Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 67
وَ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّاۤ اِیَّاهُ١ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا
وَاِذَا : اور جب مَسَّكُمُ : تمہیں چھوتی (پہنچتی) ہے الضُّرُّ : تکلیف فِي الْبَحْرِ : دریا میں ضَلَّ : گم ہوجاتے ہیں مَنْ : جو تَدْعُوْنَ : تم پکارتے تھے اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا فَلَمَّا : پھر جب نَجّٰىكُمْ : وہ تمہیں بچا لایا اِلَى الْبَرّ : خشکی کی طرف اَعْرَضْتُمْ : تم پھرجاتے ہیں وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان كَفُوْرًا : بڑا ناشکرا
اور جب تم لوگوں کو سمندر (کی ان ہولناک موجوں) میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو گم ہوجاتے ہیں (تمہارے وہ سب خود ساختہ حاجت روا و مشکل کشا) جن کو تم لوگ پکارا کرتے تھے، سوائے اس (معبود برحق) کے، پھر جب وہ تمہیں بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے، تو تم اس سے منہ موڑ لیتے ہو، واقعی انسان بڑا ہی ناشکرا ہے
122۔ انسان کی فطرت میں دلیل توحید کا وجود :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور جب تمہیں سمندر میں کوئی مصیبت اور مشکل پیش آتی ہے تو تم اسی وحدہ لاشریک کو پکارتے ہو “۔ اور کھوجاتے ہیں تم سے تمہارے تمام وہ خود ساختہ معبود جن کو تم لوگ پکارتے ہو آگے پیچھے اور یسر و آسانی کے حالات میں۔ مگر تنگی کے اور مصیبت کے ایسے وقت میں تم ان سب کو بھول جاتے ہو سوائے اللہ وحدہ لاشریک کے اور تمہارے یہ خود ساختہ معبود خواہ لکڑی پتھر وغیرہ کے بت ہوں یا کوئی جن اور فرشتہ یا کوئی زندہ و مردہ انسان۔ (المراغی، الفتح وغیرہ) مگر افسوس کہ آج کا کلمہ گو اس وقت بھی اللہ کے سوا اس کی عاجز اور بےبس مخلوق ہی میں سے کسی کو پکارتا ہے۔ چناچہ وہ کہتا ہے ” بہاء الحق بیڑا دھک “ ،” خواجہ اجمیری پارلگا دے کشتی میری “ ،” یا پیردستگیر “ وغیرہ وغیرہ۔ سو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج کا کلمہ گو مشرک کل کے اس کھلے مشرک سے بھی اپنے شرک میں کس قدر سخت اور کتنا پکا ہے کہ وہ ایسے مشکل مواقع میں اس طرح کے تمام سہاروں کو بھول کر اور ان کو پس پشت ڈال کر اللہ وحدہ لاشریک ہی کو پکارتا ہے تھا جو کہ مالک حقیقی اور کارساز مطل ہے۔ جیسا کہ حضرت عکرمہ کا واقعہ مشہور ہے کہ جب وہ اپنے زمانہ کفر و شرک میں مکرمہ مکرمہ سے بھاگ کر حبشہ کی طرف جارہے تھے تو دوران سفر ان کا جہاز طوفان میں گھر گیا۔ تو اس وقت انہوں نے دیکھا کہ جہاز میں سوار سب ہی مشرک اپنی تمام معبودان باطلہ کو بھول کر اور ان کو پس پشت ڈال کر اللہ وحدہ لاشریک ہی کو پکارنے لگے تو اسی وقت یہ بات حضرت عکرمہ کے دل میں بیٹھ گئی کہ جو خدا اس مشکل وقت میں کام آنے والا ہے اور جس کو یہ سب لوگ ایسے وقت میں پکار رہے ہیں وہی ہے معبود برحق۔ باقی سب جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ اس پر انہوں نے یہ ٹھان لی کہ اگر ہم اس طوفان سے بچ کر نکل گئے تو آئندہ اس خداوند قدوس پر ضرور ایمان لے آئیں گے جس پر ایمان لانے کی دعوت اسلام دے رہا ہے۔ چناچہ اسی کے مطابق بعد میں یہ ایمان لا کر اسلام کے حظیرہ قدس میں داخل ہوگئے۔ مگر افسوس کہ اس کے برعکس آج کا یہ مشرک ایسے مواقع پر بھی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس کی عاجز مخلوق کو اور ان ہستیوں کو پکارتا ہے جو کہ خود اپنے آپ کو بھی موت سے نہ بچا سکیں اور وہ خود اپنی موت آپ مرگئیں۔ فالی اللہ المشتکی وھو المنعان۔ 123۔ انسان کی ناشکری اور بےانصافی کا ایک نمونہ ومظہر :۔ کہ اللہ تعالیٰ جب اس طوفان سے بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یہ اس کو بھول کر پھر شرک میں لگ جاتا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” مگر جب وہ تمہیں بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ موڑلیتے ہو “۔ اور پوری ڈھٹائی سے کہنے لگتے ہو کہ مجھے تو فلاں آستانے یا فلاں ہستی نے بچایا ہے۔ پھر اس کیلئے ایسے مشرک لوگ بکرے کاٹتے، دیگیں پکاتے، پھیرے لگانے لگے ہیں اور ان کی خوشنودی کیلئے چادریں چڑھانے اور ڈالیاں پیش کرنے کے چکروں میں لگ جاتے ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ اور اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کو پھر کبھی سمندر جانے اور ایسے مصائب میں پھنسنے کا موقع آسکتا ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت کریمہ میں اس کی یاد دہانی فرمائی گئی ہے۔ سو یہ انسان اور ایسے مشرک انسان کی بےانصافی اور ناشکری کا ایک کھلا مظہر اور نمونہ ہے۔۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سوسچ اور حق فرمایا حضرت حق جل مجدہ نے کہ ” انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے “ ان الانسان لربہ لکنود۔ 124۔ واقعی انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ والعیاذ باللہ :۔ جو ایسے ایسے عظیم الشان اور کھلے احسانات پر بھی اپنے اس منعم حقیقی کو بھول کر اور اس سے منہ موڑ کر ایسے فرضی اور وہمی سہاروں کی طرف لوٹتا، ان کے آگے جھکتا اور اس طرح اپنی تحقیر و تذلیل کا سامان کرتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور پھر اسی سے تم لوگ اپنے رب کے اس کرم واحسان کا بھی اندازہ کرلو کہ وہ کتنا مہربان اور کسی قدر کرم واحسان والا ہے کہ تمہاری طرف سے اس قدر ناشکری اور احسان فراموشی کے باوجود وہ تمہیں ڈھیل دئیے ہوئے ہے۔ نہ تمہیں فوری پکڑتا ہے نہ تمہارا دانہ پانی بند کرتا ہے اور نہ تمہاری زندگی ختم کرتا ہے۔ سو یہ اسی وحدہ لاشریک کی شان ہوسکتی ہے اور بس، سبحانہ وتعالیٰ واقعی انسان بڑا ہی بےقدر اور ناشکرا ہے جو اپنے خالق ومالک کی شان کرم واحسان کے یہ سب مظاہر دیکھتا ہے لیکن پھر بھی اس سے منہ موڑ کر ناشکری کرتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top