Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 16
وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَا١ۚ فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
وَالَّذٰنِ : اور جو دو مرد يَاْتِيٰنِھَا : مرتکب ہوں مِنْكُمْ : تم میں سے فَاٰذُوْھُمَا : تو انہیں ایذا دو فَاِنْ : پھر اگر تَابَا : وہ توبہ کریں وَاَصْلَحَا : اور اصلاح کرلیں فَاَعْرِضُوْا : تو پیچھا چھوڑ دو عَنْهُمَا : ان کا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے تَوَّابًا : توبہ قبول کرنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
اور تم میں سے کوئی دو جو وہ کام کریں انہیں اذیت پہنچاؤ،54 ۔ پھر اگر دونوں توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں،55 ۔ تو ان سے تعرض نہ کرو،56 ۔ بیشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے، بڑا مہربان ہے،57 ۔
54 ۔ یعنی سزا اس جرم کے سارے مجرموں کے لیے ہے۔ بہت سی قومیں اپنے کو مہذب کہلانے والی آج بھی موجود ہیں جن کے ہاں حرام کاری (جب تک کہ بہ جبر نہ ہو) سرے سے قابل تعزیز ہی نہیں، بہت سی قوموں میں حرام کاری صرف شادی کے بعد ہے۔ بن بیا ہوں اور بن بیاہیوں کے لیے یہ کوئی جرم ہی نہیں۔ آیت اس سارے غلط و گمراہ کن نظریات کی تردید کررہی ہے۔ (آیت) ” والذن یاتینھا “۔ میں ھا کی ضمیر (آیت) ” فاحشۃ “ کی طرف ہے یعنی کوئی بھی جوڑا جو حرام کا مرتکب ہو۔ اس عموم میں ہر طرح کے مرتکب آگئے، بیا ہے اور کنوارے، مرد و عورت سب، بجز فاترالعقلوں کے۔ (آیت) ” فاذوھما “۔ اجراء سزا کا یہ حکم حکام یا اہل حل وعقد کو ہے، الخطاب ھنا للحکام (روح) 55 ۔ (اجرائے سزا کے بعد) جن جرائم کی حد شرعی مقرر ہے ان میں اجرائے حد سے قبل توبہ کافی نہیں۔ 56 ۔ یعنی مجرم جب سزا بھی بھگت چکا اور اب تائب بھی ہے تو اب اس پر مزید طعن وملامت وغیرہ جائز نہیں۔ 57 ۔ اسلام کا خدا محدود ومقید قسم کا خدا نہیں کہ مغفرت ذنوب پر قادر ہی نہیں بلکہ کائنات میں گویا مشین کی طرح ایک قانون مکافات عمل کی حکومت ہے اور خدا (نعوذ باللہ) بیٹھا ہوا منہ دیکھ رہا ہے۔ یا اگر مغفرت پر قادر ہے بھی جب بھی کفارہ کا محتاج ہے۔ ہندومت، مسیحیت وغیرہ تمام باطل ادیان کی تردید آیت سے ہوگئی۔
Top