Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 16
وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَا١ۚ فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
وَالَّذٰنِ : اور جو دو مرد يَاْتِيٰنِھَا : مرتکب ہوں مِنْكُمْ : تم میں سے فَاٰذُوْھُمَا : تو انہیں ایذا دو فَاِنْ : پھر اگر تَابَا : وہ توبہ کریں وَاَصْلَحَا : اور اصلاح کرلیں فَاَعْرِضُوْا : تو پیچھا چھوڑ دو عَنْهُمَا : ان کا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے تَوَّابًا : توبہ قبول کرنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
اور جو دونوں تم میں سے اس بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان کو ایذا پہنچاؤ، پس اگر وہ توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو ان سے درگزر کرو۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
صیغہ کا استعمال شریک غالب کے اعتبار سے :۔ وَالَّذٰنِ يَاْتِيٰنِھَا مِنْكُمْ ، یعنی بدکاری کا ارتکاب کرنے والے دونوں فریق، مرد اور عورت، مسلمانوں ہی کے اندر کے ہوں، اس میں مذکر کا صیغہ عربی زبان کے معروف قاعدے کے مطابق شریک غالب کے لحاظ سے استعمال ہوا ہے۔ جیسے کہ ”والدین“ کا لفظ ہے۔ جو ہے تو مذکر لیکن ماں باپ دونوں ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایذاء کا مفہوم : فَاٰذُوْھُمَا میں توہین و تذلیل، ڈانٹ ڈپٹ اور نصیحت و ملامت سے لے کر اصلاح کے حد تک مارپیٹ ہر چیز داخل ہے۔ ان آیات میں خطاب ظاہر ہے کہ معاشرہ کے ارباب حل و عقد اور ذمہ داروں سے ہے۔ ان کو خطاب کر کے بدکاری پر تعزیر کے لیے دو مختلف صورتوں میں دو الگ الگ ہدایات دی گئی ہیں۔ دو صورتوں کے لیے دو الگ الگ :۔ ایک صورت یہ ہے کہ بدکاری کا ارتکاب کرنے والی عورت تو تو مسلمانوں کے معاشرے سے تعلق رکھتی ہے لیکن اس کا شریک مرد، اسلامی معاشرے کے دباؤ میں نہیں ہے۔ ایسی صورت میں یہ ہدایت فرمائی کہ عورت کو گھر کے اندر محبوس کردیا جائے، اس کی باہر کی آمد و شد پر پوری پابندی عائد کردی جائے تاآنکہ موت اس کا خاتمہ کرے یا اس باب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نیا حکم نازل ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ بدکاری کے دونوں فریق مسلمانوں ہی سے تعلق رکھتے ہوں۔ ایسی صورت میں ان کو زجر و توبیخ، تحقیر و تذلیل، ڈانٹ ڈپٹ اور اصلاح کے حد تک مارپیٹ سے درست کرنے کی کوشش کی جائے، اگر وہ اس کے اثر سے توبہ کر کے اپنے چال چلن درست کرلیں تو ان سے درگزر کیا جائے۔ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ عورت کے معاملے میں شدت احتیاط کی حکمت :۔ ان دونوں صورتوں پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ پہلی صورت میں احتیاط کا پہلو زیادہ شدت کے ساتھ ملحوظ ہے۔ دوسری صورت میں تو عورت اور مرد دونوں کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ اگر وہ توبہ کر کے اپنے چال چلن درست کرلیں تو ان سے درگزر کرلیا جائے لیکن پہلی صورت میں عورت کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ اگر وہ توبہ و اصلاح کرلے تو اس پر عائد کردہ قدغن اٹھالی جائے۔ اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ دوسری صورت میں تو دونوں فریق اسلامی معاشرہ کے دباؤ میں ہیں، ان کے رویے میں جو تبدیلی ہوگی وہ سب کے سامنے ہوگی، نیز ان کے اثرات اور وسائل معلوم و معین ہیں، ان کے لیے بہرحال اپنے خاندان اور قبیلے سے بےنیاز ہو کر کوئی اقدام ناممکن نہیں تو نہایت دشوار ہوگا۔ لیکن پہلی صورت میں مرد، جو اصل جرم میں شریک غالب کی حیثیت رکھتا ہے، مسلمانوں کے معاشرہ کے دباؤ سے بالکل آزاد ہے، نہ اس کے رویے کا کچھ پتہ نہ اس کے عزائم کا کچھ اندازہ، نہ اس کے اثرات ووسائل کے حدود معلوم و معین۔ ایسی حالت میں اگر عورت کو یہ موقع دے دیا جاتا کہ توبہ کے بعد اس سے درگزر کی جائے تو یہ بات نہایت خطرناک نتائج پیدا کرسکتی تھی۔ اول تو مرد کے رویّہ کو نظر انداز کر کے عورت کی توبہ و اصلاح کا صحیح اندازہ ہی ممکن نہیں ہے اور ہو بھی تو جب مرد بالکل قابو سے باہر اور مطلق العنان ہے تو اغوا، فرار اور قتل و خون کے امکانات کسی حال میں بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے، اس پہلو سے اس میں احتیاط کی شدت ملحوظ ہے۔ اگرچہ یہ تعزیرات سورة نور میں نازل شدہ حدود کے بعد منسوخ ہوگئیں لیکن بدکاری کے معاملے میں شہادت کا یہی ضابطہ بعد میں بھی باقی رہا۔ تعزیری مقاصد کے لیے جیل کے سسٹم کا جواز :۔ علاوہ ازیں پچھلی آیت میں فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ کے الفاظ سے تعزیر مقاصد کے لیے جیل کے سسٹم کا جواز بھی نکلتا ہے۔
Top