Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 82
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ١ۙ وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا
وَ : اور نُنَزِّلُ : ہم نازل کرتے ہیں مِنَ : سے الْقُرْاٰنِ : قرآن مَا : جو هُوَ شِفَآءٌ : وہ شفا وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے وَلَا يَزِيْدُ : اور نہیں زیادہ ہوتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) اِلَّا : سوائے خَسَارًا : گھاٹا
اور ہم اس قرآن کے ذریعے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو سراسر شفاء اور عین رحمت ہے ایمانداروں کے لئے، مگر ظالموں کے لئے اس سے خسارے کے سوا اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا،2
149۔ قرآن حکیم سراسر شفاء :۔ اور شفاء کی تنوین تعطیم کیلئے ہے۔ یعنی یہ ایک عظیم الشان اور بےمثال شفاء ہے دل اور روح کی بیماریوں کیلئے۔ یعنی کفر و شرک اور ہر طرح کے زیغ وضلال سے شفاء بخشنے والی کتاب عطیم۔ نیز جسمانی بیماریوں کیلئے بھی۔ جبکہ اس سے صحیح طریقہ سے استفادہ کیا جائے جیسا کہ امام رازی (رح) نے اپنی تفسیر میں اور امام ابن القیم (رح) نے اپنی کتاب زاد المعاد اور اغاثۃ اللہ فان میں اس کی تصریح اور تفصیل بیان فرمائی ہے۔ (ابن کثیر محاسن التاویل، صفوۃ البیان، المراغی اور المعارف وغیرہ) عام طور پر مترجمین حضرات جو شفاء کا ترجمہ شفاء دینے والی یا اس طرح کے دوسرے الفاظ سے کرتے ہیں وہ اس لفظ کا پورا ترجمہ نہیں بنتا، کیونکہ شفاء دینے والی جیسے الفاظ دراصل ترجمہ ہیں شافی کا۔ جبکہ یہاں پر شافی نہیں شفاء فرمایا گیا ہے جو کہ مصدر ہے۔ جس میں زیادہ زور اور بلاغت ہے۔ ہم نے اپنے ترجمہ کے اندر اسی فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے والحمد للہ سو اس میں منکرین و مکذبین کی محرومی اور شامت زدگی پر اظہار افسوس بھی ہے اور ان کی مالمت بھی کہ قرآن حکیم تو ان کیلئے ان کے خالق ومالک کی طرف سے ان کے قلب وروح کی بیماریوں کیلئے ایک عظیم الشان اور بےمثال نسخہ کیمیا کی صورت میں آیا تھا مگر انہوں نے اپنے اعراض وانکار سے اس کو اپنے لئے باعث محرومی بنادیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 150۔ ظالموں کیلئے خسارہ در خسارہ۔ والعیاذ باللہ :۔ ان کی بدنیتی اور کور باطنی کے سبب جیسا کہ آسمان سے اترنے والی باران رحمت سے پاکیزہ اور زرخیز زمین میں تو طرح طرح کی عمدہ اور مفید انگوریاں اگتی اور فصلیں پیدا ہوتی ہیں لیکن گندی اور بیکار جگہ میں گندی اور بیکار بلکہ مضر اور نقصان دہ جڑی بوٹیاں سرنکالتی ہیں۔ والعیاذ باللہ، سو اسی طرح قرآن حکیم کی باران رحمت سے اہل ایمان کی دلوں کو تو زندگی، قوت اور شفاء نصیب ہوتی ہے لیکن کافروں اور منکروں کیلئے ان کی محرومی میں اضافہ ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس ارشاد سے ایک طرف تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کی ہدایت سے منہ موڑنا اور اس کے انکار و تکذیب سے کام لینا ظلم اور سراسر ظلم ہے اور یہ ظلم اللہ تعالیٰ کے حق میں ہے کہ اس کے بندے اور اس کی مخلوق ہونے کے باوجود اس کی ہدایت سے منہ موڑا اور یہ ظلم اس کے کلام مجید اور خود اپنی جانوں کے حق میں ہے کہ اس طرح اپنے آپ کو دنیا وآخرت کی سعادت و سرخروئی سے محروم کرکے دائمی محرومی اور نارجحیم کا مستحق بنایا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور دوسری طرف اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس طرح کے اعراض وانکار سے انسان حق کا کچھ بھی نہیں بگاڑتا بلکہ خود اپنی ہی ہلاکت و تباہی کا سامان کرتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top