Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 45
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ؕ وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
فَقُطِعَ : پھر کاٹ دی گئی دَابِرُ : جڑ الْقَوْمِ : قوم الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا (ظالم) وَ : اور الْحَمْدُ : ہر تعریف لِلّٰهِ : اللہ کے لیے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اور سب تعریف خدائے رب العالمین ہی کو (سزاوار ہے)
فقطع دابر القوم الذین ظلموا پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی۔ قاموس میں دابر کا معنی ہے تابع ہر چیز کا آخری حصہ جڑ۔ مطلب یہ ہے کہ سب کو ہلاک کردیا گیا ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہا۔ توالد کا سلسلہ ہی کاٹ دیا گیا۔ نسل منقطع ہوگئی۔ پس قطع دابر قطع اصول کی صورت میں ہوگیا یا قطع فروع کی شکل میں۔ بجائے دابرہم کہنے کے دابر القوم الذین۔۔ سے اس طرف اشارہ ہے کہ ان کی بربادی کی علت ان کا ظلم تھا (اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا ان کا خود ظلم موجب بربادی ہوا) والحمدللہ رب العلمین۔ اور اللہ ہی کے لئے ہر ستائش ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ ظالموں کو ہلاک کرنا بھی قابل حمد و ستائش فعل ہے مؤمنوں کو ظالموں کے شر سے نجات ملتی ہے غلط افکار اور فاسد اعمال سے زمین پاک ہوتی ہے عقائد باطلہ اور اعمال فاسدہ نزول عذاب کا موجب ہوتے ہیں پس ظالموں کی تباہی سے اہل زمین عمومی تباہی سے محفوظ ہوجاتے ہیں اس جگہ وصف ربوبیت کا خصوصی ذکر اس لئے کیا کہ ظالموں کو تباہ کردینا ہمہ گیر ربوبیت کا تقاضا ہے (متعدی بیمار کی ہلاکت تعدیۂ مرض کی بندش و بیخ کنی کا سبب ہوتی ہے) اس جملہ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ جو اللہ کی حمد نہ کرے اور اللہ اس کو ہلاک کر دے تو ایسے شخص کی ہلاکت پر اللہ کی حمد کرنی واجب ہے۔ اس سے آگے اپنی قدرت کی ہمہ گیری اور توحید کو بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہے
Top