Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 45
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ؕ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
فَقُطِعَ : پھر کاٹ دی گئی دَابِرُ : جڑ الْقَوْمِ : قوم الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا (ظالم) وَ : اور الْحَمْدُ : ہر تعریف لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
سو جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی ان لوگوں کی جو اڑے ہوئے تھے اپنے ظلم (وعدوان) پر، اور سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جو پروردگار ہے سب جہانوں کا3
70 ظالموں کی ہلاکت پر اللہ کا شکر ادا کرنا واجب : کہ اس نے اپنی رحمت و عنایت سے ایسے ظالم اور خبیث لوگوں کے خبیث وجود سے اپنی دھرتی کو پاک کیا اور اہل زمین کو ان کے اعمال خبیثہ کے منحوس آثار و نتائج سے نجات دلائی۔ علامہ زمخشری کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ ظالموں کی ہلاکت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے کہ یہ اس کی عظیم الشان نعمتوں میں سے ہے۔ اور اس آیت کریمہ میں خبر بمعنی امر کے ہے۔ (محاسن التاویل للقاسمی وغیرہ) ۔ فالحمدللہ رب العالمین ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ مُکَذِّبِیْنِ جب اپنی خرمستی کی اس انتہا کو پہنچ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ سو اس ارشاد میں اس بات کی طرف بھی نہایت لطیف اشارہ ہے کہ اس سے پہلے اس طرح کے مجرموں پر ابتلا کے جو جھونکے آتے ہیں ان سے ان لوگوں کے شجر ہستی کے صرف برگ و بار متاثر ہوتے ہیں اور وہ بھی وقتی طور پر۔ ان کی جڑ بہرحال محفوظ رہتی ہے۔ لیکن جب ان پر ایسا آخری وقت آجاتا ہے تو خداوند قدوس ان پر ایسا آخری عذاب بھیج دیتا ہے جو ان کے قومی وجود کو جڑ سے کاٹ پھینکتا ہے۔ کیونکہ ایسے لوگ اس موقع پر ایسے زہریلے درخت بن کر رہ جاتے ہیں جو زہریلے پھل ہی دیتے ہیں اور ان کے برگ و بار سے زہریلی ہوا ہی پھیلتی ہے۔ سو ایسے میں ان لوگوں کا وجود ناقابل برداشت بن جاتا ہے۔ اور جس خالق ومالک نے اس کائنات کو بالحق پیدا فرمایا ہے وہ ایسے زہریلے درختوں کو باقی نہیں رہنے دیتا جن کے زہریلے برگ و بار اور ان کی مسموم ہوائیں پورے چمن کو برباد کر کے رکھدیں۔ سو سزاوار حمد و شکر ہے وہ پروردگار عالم جو ایسی بیکار بلکہ ضرر رساں قوموں کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ-
Top