے محروم ہو کر اور گناہوں سے لد کر کفر کی ظلمت لیے اس انجام کو پہنچ گئے ہیں جو ان اعمال پر مقرر تھا تو ارشاد ہوگا کہ اب تم دونوں گروہوں کا ٹھکانہ جہنم ہے جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہوگا اللہ کے سوا کوئی وہاں سے نکال نہیں سکتا اور اللہ نے کافر کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے کہ اسے جہنم سے کبھی نہ نکالے گا اور اس کے فیصلے بہت درست ہوتے ہیں کہ وہ حکمت والا بھی ہے اور دانا تر بھی۔ آخرت کا ساتھ : ہم ظالموں کو ظالموں کے ساتھ ملا دیتے ہیں کہ ان کے اعمال ایک جیسے ہوتے ہیں اس کی کوئی صورتیں مفسرین کرام نے نقل فرمائی ہیں ایک مفہوم تو یہ ہے آخرت کا حشر نسل رنگ وطن یا زبان وغیرہ کی بنیاد پر نہ ہوگا بلکہ عقائد اور اعمال کی بنیاد پر ہوگا کافر کافر کے ساتھ جمع ہوگا اور مومن مومن کے ساتھ خواہ دنیا میں ان کا رنگ ونسل کا فرق ہو یا زمانے کا اسی لیے بعض گناہوں پر فرعون اور ہامان کے ساتھ حشر ہونے کی وعید حدیث شریف میں ملتی ہے پھر کافروں کے بھی درجے ہوں گے اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے اور عموماً سب ہی ایک جیسے ہوں گے کہ سب کا تعلق شیطان سے تھا جس نے انہیں پوری طرح تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ایسے ہی مومن بھی اپنے اپنے درجے کے لوگوں کے ساتھ کوئی عبادت گذاروں سے ہوگا تو کوئی مجاہدین میں سے کسی نے علمی خدمات انجام دی ہوں گی تو دوسروں نے مال قربان کئے ہوں گے غرض یہ کہ دنیا کی تقسیم اور پارٹی بندی یا رنگ و نسل کا اعتبار نہیں نہ اس کی کوئی حیثیت ہوگی۔ دوسرا مفہوم اس کا دنیا میں بھی نگاہوں کے سامنے ہے کہ ہر مزاج کے آدمی کو ایسے ہی افراد کی مجلس نصیب ہوتی ہے اگر دل میں نیکی کی طلب پیدا ہوجائے تو اللہ کریم نیک لوگوں کی صحبت میں پہنچا دیتا ہے جس کے باعث مزید توفیق ارزاں ہوتی ہے اور شرح صدر اور دل کی روشنی نصیب ہوتی ہے مگر دل میں کھوٹ ہو تو مجالس بھی بری ملتی ہیں جو مزید گمراہی میں دھکیلنے کا سبب بنتی ہیں ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اللہ کسی حاکم پر راضی ہو تو اسے نیک عامل اور وزراء عطا کرتا ہے اور حکومت میں انصاف اور ترقی کا دور دورہ ہوتا ہے اگر خفا ہو تو برا عملہ دیتا ہے جو اسے چاہے بھی تو اچھا کام کرنے نہیں دیتے۔ یہی حال قوموں کا ہے کہ بدکاروں پر برے حاکم مسلط کردئیے جاتے ہیں تیسرا مفہوم یہی ہے کہ ظالموں پر ظالم ہی مسلط کرکے انہیں سزا دی جاتی ہے پھر ان پر کوئی اور مسلط ہوجاتا ہے یا بڑا ظالم عذاب الہی کی گرفت میں آجاتا ہے دنیا بھی اخروی انجام کا شیشہ دکھاتی ہے فرق اتنا ہے کہ یہاں توبہ کی فرصت موجود ہے اگر کوئی واپس آنا چاہے تو راستہ بند نہیں جبکہ آخرت میں واپسی کا راستہ نہیں ہوگا۔
Top