Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 28
وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا
وَاِمَّا : اور اگر تُعْرِضَنَّ : تو منہ پھیر لے عَنْهُمُ : ان سے ابْتِغَآءَ : انتظار میں رَحْمَةٍ : رحمت مِّنْ : سے رَّبِّكَ : اپنا رب تَرْجُوْهَا : تو اس کی امید رکھتا ہے فَقُلْ : تو کہہ لَّهُمْ : ان سے قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : نرمی کی بات
اور اگر تم نے اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کرسکو اُن سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو
وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَاۗءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُوْرًا : اور اگر اپنے رب کی طرف سے جس رزق کے آنے کی تم کو امید ہو اس کے انتظار میں تم کو ان کی طرف سے رخ پھیرنا پڑے تو ان سے نرمی کے ساتھ بات کہہ دو ۔ (یعنی نرمی کے ساتھ ان سے معذرت کر دو ) تم ان پر رحم کرو گے اور نرمی سے کلام کرو گے تو اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔ میسور ‘ یَسَرَ الاَّمرَسے ماخوذ ہے۔ بغوی نے لکھا ہے نرم بات کہنے سے یہ مراد ہے کہ ان سے نرمی کے ساتھ وعدہ کرلو۔ بعض کے نزدیک دعاء یسر کرنا مراد ہے یعنی ان کے لئے دعا کرو کہ اللہ تمہاری مشکل آسان کر دے۔ ہم کو اور تم کو اللہ رزق عطا فرمائے۔ سعید بن منصور نے حضرت سیار بن ابی الحکم کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں کچھ کپڑا پیش کیا گیا۔ حضور ﷺ بڑے سخی اور بخشش کرنے والے تھے آپ ﷺ نے فوراً لوگوں کو وہ کپڑا تقسیم کردیا ‘ تقسیم کے بعد کچھ لوگ پہنچے تو ان کو کچھ نہ ملا۔ حضور ﷺ : تقسیم سے فارغ ہوچکے تھے ‘ اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top