Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 83
وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖ١ۚ وَ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ یَئُوْسًا
وَاِذَآ : اور جب اَنْعَمْنَا : ہم نعمت بخشتے ہیں عَلَي : پر۔ کو الْاِنْسَانِ : انسان اَعْرَضَ : وہ روگردان ہوجاتا ہے وَنَاٰ بِجَانِبِهٖ : اور پہلو پھیر لیتا ہے وَاِذَا : اور جب مَسَّهُ : اسے پہنچتی ہے الشَّرُّ : برائی كَانَ : وہ ہوجاتا ہے يَئُوْسًا : مایوس
اور جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے، اور پیٹھ پھیر لیتا ہے، اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے،
151۔ تھڑ حوصلہ اور تنگ ظرف انسان کا حال :۔ کہ کوئی نعمت ملی تو منہ موڑ لیا اور کوئی تکلیف پہنچی۔ والعیاذ باللہ، تو مایوس ہوگیا۔ جو علامت اور دلیل ہے اس کے تنگ ظرف اور تھڑ حوصلہ ہونے کی۔ بجز ان لوگوں کے جو سچے ایمان اور پکے عقیدے کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں کہ ان کی شان ان کے مالک کے فضل وکرم سے اس سے مختلف اور بہت بلند وبالا ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک تو اس دنیائے دوں کی ساری دولت کی حیثیت بھی پرکاہ کے برابر نہیں ہوتی۔ فیاعجبا لعظمۃ الایمان وخشیۃ الکفر والحرمان، سو مومن صادق اس کے برعکس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے تو وہ اس کیلئے خیر بن جاتی ہے اور تکلیف و مصیبت پر صبر کرتا ہے تو وہ بھی اس کیلئے خیر بن جاتی ہے۔ وباللہ التوفیق۔ بہرکیف منکر اور محروم انسان کی تنگ ظرفی اور اس کی حرمان نصیبی پر اظہار افسوس و ملامت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے انسان کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے کہ جب ہم اس پر کوئی انعام واحسان کرتے ہیں تو یہ اکڑنے اور سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اور جب ہم اس کے اپنے اعمال کی پاداش میں کسی مصیبت میں گرفتار کرتے ہیں تو یہ دل شکستہ اور مایوس ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اس کیلئے صحیح طریقہ یہ تھا کہ یہ نعمت سے سرفرازی پر ہمارا شکر ادا کرتا اور مصیبت پر صبر سے کام لیتا تاکہ اس طرح اس کی ہر حالت اس کیلئے خیر ہی خیر بن جاتی۔ مگر دین و ایمان اور عقیدہ و یقین سے محرومی کے بعد اس کا موقعہ کہاں اور کیسے ؟ سو ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ وسیلہ ہے جبکہ اس سے محرومی دنیا وآخرت کی ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top