Anwar-ul-Bayan - Al-An'aam : 45
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ؕ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
فَقُطِعَ : پھر کاٹ دی گئی دَابِرُ : جڑ الْقَوْمِ : قوم الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا (ظالم) وَ : اور الْحَمْدُ : ہر تعریف لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
سو ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جنہوں نے ظلم کیا، اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
(وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِنْنَ ) (سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو سب جہانوں کا رب ہے) اس نے دکھ تکلیف میں مبتلا کرکے رجوع کرنے کا موقع دیا پھر نعمتوں سے نوازا لیکن وہ کسی طرح باز نہ آئے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے موافق ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوسری امت پیدا فرما دی۔ ایک امت ہلاک ہوئی تو دوسری امت نے وہی طرز اختیار کیا جو ان سے پہلی امت کا تھا۔ شکر کا مطلب اور شکر کی اہمیت : کسی فرد یا جماعت کے پاس جو بھی کوئی نعمت ہو اس پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھے اور اس کا شکر گزار ہو اور اپنے اعضاء وجوارح کو بھی فرماں برداری میں لگائے اور نافرمانی سے بچائے تاکہ صحیح معنوں میں شکر گزار بن جائے۔ اگر کسی فرد یا قوم یا جماعت کے پاس کوئی نعمت ہو تو نہ اس پر اترائے اور نہ نعمت دینے والے کو بھولے۔ اور نہ نافرمانی اختیار کرے، اصل نعمت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے ساتھ ہو۔ اور گنہگاری ہو تو وہ نعمتیں، نعمتیں نہیں رہتیں کیونکہ ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ وہ گرفت اور عتاب و عذاب کا سبب بن جاتی ہے۔ نعمتیں ہوں اور ان کے ساتھ اعمال صالحہ ہوں تو یہ اللہ کا مقبول بندہ ہونے کی دلیل ہے اگر نعمتیں ہوں اور نافرمانی ہو اور یہ سمجھے کہ میں اللہ کا مقرب بندہ نہ ہوتا تو یہ نعمتیں مجھے کیوں ملتیں۔ یہ حماقت اور بےوقوفی کی بات ہے جو اللہ تعالیٰ کے نظام تکوینی سے بیخبر ی پر مبنی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ گناہوں کے باوجود اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی محبوب چیزیں دے رہے ہیں تو یہ استدراج ہے (جس کا معنی یہ ہے کہ ڈھیل دے کر نعمتیں عطا فرما کر اسے گناہوں میں ترقی کا اور زیادہ موقع دیا جا رہا ہے تاکہ زیادہ وہ عذاب میں مبتلا ہو) اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے آیت بالا (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ ) آخر تک تلاوت فرمائی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص 443) یہ انسان کی کیسی ناسمجھی ہے کہ نہ نعمت سے صحیح راہ پر آتا ہے اور نہ نقمت اور عذاب سے عبرت حاصل کرتا ہے۔ سورة اعراف میں فرمایا (وَ مَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْن ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَان السَّیِّءَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَ نَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ) (اور ہم نے جس کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو وہاں کے لوگوں کو سختی اور تکلیف کے ذریعہ ضرور پکڑاتا کہ وہ لوگ گڑگڑائیں۔ پھر ہم نے بدل دیا سختی کو آسانی سے یہاں تک کہ وہ زیادہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادوں کو بھی تکلیف اور خوشی پہنچی ہے تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ بیخبر تھے) ۔ مصائب اور آفات سے عبرت لینے کی بجائے گناہوں پر اصرار کرتے رہنا اور عبرت لینے کی بجائے یہ کہہ کر خود فریبی میں مبتلا ہونا یہ تو دنیا میں ہوتا ہی رہتا ہے ہمارے آباؤ و اجداد بھی دکھ تکلیف میں مبتلا ہوئے اسی طرح ہم پر بھی مصیبت آگئی ہے یہ اور زیادہ حماقت کی بات ہے مصائب کا سبب گناہوں کو نہ سمجھنا اور گناہوں پر اڑے رہنا اور یہ کہنا کہ یہ تو دنیا میں ہوتا ہی آیا ہے بڑی بد بختی ہے۔ اَ عَاذَنَا اللّٰہُ مِنْ ذَالِکَ فرح محمود اور مذموم : فرح عربی میں خوش ہونے کو کہتے ہیں اور اس کی دو صورتیں ہیں ایک اس بات کی خوشی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو نعمت عطا فرمائی کرم فرمایا مہربانی فرمائی، اور پھر زبان اور قلب کے اقرار اور شکر کے ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں میں لگے رہیں۔ یہ فرح اور خوشی محمود ہے۔ سورۂ یونس میں فرمایا (قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ) (آپ فرمایا دیجیے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں) اور فرح کی دوسری صورت یہ ہے کہ نعمتوں پر اترانے لگے۔ خالق کو یاد نہ کرے نعمتوں میں مست ہوجائے اور یہ سمجھے کہ یہ سب چیزیں میرے ہنر سے حاصل ہوئیں۔ اور یہ جو (فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا) فرمایا اس سے یہی اترانے والا، نعمتیں دینے والے کو بھلا دینے والا فرح مراد ہے قارون کی قوم نے اس سے کہا (لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِینَ ) (کہ تو مت اترا بیشک اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا) اس پر قارون نے جواب میں کہا (اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ) (کہ مجھے جو کچھ ملا ہے میرے علم ہی کی وجہ سے ملا ہے) دینے والے کو بھولا، اپنے کمال کا مدعی ہوا۔ لا محالہ اپنے گھر سمیت زمین میں دھنسایا گیا مالداری اور تنگدستی کے ذریعہ آزمائش ہوتی ہے تنگ دستی میں راہ حق پر اور اعمال صالحہ پر باقی رہنا اور گناہوں سے بچنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ مالداری میں حق پر جمنا اور دین پر چلنا دشوارہوتا ہے۔ حضرت کعب بن عیاض ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر امت کے لیے ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج 2 ص 442) حضرت عمرو بن عوف ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تمہارے بارے میں تنگ دستی کا خوف نہیں لیکن مجھے تمہارے بارے میں اس بات کا خوف ہے کہ دنیا خوب دے دی جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں کو دے دی گئی تھی پھر تم اس کی رغبت میں آپس میں مقابلہ کرنے لگو جیسے ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا پھر وہ تمہیں ہلاک کر دے جیسے انہیں کردیا۔ (رواہ البخاری ج 1 ص 951 و مسلم ج 2 ص 407)
Top