Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 16
وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَا١ۚ فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
وَالَّذٰنِ : اور جو دو مرد يَاْتِيٰنِھَا : مرتکب ہوں مِنْكُمْ : تم میں سے فَاٰذُوْھُمَا : تو انہیں ایذا دو فَاِنْ : پھر اگر تَابَا : وہ توبہ کریں وَاَصْلَحَا : اور اصلاح کرلیں فَاَعْرِضُوْا : تو پیچھا چھوڑ دو عَنْهُمَا : ان کا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے تَوَّابًا : توبہ قبول کرنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
اور جو دو مرد کریں تم میں سے وہی بدکاری تو ان کو ایذا دو پھر اگر وہ دونوں توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان کا خیال چھوڑ دو بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
غیر فطری طریقہ سے قضاء شہوت کا حکم
میرے نزدیک ”الذان یاتیانھا“ کا مصداق وہ لوگ ہیں جو غیر فطری طریقہ پر قضاء شہوت کرتے ہیں، یعنی مرد استلذاز بالمثل کے مرتکب ہوتے ہیں۔“
قاضی صاحب کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی اسی قول کو لیا ہے، الفاظ قرآن مجید میں چونکہ لفظ الذان یاتیانھا موصول اور صلہ دونوں مذکر کے الفاظ ہیں، اس لئے ان حضرات کا یہ قول بعید نہیں ہے، گو جن حضرات نے زانی اور زانیہ مراد لیا ہے، انہوں نے بطور تغلیب مذکر کا یہ صیغہ زانیہ کے لئے بھی شامل رکھا ہے، تاہم موقع کی مناسبت سے استلذاذ بالمثل کی حرمت و شدت اور اس کی جزاء و تعزیز کا ذکر اس جگہ بےجا نہ ہوگا۔
احادیث و آثار سے اس سلسلہ میں جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس میں سے بطور نمونہ کچھ نقل کیا جاتا ہے
”حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے سات قسم کے لوگوں پر سات آسمانوں کے اوپر سے لعنت بھیجی ہے اور ان سات میں سے ایک پر تین تین دفعہ لعنت بھیجی ہے اور باقی پر ایک دفعہ، فرمایا ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے، ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے۔“
”حضرت ابوہریرة ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چار آدمی صبح کے وقت اللہ جل شانہ کے غضب میں ہوتے ہیں اور شام کو بھی اللہ جل شانہ، ان سے ناراض ہوتے ہیں، میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ مرد جو عورتوں کی طرح بنتے ہیں اور وہ عورتیں جو مردوں کی طرح بنتی ہیں اور وہ شخص جو چوپایہ کے ساتھ غیر فطری حرکت کرتا ہے اور وہ مرد جو مرد سے قضاء شہوت کرتا ہے۔“
”حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، فرمایا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کو تم قوم لوط کی طرح غیر فطری حرکت کرتا ہوا دیکھ لو تو فاعل اور مفعول دونوں کو مار ڈالو۔“
حافظ زکی الدین نے ترغیب ترہیب میں لکھا ہے کہ چار خلفاء حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن الزبیر اور ہشام بن عبدالملک نے اپنے زمانوں میں غیر فطری حرکت والوں کو آگ میں جلا ڈالا تھا۔
اس سلسلہ میں انہوں نے محمد بن المنکدر کی روایت سے ایک واقعہ بھی لکھا ہے کہ خالد بن ولید ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو خط لکھا کہ یہاں عرب کے علاقہ میں ایک مرد ہے جس کے ساتھ عورت والا کام کیا جاتا ہے۔
حضرت ابوبکر ؓ نے اس سلسلہ میں صحابہ کرام کو جمع کیا اور ان میں حضرت علی بھی تشریف لائے، حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب سوائے ایک قوم کے کسی نے نہیں کیا اور اللہ جل شانہ نے اس قوم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ آپ سب کو معلوم ہے میری رائے ہے کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے دوسرے صحابہ کرام نے بھی اس پر اتفاق کرلیا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسے آگ میں جلا دینے کا حکم دیدیا۔
مذکورہ روایات میں قوم لوط کے عمل کا حوالہ بار بار آیا ہے، حضرت لوط ؑ جس قوم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے وہ قوم کفر و شرک کے علاوہ اس بدترین اور غیر فطری حرکت کی بھی عادی تھی اور جب حضرت لوط ؑ کی دعوت و تبلیغ کا ان پر اثر نہ ہوا تو اللہ جل شانہ کے حکم سے فرشتوں نے اس قوم کی بستیوں کو زمین سے اٹھا لیا اور اوندھا کر کے زمین پر پھینک دیا جس کا ذکر سورة اعراف میں آئے گا، انشاء اللہ۔
مندرجہ بالا روایات استلذاد بالجنس سے متعلق تھیں، روایات میں عورتوں کے ساتھ غیر فطری فعل کرنے پر بھی شدید ترین وعیدیں آئی ہیں۔
”حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ جل شانہ، اس مرد کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو مرد یا عورت کے ساتھ غیر فطری فعل کرے۔“
”خزیمہ بن ثابت ؓ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہ حق بیان کرنے میں شرم نہیں کرتے، یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائے، (پھر فرمایا) عورتوں کے پاس غیر فطری طریقہ سے مت آیا کرو۔“
”حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے وہ شخص ملعون ہے جو غیر فطری طریقہ سے بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے۔“
”حضرت ابوہریرہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مرد حیض کی حالت میں بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے یا غیر فطری طریقہ سے اس کے ساتھ جماع کرتا ہے، یا کسی کاہن کے پاس جاتا ہے اور غیب سے متعلق اس کی خبر کی تصدیق کرتا ہے، تو ایسے لوگ اس دین سے منکر ہوگئے جو محمد ﷺ پر نازل ہوا۔“
اس قبیح فعل کے لئے کسی معین حد کے مقرر کرنے میں تو فقہاء کا اختلاف ہے جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے، تاہم اس کے لئے شدید سے شدید سزائیں منقول ہیں، مثلاً آگ میں جلا دینا، دیوار گرا کر کچل دینا، اونچی جگہ سے پھینک کر سنگسار کردینا، تلوار سے قتل کردینا وغیرہ۔
Top