Madarik-ut-Tanzil - Al-Israa : 28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا
وَاِمَّا : اور اگر تُعْرِضَنَّ : تو منہ پھیر لے عَنْهُمُ : ان سے ابْتِغَآءَ : انتظار میں رَحْمَةٍ : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : اپنا رب تَرْجُوْهَا : تو اس کی امید رکھتا ہے فَقُلْ : تو کہہ لَّهُمْ : ان سے قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : نرمی کی بات
اور اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کرسکو تو ان سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو
28: وَاِمَّاتُعْرِضَنَّ عَنْھُمْ (اور اگر تمہیں ان سے رخ پھیرنا پڑے) اگر تم قرابت والوں اور مساکین، ابن سبیل سے واپس لوٹانے سے حیا کرتے ہوئے اعراض کرو۔ ابْتِغَآ ئَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا ( اس رزق کی امید میں جس کے تم اپنے رب کی طرف سے امیدوار ہو تو ان کو نرمی والی بات کہو) یعنی اگر تم اس رزق کے نہ ہونے کی وجہ سے اعراض کرتے ہو جس کے ملنے کی تمہیں امید ہے تو ان کو اچھی بات کہہ کر لوٹائو۔ آیت میں رزق کو رحمت سے تعبیر فرمایا۔ اور فقدؔ کی بجائے اِبْتِغَائکا لفظ لایا گیا۔ یہ اس کا لازم ہے کیونکہ رزق کو گم پانے والا اسکا متلاشی ہوتا ہے گویا فقد ؔ سبب ابتغاء ہے اور ابتغاء مسبب عنہ ہے۔ پس مسبب کو سبب کی جگہ لایا گیا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے یسر الامروعُسر جیسے سُعِد الرجل و نُحس۔ یہ مفعول ہے۔ نمبر 2۔ کہا گیا ہے کہ اس کا معنی یہ ہے کہ انہیں اس طرح کہہ دو ۔ رزقنا اللّٰہ و ایاکم من فضلہ اس صورت میں یہ ان کے حق میں وسعت رزق کی دعا ہے۔ گویا اس کا معنی اس طرح ہے قولاً ذامیسور وھو الْیُسر یعنی ایسی دعا جس میں وسعت ہو۔ ابتغاء نمبر 1۔ یہ مفعول لہ ہے۔ نمبر 2۔ مصدر ہے جو موضع حال میں لایا گیا ہے اور ترجوھاؔ یہ حال ہے۔
Top