Tafseer-e-Madani - Al-Waaqia : 72
ءَاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَهَاۤ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَ
ءَاَنْتُمْ : کیا تم اَنْشَاْتُمْ : اگاتے ہو تم شَجَرَتَهَآ : اس کا درخت اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَ : یا ہم اگانے والے ہیں
کیا اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم ہی اس کے پیدا کرنے والے ؟
[ 60] آگ کی نعمت کے بارے میں دعوت غور و فکر : سو پانی کی نعمت کے بعد آگ کی نعمت کے بارے میں دعوت غور و فکر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگوں نے کبھی اس آگ کے بارے میں بھی غور کیا جس کو تم لوگ اپنی طرح طرح کی ضرورتوں کیلئے جلاتے سلگاتے ہو۔ کیا اس کے درخت کو تم لوگوں نے اغایا ہے، یا ہم ہی اس کے اگانے والے ؟ جیسا کہ قدیم زمانے میں عرب مرخ اور عفار نامی دو درختوں کی سبز شاخوں کو رگڑ کر ان سے آگ نکالا کرتے تھے، سو یہ حضرت حق جل مجدہ کی قدرت و عنایت کا ایک اور عظیم الشان مظہر ہے، کہ اس نے اس طرح ہرے بھرے اور سبز درختوں میں آگ کا جوہر اس حکمت سے رکھ دیا، سبحانہ وتعالیٰ نیز اس لکڑی اور پتھر کے وہ عظیم الشان ذخائر پیدا فرما دئیے جو آگ کیلئے ایندھن بنتے ہیں، جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی بیشمار مخلوق کی طرح طرح کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، سو یہ آگ قدرت کا کس قدر عظیم الشان عطیہ و احسان ہے، مگر غافل اور ناشکرے انسان نے اس اصل حقیقت کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے غفلت اور ناشکری ہی کی روش کو اپنایا، اور یہاں تک کہ ان میں سے کتنے ہی بدبخت ایسے ہوئے ہیں اور آج بھی ہیں جنہوں نے اسی آگ کی پوجا شروع کردی، اور آج بھی کر رہے ہیں، اور اس طرح انہوں نے ظلم بالائے ظلم کا ارتکاب کیا، والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اسی مضمون کو سورة یٰسین میں اس طرح بیان فرمایا گیا کہ۔ { الذی جعل لکم من الشجر الاخضر ناراً فاذآ انتم منہ تو قدون } [ یٰسین : 80 پ 23] یعنی جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ کا انتظام فرمایا جس کو تم لوگ جلاتے ہو۔ سو ہر طرح کی حمد و ثنا کی مستحق وہی ذات اقدس و اعلیٰ ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ جل وعلا۔
Top