Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 82
وَ لَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَآؤُكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّ مَقْتًا١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۠   ۧ
وَلَا : اور نہ تَنْكِحُوْا : نکاح کرو مَا نَكَحَ : جس سے نکاح کیا اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا قَدْ سَلَفَ : جو گزر چکا اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا فَاحِشَةً : بےحیائی وَّمَقْتًا : اور غضب کی بات وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ (طریقہ)
اور ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے حق میں شفا اور رحمت ہیں اور ظالموں کا اس سے اور نقصان ہی بڑھتا ہے،121۔
121۔ یعنی جو لوگ قرآن کے باب میں ظالم ہیں اس کے حقائق کو بہ نظر انصاف نہیں دیکھتے ان کے کام اشاعت قرآنی کے عموم سے اور بگڑتے ہی جاتے ہیں۔ (آیت) ” شفآء “۔ یعنی عقاید فاسد اور اعمال فاسد سے نجات (آیت) ” رحمۃ “۔ یعنی احکام الہی پر عمل خود رحمت الہی کا جاذب ہوجائے گا۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اصطلاح سلوک میں (آیت) ” شفآء “۔ سے اشارہ ہے تخلیہ کی طرف اور (آیت) ” رحمۃ “۔ سے اشارہ ہے تجلیہ کی جانب۔
Top