Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 146
وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ١ۚ وَ مِنَ الْبَقَرِ وَ الْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَاۤ اَوِ الْحَوَایَاۤ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ١ؕ ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ١ۖ٘ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ
وَعَلَي : اور پر الَّذِيْنَ : وہ جو کہ هَادُوْا : یہودی ہوئے حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا كُلَّ : ہر ایک ذِيْ ظُفُرٍ : ناخن والا جانور وَمِنَ الْبَقَرِ : اور گائے سے وَالْغَنَمِ : اور بکری حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردی عَلَيْهِمْ : ان پر شُحُوْمَهُمَآ : ان کی چربیاں اِلَّا : سوائے مَا حَمَلَتْ : جو اٹھاتی ہو (لگی ہو) ظُهُوْرُهُمَآ : ان کی پیٹھ (جمع) اَوِ الْحَوَايَآ : یا انتڑیاں اَوْ : یا مَا اخْتَلَطَ : جو ملی ہو بِعَظْمٍ : ہڈی سے ذٰلِكَ : یہ جَزَيْنٰهُمْ : ہم نے ان کو بدلہ دیا بِبَغْيِهِمْ : ان کی سرکشی کا وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَصٰدِقُوْنَ : سچے ہیں
اور ان لوگوں پر جو یہودی بن گئے، ہم نے حرام کردیا ہر ناخن والے جانور کو اور گائے اور بکری کی چربی کو بھی ان پر حرام کردیا تھا، سوائے اس کے جو چڑھی ہو ان کی پیٹھوں یا انتڑیوں پر یا لگی ہوئی ہو کسی ہڈی کے ساتھ، یہ ہم نے ان کو بدلہ دیا ان کی بغاوت کا اور بیشک ہم قطعی طور پر ( اور ہر لحاظ سے) سچے ہیں،3
297 یہودی بن جانے والوں کیلئے مزید تنگی : یعنی یہاں پر " یہود " نہیں { الَّذِیْنَ ھَادُوْا } فرمایا گیا۔ یعنی وہ لوگ جو از خود یہودی بن گئے اور انہوں نے اسلام کی بجائے یہودیت کے نام سے ازخود ایک دین گھڑ لیا۔ جبکہ اللہ پاک کے یہاں دین صرف اسلام ہے { اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الاِسْلام } اسی لئے ہم نے یہاں پر ترجمہ " یہودی بن گئے " کے الفاظ سے کیا۔ تاکہ یہ مفہوم واضح ہوجائے۔ اس لئے { اَلَّذِیْنَ ہَادُوْا } کا ترجمہ صرف " یہود " یا " یہودیوں " جیسے الفاظ سے کرنا، جیسا کہ عام اردو تراجم میں بالعموم پایا جاتا ہے اس لفظ کا اصل ترجمہ نہیں۔ اور اس سے آیت کریمہ میں وارد الفاظ کریمہ کی پوری اور واضح ترجمانی و عکاسی نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہاں " الیہود " نہیں فرمایا گیا بلکہ { اَلَّذِیْنَ ہَادُوْا } کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں جو کہ لفظ مفرد نہیں پورا جملہ ہے۔ اور جب آیت کریمہ میں " الیہود " کے مفرد اور مختصر لفظ کو چھوڑ کر اس جملے کو اختیار فرمایا گیا ہے تو اس کا بدیہی تقاضا ہے کہ اس میں یہ معنوی فرق ملحوظ رکھا جائے۔ ہم نے اپنے ترجمے میں اسی کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ والحمد للہ ۔ بہرکیف اس ارشاد ربانی سے واضح فرما دیا گیا ہے کہ جو لوگ مسلمان ہونے کی بجائے یہودی بن گئے اور انہوں نے اسلام کی شاہراہ اعظم کو چھوڑ کر یہودیت کے نام سے نئی پگڈنڈی کو اپنا لیا، ان پر بطور خاص اور بھی کئی چیزوں کو حرام کردیا گیا اور ان کیلئے دائرہ حلت کو اور تنگ کردیا گیا، جو کہ سزا و جزا تھی ان کی سرکشی کی۔ جیسا کہ فرمایا گیا { ذَالِکَ جَزیْنَاھُمْ بِبَغْیِِہِمْ وَاِنَّا لَصَادقُوْنَ } یعنی ایسی تحریمات سے ہم نے دراصل ان کو ان کی سرکشی اور بغاوت کی سزا دی تھی ورنہ نفس الامر میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں۔ سو ان اشیاء کی حرمت عارضی، وقتی اور خاص لوگوں کے لیے تھی ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 298 یہودیوں کی سرکشی کی بنا پر ان پر بعض چیزوں کی تحریم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے یہودیوں پر ان اور ان خاص چیزوں کو حرام قرار دیا تھا جو کہ اپنی اصل کے اعتبار سے حلال اور مباح تھیں۔ سو یہودیوں پر ایک تو ہر ناخن والے جانور کو حرام قرار دے دیا گیا تھا جیسے اونٹ، شترمرغ، مرغابی اور بطخ وغیرہ۔ (معارف القرآن وغیرہ) ۔ اور دوسرے ان پر گائے اور بکری کی چربیوں کو بھی حرام کردیا گیا تھا۔ البتہ جو چربی ان کی آنتوں پر چڑھی ہوتی یا ہڈیوں کے ساتھ لگی ہوتی اس کو ان پر حرام نہیں کیا گیا تھا، سو یہ ان لوگوں کی سرکشی کی سزا تھی، ورنہ وہ چیزیں فی نفسہ حرام یا خبیث نہیں تھیں اور ان میں سے کوئی بھی چیز عہد ابراہیمی یا ملت ابراہیمی میں حرام نہیں تھی۔ اور ان لوگوں کا ایسا کہنا جھوٹ ہے۔ (المعارف، المراغی اور الصفوۃ وغیرہ) ۔ سو بنی اسرائیل پر ناخن والے جانوروں اور چربی وغیرہ کو جو حرام کیا گیا تھا تو اس بناء پر نہیں کہ ان چیزوں کے اندر فی الواقع حرمت کی کوئی علت پائی جاتی تھی۔ نہیں بلکہ ان کی حرمت میں اصل دخل ان لوگوں کے فساد مزاج کو تھا۔ اور یہ ان کی سرکشی اور بد مزاجی کی سزا تھی۔ سو اللہ تعالیٰ نے ان کی مباح چیزوں کو ان پر حرام ٹھہرا دیا تھا۔ اور آخر میں { وَاِنَّا لَصَادِقُوْنَ } کے مختصر اور تاکیدی جملے سے یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ " ہم بہرحال اور قطعی طور پر سچے ہیں " اور جو کچھ ہم نے ان سے متعلق بتایا وہی حق اور سچ ہے۔ اور جو کچھ یہود اور قریش کے اشرار کہہ اور کر رہے ہیں وہ اس میں قطعی طور پر جھوٹے ہیں ۔ والعیاذ باللہ -
Top