Madarik-ut-Tanzil - Al-Waaqia : 70
لَوْ نَشَآءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْ لَا تَشْكُرُوْنَ
لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں جَعَلْنٰهُ : بنادیں ہم اس کو۔ کردیں ہم اس کو اُجَاجًا : کڑوا زہر فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ : پس کیوں نہیں تم شکر ادا کرتے
اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے ؟
70 : لَوْ نَشَآ ئُ جَعَلْنٰـہُ اُجَاجًا (اگر ہم چاہیں تو اس کو کڑوا کر ڈالیں) اُجاجاؔ نمکین یا کڑوا جو پیا نہ جاسکے۔ فَلَوْلَا تَشْکُرُوْنَ (پس تم شکر کیوں نہیں کرتے) ایک لطیف تحقیق : لولا یہ ھلا کے معنی میں ہے لو کے جواب میں لجعلناہ حطامًا میں لام لگائی گئی ہے۔ جبکہ یہاں لام نہیں لگائی گئی کیونکہ لو جب دو جملوں پر داخل ہو تو دوسرا جملہ پہلے کے ساتھ اس طرح معلق ہوگیا جیسے جزاء شرط سے معلق ہوتی ہے۔ یہ اِنؔ کی طرح خاص شرط کیلئے نہیں اور نہ اس طرح عمل کرنے والا ہے۔ پس اس میں شرط کا معنی تو اتفاقاً سرایت کرگیا اس لئے کہ اس سے دونوں جملوں کے مضمون میں فائدہ تھا اور دوسرے جملہ میں ممانعت تو پہلے جملے میں ممانعت کی بناء پر ہے۔ اس لئے اس کے جواب میں ایسی چیز کی محتاجی ہوئی جو علم کو نصب اس تعلق کی بنیاد پردے اسی لئے لام کا اضافہ کردیا۔ تاکہ وہ اس کی علامت بن جائے۔ جب اس کے موقعہ کی تشہیر ہوگئی تو لفظوں سے اس کے ساقط کردینے میں کوئی حرج نہ ہو کیونکہ ہر ایک اس کو جانتا ہے اور اس کی حذف، اور بقاء کی دونوں حالتیں برابر ہیں۔ باوجودیکہ اس کا ذکر پہلے ہوا اور معمولی فاصلہ اس کے دوسری مرتبہ تذکرے کا ضرورت مند نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ لام بہرصورت تاکید کے معنی کو مفید ہے پس مطعومات والی آیات میں اس کو داخل کیا گیا مشروب والی آیات میں نہیں اس لئے کہ مطعوم کا معاملہ مشروب سے مقدم ہے اور اس کے نہ پائے جانے سے وعید زیادہ سخت و مشکل ہے اس لحاظ سے بھی کہ مشروب کی ضرورت مطعوم کے تابع کی حیثیت سے ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے مطعوم والی آیت کو مشروبات والی آیت پر مقدم فرمایا گیا۔
Top