Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 16
وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِهَا مِنْكُمْ فَاٰذُوْهُمَا١ۚ فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا
وَالَّذٰنِ : اور جو دو مرد يَاْتِيٰنِھَا : مرتکب ہوں مِنْكُمْ : تم میں سے فَاٰذُوْھُمَا : تو انہیں ایذا دو فَاِنْ : پھر اگر تَابَا : وہ توبہ کریں وَاَصْلَحَا : اور اصلاح کرلیں فَاَعْرِضُوْا : تو پیچھا چھوڑ دو عَنْهُمَا : ان کا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے تَوَّابًا : توبہ قبول کرنے والا رَّحِيْمًا : نہایت مہربان
اور تم میں سے جو دو شخص اس بدکاری کے مرتکب ہوں تو تم ان دونوں کو اذیت پہنچائو پھر اگر وہ دونوں توبہ کریں اور آئندہ اپنی اصلاح کرلیں تو تم ان دونوں سے درگزر کرو بیشک اللہ تعالیٰ بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے3
3 اور تم میں سے جو دو شخص بھی اس مذکورہ بےحیائی کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو اذیت پہنچائو پھر اگر وہ اذیت پہنچانے کے بعد دونوں اپنے گناہ سے توبہ کرلیں اور آئندہ کیلئے اپنی اصلاح کرلیں اور آئندہ اس فعل فاحش کا ارتکاب نہ کریں تو ان سے درگزر کرو اور ان کا پیچھا چھوڑ دو ۔ یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربانی کرنے والا ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اگر دو مرد فعل بد کریں ان کا حکم بھی اس وقت مجمل ایذا دینی فرمائی اور اگر توبہ کریں تو ایذا نہ دو پھر جب حد نازل ہوئی تو اس کی حد جدائی فرمائی اس میں علماء کو اختلاف رہا کہ وہی حد ہے اس کی بھی یا شمشیر سے قتل کردیا کچھ اور طور سے ۔ (موضح القرآن) مطلب یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں منکوحہ عورتوں کو قید رکھنے کا حکم تھا اس آیت سے محض ایذا ثابت ہوئی کہ ایسے بدکاروں کو لعنت ملامت کرو اور زبان سے برا بھلا کہو۔ یا زبان سے ملامت کرو اور ایک دو جوتا بھی رسید کرو۔ اس لئے بعض مفسرین کو ان دونوں احکام کے جمع کرنے میں مشکل پیش آئی اور لوگوں نے دونوں کے جمع کرنے میں مختلف طریقے اختیار کئے۔ مثلاً (1) بعض نے کہا اذیت سب کے لئے ہے۔ منکوحہ ہو یا غیر منکوحہ، مرد ہو یا عورت، البتہ منکوحہ کو برا بھلا کہنے کے ساتھ گھروں میں قید بھی کردو۔ (2) بعض نے کہا پہلی آیت صرف منکوحہ عورتوں کے بارے میں ہے اور دوسری آیت منکوحہ عورتوں کے علاوہ سب بدکاروں کے لئے ہے خواہ وہ مرد ہوں یا ناکت خدا عورتیں ہوں۔ (3) بعض حضرات نے فرمایا پہلی آیت بعد میں نازل ہوئی ہے اور دوسری آیت پہلے نازل ہوئی ہے اگرچہ تلاوت میں عکس ہے یعنی نزول میں مقدم ہے اور تلاوت میں مؤخر ہے۔ (4) بعض نے فرمایا کہ واللذان سے مراد صرف مرد ہیں اور دوسری آیت میں فاحشہ سے مراد لواطت ہے جو حضرت لوط کی قوم کا شعار تھا۔ یہ حضرت مجاہد کا قول ہے اور اسی کو حضرت شاہ صاحب (رح) نے اختیار کیا ہے جیسا کہ موضح القرآن سے معلوم ہوتا ہے۔ مفسرین کے اس اشکال کا اصل مبنی یہ ہے کہ واللذان سے مراد زانی اور زانیہ ہیں یا فقط دو مرد ہیں۔ جو لوگ اس سے مراد زانی اور زانیہ لیتے ہیں وہ اس اشکال کی جو ہم نے عرض کیا ہے مختلف توجیہات کرتے ہیں جو لوگ اس سے صرف مرد مراد لیتے ہیں اور اس آی میں فاحشہ سے لواطت مراد لیتے ہیں نہ تو ان کی مراد پر کوئی اشکال وارد ہوتا ہے اور نہ ان کو کسی توجیہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بدکاری اور فحش کی مختلف صورتیں ہیں اور بدکاری کا ارتکاب کرنے والوں کی مختلف حالتیں ہیں جس کی تفصیل انشاء اللہ سورة نور میں آجائے گی۔ یہاں اس قدر سمجھ لینا چاہئے۔ جب کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو وہ دونوں محصن ہوں گے یا غیر محصن ہوں گے۔ احصان کا مطلب یہ ہے کہ عاقل بالغ آزاد مسلمان۔ کسی عاقلہ بالغہ آزاد مسلمہ سے صحیح نکاح کے ساتھ مباشرت کرے اگر ایسا ہو تو یہ مرد و عورت محصنہ کہلاتے ہیں اور اگر کسی مسلمان مرد و عورت کو یہ موقعہ میسر نہ آیا ہو تو ان کو غیر محصن کہتے ہیں۔ بہرحال مرتکب بالزنا محصن ہوں گے یا غیر محصن ہوں گے یا ایک ان دونوں میں سے محصن ہوگا اور دوسرا غیر محصن ہوگا قرآن کریم سے پہلے توریت میں زانیوں کے لئے رجم کی سزا مقرر تھی۔ یعنی زانیوں کے لئے سنگسار کرنے کا حکم تھا۔ قرآن کریم نے اس مسئلے کو تدریجاً شروع کیا۔ بعض مفسرین نے قول کی بنا پر سب سے پہلے اذیت کا حکم نازل ہوا۔ یعنی زانیہ مرد اور عورت کو لعنت ملامت کرو اور غیرت دلائو۔ پھر محصنہ عورت کو قید کرنے کا حکم دیا گیا کہ محصنہ عورتوں کو گھروں میں سزا کے طور پر قید رکھو۔ پھر حضرت عبادہ بن صامت کی روایت کی بنا پر جو مسلم نے نقل کیا ہے۔ عورتوں کو قید رکھنا موقوف ہوا اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ لوگو ! اس حکم کو مجھ سے حاصل کرلو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے جس راہ کا وعدہ کیا تھا وہ راہ اور وہ قانون بیان کردیا۔ دیکھو زانی اور زانیہ اگر باکرہ ہوں یعنی ناکت خدا ہوں تو ہر ایک کو سو سو کوڑے لگائو اور ایک سال کے لئے جلاوطن کرنے کی سزا دو ۔ اور اگر دونوں مجرم کت خدا یعنی ثیب ہوں تو ان کو سو سو کوڑے مارے جائیں اور سنگسار کیا جائے۔ اس کے بعد سورة نور کی آیت الزانیۃ والزانی نازل ہوئی جس میں صرف تازیانوں کا حکم تھا اس کے بعد حضرت ماعز صحابی کا واقعہ پیش آیا اور نبی کریم ﷺ نے ان کو رجم یعنی سنگسار کیا اور آئندہ کے لئے یہ حکم متعین رہا کہ زانی اور زانیہ اگر غیر محصن ہوں تو ہر ایک ک سو سو تازیانے مارے جائیں اور اگر دونوں محصن ہوں تو دونوں کو رجم کیا جائے اور ایک محصن اور دوسرا غیر محصن ہو تو غیر محصن کو تازیانے اور محصن کو رجم۔ رہا لواطت کا معاملہ تو اس میں علماء کا اختلاف ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سزا حاکم کی رائے پر موقوف ہے اسی طرح مساحقت کرنے والی عورتیں بھی۔ مزید انشاء اللہ سورة نور میں بشرط زندگی آجائے گی۔ یہاں ترتیب احکام کا خاکہ ذہن نشین کرلینا چاہئے اور یہ بھی ملحوظ خاطر رہنا چاہئے کہ ان مذکورہ سزائوں کے نفاذ کا حق صرف امام اور حاکم کو ہے ہر شخص کو قانون استعمال کرنے کا حق نہیں ہے اب چونکہ ان آیتوں میں توبہ کا حکم آیا تھا اس لئے آگے توبہ کی قبولیت وعدم قبولیت کا ذکر ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top