Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 80
وَ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً١ؕ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ عَهْدَهٗۤ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَنْ تَمَسَّنَا : ہرگز نہ چھوئے گی النَّارُ : آگ اِلَّا : سوائے اَيَّامًا : دن مَعْدُوْدَةً : چند قُلْ اَتَّخَذْتُمْ : کہ دو کیا تم نے لیا عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس عَهْدًا : کوئی وعدہ فَلَنْ يُخْلِفَ اللّٰہُ : کہ ہرگز نہ خلاف کرے گا اللہ عَهْدَهُ : اپنا وعدہ اَمْ : کیا تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو عَلَى اللہِ : اللہ پر مَا لَا تَعْلَمُوْنَ : جو تم نہیں جانتے
جو یہ لوگ (اس طرح) کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہمیں دوزخ کی آگ چھوئے گی بھی نہیں، بجز گنتی کے کچھ دنوں کے، (ان سے) پوچھو کہ " کیا تم نے (اس پر) اللہ کے یہاں کوئی عہد لے رکھا ہے ؟ کہ وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا، یا تم لوگ یونہی اللہ کے ذمے ایسی بات لگاتے ہو، جس (کی خطورت و سنگینی) کو تم جانتے نہیں ؟2
229 بنی اسرائیل کی خودساختہ آرزوؤں کا ذکر وبیان : سو اس سے بنی اسرائیل کی خود ساختہ آرزوؤں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ مثلا یہ کہ ہمیں دوزخ کی آگ چھوئے بھی نہیں مگر گنتی کے کچھ دن یعنی صرف چالیس دن کہ اتنے ہی دن ہم نے گو سالہ پرستی کے جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ یا صرف سات دن۔ کیونکہ یہود بےبہبود کے نزدیک دنیا کی کل عمر صرف سات ہزار برس ہے، اور ان کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں ہر ہزار برس کے جرائم کے عوض صرف ایک دن کی سزا ملے گی، اس طرح کل سات دن تک عذاب ہوگا اور بس۔ (جامع البیان، صفوۃ البیان، المراغی، الروح وغیرہ) ۔ سو یہ ان لوگوں کی اپنی خود ساختہ امیدوں اور من گھڑت آرزوؤں کا ایک نمونہ ہے۔ سو ایسے ہی محرومی اور بدنصیبی کے دھکے لگتے ہیں، ان لوگوں کو جو اللہ کی عطا کردہ ہدایت و رہنمائی سے منہ موڑ کر، اپنی من مانی کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو سلامتی اور راست روی کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو ترک کرکے حق و ہدایت کی اس راہ کو اپنائے، اور اسی بات کی پیروی کرے جو اس کو اس کے خالق ومالک کی طرف سے عطا فرمائی جاتی ہے کہ اسی میں اس کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا سامان ہے۔ اسمیں اپنی طرف سے کوئی بات شامل نہ کرے۔ 230 یہود کے ایک زعم فاسد کی تغلیط و تردید : کہ ہمیں دوزخ کی آگ چھوئے گی بھی نہیں سوائے گنتی کے کچھ دنوں کے۔ سو یہ لوگ اللہ کے ذمّے ایسی بات لگاتے ہیں جس کی بارے میں یہ جانتے نہیں کہ اللہ پاک کے کلام کی تحریف کرنا، اور اس پر افترا باندھنا کس قدر سنگین اور کتنا ہولناک جرم ہے۔ سو اتنی بڑی بات تم لوگ کس بنیاد پر کہہ رہے ہو۔ اس بات کا تعلق چونکہ محض غیب سے ہے اور آخرت کے اس جہاں سے ہے جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، اور غیب کی بات کو جاننا سوائے وحی خداوندی کے ممکن نہیں۔ اب تم بتاؤ کہ تم لوگ آخر ایسی بڑی بات کس بنیاد پر کہتے ہو ؟ کیا تمہارے پاس غیب کی ایسی کوئی خبر اور اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد جو اس نے تم سے اس بارہ فرمایا ہو کہیں ہے ؟ اگر ہے تو بتاؤ وہ کہاں ہے ؟ اور اگر ایسا کوئی عہد نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر تم لوگ اللہ پہ افتراء باندھتے ہو، اور اللہ پر یہ افترا باندھنے سے بڑھ کر ظلم اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ سو اب تم لوگ اپنے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لو کہ تم لوگ کہاں کھڑے ہو اور کس انجام کی طرف بڑھے چلے جارہے ہو ؟ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top