Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 285
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ١۫ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ١۫ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ۗ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ
اٰمَنَ : مان لیا الرَّسُوْلُ : رسول بِمَآ : جو کچھ اُنْزِلَ : اترا اِلَيْهِ : اس کی طرف مِنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) كُلٌّ : سب اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَلٰٓئِكَتِهٖ : اور اس کے فرشتے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابیں وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول لَا نُفَرِّقُ : نہیں ہم فرق کرتے بَيْنَ : درمیان اَحَدٍ : کسی ایک مِّنْ رُّسُلِهٖ : اس کے رسول کے وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی غُفْرَانَكَ : تیری بخشش رَبَّنَا : ہمارے رب وَاِلَيْكَ : اور تیری طرف الْمَصِيْرُ : لوٹ کر جانا
مان لیا رسول نے جو کچھ اترا اس پر اس کے رب کی طرف سے اور مسلمانوں نے بھی سب نے مانا اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اسکے رسولوں کو کہتے ہیں کہ ہم جدا نہیں کرتے کسی کو اس کے پیغمبروں میں سے اور کہہ اٹھے کہ ہم نے سنا اور قبول کیا تیری بخشش چاہتے ہیں اے ہمارے رب اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے
خلاصہ تفسیر
اعتقاد رکھتے ہیں رسول کریم ﷺ اس چیز (کے حق ہونے) کا جو ان کے پاس رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور (دوسرے) مؤمنین بھی (اس کا اعتقاد رکھنا کہا جائے گا) سب کے سب (رسول بھی اور دوسرے مؤمنین بھی) عقیدہ رکھتے ہیں اللہ کے ساتھ (کہ وہ موجود ہے اور واحد اور ذات وصفات میں کامل ہے) اور اس کے فرشتوں کے ساتھ (کہ وہ موجود ہیں اور گناہوں سے پاک ہیں اور مختلف کاموں پر مقرر ہیں) اور اس کی کتابوں کے ساتھ (کہ اصل میں سب سچی ہیں) اور اس کے سب پیغمبروں میں سے کسی میں (عقیدہ رکھنے میں) تفریق نہیں کرتے (کہ کسی کو پیغمبر سمجھیں کسی کو نہ سمجھیں) اور ان سب نے یوں کہا کہ ہم نے (آپ کا ارشاد) سنا (اور اس) کو خوشی سے مانا ہم آپ سے بخشش چاہتے ہیں اے ہمارے پروردگار اور آپ ہی کی طرف (ہم سب کو) لوٹنا ہے (یعنی ہم نے جو پہلی آیت میں کہا ہے کہ نفوس کی پوشیدہ باتوں پر بھی محاسبہ ہوگا اس سے مراد امور غیر اختیاری نہیں بلکہ صرف امور اختیاریہ ہیں کیونکہ) اللہ کسی کو (احکام شرعیہ میں) مکلف نہیں بناتا (یعنی ان امور کو واجب یا حرام نہیں فرماتا) مگر اسی کا جو اس کی طاقت (اور اختیار) میں ہو اس کو ثواب بھی اسی کا ہوتا ہے جو ارادہ سے کرے اور اس پر عذاب بھی اسی کا ہوگا جو ارادہ سے کرے (اور جو وسعت سے باہر ہے اس کا مکلف نہیں کیا گیا اور جس کے ساتھ قصد اور ارادہ متعلق نہیں اس کا نہ ثواب ہے نہ عذاب اور وساوس طاقت سے خارج ہیں تو ان کے آنے کو حرام اور ان کے نہ آنے دینے کو واجب نہیں کیا اور نہ ان پر عذاب رکھا) اے ہمارے رب ہم پر داروگیر نہ فرمائیے اگر ہم بھول جاویں یا چوک جاویں اے ہمارے رب (ہماری یہ بھی درخواست ہے کہ) ہم پر کوئی سخت حکم نہ بھیجئے جیسے ہم سے پہلے لوگوں پر آپ نے بھیجے تھے، اے ہمارے رب اور (ہم یہ بھی درخواست کرتے ہیں کہ) ہم پر کوئی ایسا بار (تکلیف کا دنیا یا آخرت میں) نہ ڈالئے جس کی ہم کو سہار نہ ہو اور درگذر کیجئے ہم سے اور بخش دیجئے ہم کو اور رحم کیجئے ہم پر آپ ہمارے کارساز ہیں (اور کارساز طرف دار ہوتا ہے) سو آپ ہم کو کافر لوگوں پر غالب کیجئے۔

معارف و مسائل
ان دو آیتوں کے خاص فضائل
یہ سورة بقرہ کی آخری دو آیتیں ہیں احادیث صحیحہ معتبرہ میں ان دو آیتوں کے بڑے بڑے فضائل مذکور ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے رات کو یہ دو آیتیں پڑھ لیں تو یہ اس کے لئے کافی ہیں۔
اور ابن عباس کی روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دو آیتیں جنت کے خزائن میں سے نازل فرمائی ہیں جس کو تمام مخلوق کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے خود رحمنٰ نے اپنے ہاتھ سے لکھ دیا تھا، جو شخص ان کو عشاء کی نماز کے بعد پڑھ لے تو وہ اس کے لئے قیام اللیل یعنی تہجد کے قائم مقام ہوجاتی ہیں اور مستدرک حاکم اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے سورة بقرہ کو ان دو آیتوں پر ختم فرمایا ہے جو مجھے اس خزانہ خاص سے عطاء فرمائی ہیں جو عرش کے نیچے ہے اس لئے تم خاص طور پر ان آیتوں کو سیکھو اور اپنی عورتوں اور بچوں کو سکھاؤ اسی لئے حضرت فاروق اعظم اور علی مرتضیٰ نے فرمایا کہ ہمارا خیال یہ ہے کہ کوئی آدمی جس کو کچھ بھی عقل ہو وہ سورة بقرہ کی ان دونوں آیتوں کو پڑھے بغیر نہ سوئے گا ان دونوں آیتوں کی معنوی خصوصیات تو بہت ہیں لیکن ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ سورة بقرہ میں اکثر احکام شرعیہ اجمالاً وتفصیلاً ذکر کردیئے گئے ہیں اعتقادات، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت وغیرہ۔ آخری دو آیتوں میں پہلی آیت میں اطاعت شعار مؤمنین کی مدح کہ گئی ہے جنہوں نے اللہ جل شانہ کے تمام احکام پر لبیک کہا اور تعمیل کے لئے تیار ہوگئے، اور دوسری آیت میں ایک شبہ کا جواب دیا گیا جو ان دو آیتوں سے پہلی آیت میں صحابہ کرام ؓ اجمعین کو پیدا ہوگیا تھا اور ساتھ ہی اپنے فضل و رحمت بےحساب کا ذکر فرمایا گیا وہ یہ تھا کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ جو کہ تمہارے دلوں میں ہے تم اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ، ہر حال میں اللہ تعالیٰ تم سے اس کا حساب لیں گے آیت کی اصل مراد تو یہ تھی کہ اپنے اختیار و ارادہ سے جو کوئی عمل اپنے دل میں کرو گے اس کا حساب ہوگا غیر اختیاری وسوسہ اور بھول چوک اس میں داخل ہی نہ تھی لیکن الفاظ قرآن بظاہر عام تھے ان کے عموم سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ انسان کے دل میں غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آجائے گا تو اس کا بھی حساب ہوگا۔ صحابہ کرام یہ سن کر گھبرا اٹھے اور آنحضرت ﷺ سے عرض کی یا رسول اللہ اب تک تو ہم یہ سمجھتے تھے کہ ہم جو کام اپنے ارادہ واختیار سے کرتے ہیں حساب ان ہی اعمال کا ہوگا غیر اختیاری خیالات جو دل میں آجاتے ہیں ان کا حساب نہ ہوگا مگر اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر خیال پر جو دل میں آئے حساب ہوگا اس میں تو عذاب سے نجات پانا سخت دشوار ہے رسول کریم ﷺ کو اگرچہ آیت کی صحیح مراد معلوم تھی مگر الفاظ کے عموم کے پیش نظر آپ نے اپنی طرف سے کچھ کہنا پسند نہ فرمایا بلکہ وحی کا انتظار کیا اور صحابہ کرام کو یہ تلقین فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو حکم آئے خواہ آسان ہو یا دشوار مومن کا یہ کام نہیں کہ اس کے ماننے میں ذرا بھی تامل کرے تم کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام سن کر یہ کہو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ یعنی اے ہمارے پروردگار ہم نے آپ کا حکم سنا اور اس کی اطاعت کی، اے ہمارے پروردگار اگر حکم کی تعمیل میں ہم سے کوئی کوتاہی یا فرو گذاشت ہوئی ہو تو اس کو معاف فرمادے کیونکہ ہمارا سب کا آپ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ صحابہ کرام نے آنحضرت ﷺ کے حکم کے مطابق ایسا ہی کیا اگرچہ ان کے ذہن میں یہ خیال کھٹک رہا تھا کہ بےاختیار دل میں آنے والے خیالات اور وساوس سے بچنا تو سخت دشوار ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورة بقرہ کی آخری دو آیتیں نازل فرمائیں جن میں سے پہلی آیت میں مسلمانوں کی مدح اور دوسری میں اس آیت کی اصلی تفسیر بتلائی گئی جس میں صحابہ کرام ؓ اجمعین کو اشتباہ پیش آیا تھا اب پہلی آیت کے الفاظ دیکھئے۔
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤ ْمِنُوْنَ كُلٌّ اٰمَنَ باللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ ۣلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ یعنی ایمان رکھتے ہیں رسول اس چیز پر جو ان کے پاس نازل ہوئی ان کے رب کی طرف سے اس میں تو آنحضرت ﷺ کی مدح فرمائی اور اس کی بجائے آپ کا نام مبارک لینے کے لفظ رسول فرما کر آنحضرت ﷺ کی تعظیم و تشریف کو واضح کردیا اس کے بعد فرمایا والْمُؤ ْمِنُوْنَ یعنی جس طرح آنحضرت محمد ﷺ کا اپنی وحی پر ایمان و اعتقاد ہے اس طرح عام مؤمنین کا بھی اعتقاد ہے اور جو طرز بیان اس جملہ میں اختیار فرمایا کہ پہلے پورا جملہ آنحضرت محمد ﷺ کے ایمان کے ذکر میں لایا گیا اس کے بعد مؤمنین کے ایمان کا علیحدہ تذکرہ کیا گیا اس میں اشارہ ہے کہ اگرچہ نفس ایمان میں آنحضرت محمد ﷺ اور سب مسلمان شریک ہیں لیکن درجات ایمان کے اعتبار سے ان دونوں میں بڑا فرق ہے، رسول اللہ ﷺ کا علم مشاہدہ اور سماع کی بناء پر ہے اور دوسرے مسلمانوں کا علم ایمان بالغیب آنحضرت محمد ﷺ کی رویت کی بناء پر۔
اس کے بعد ایمان مجمل کی تفصیل بتلائی جو آنحضرت ﷺ اور عام مؤمنین میں شریک تھا کہ وہ ایمان تھا اللہ تعالیٰ کے موجود اور ایک ہونے پر اور تمام صفات کاملہ کے ساتھ متصف ہونے پر اور فرشتوں کے موجود ہونے پر اور اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور سب رسولوں کے سچے ہونے پر۔
اس کے بعد اس کی وضاحت فرمائی کہ اس امت کے مؤمنین پچھلی امتوں کی طرح ایسا نہ کریں گے کہ اللہ کے رسولوں میں باہمی تفرقہ ڈالیں کہ بعض کو نبی مانیں اور بعض کو نہ مانیں جیسے یہود نے حضرت موسیٰ ؑ کو اور نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو نبی مانا مگر خاتم الانبیاء ﷺ کو نبی نہ مانا اس امت کی یہ مدح فرمائی کہ یہ اللہ کے کسی رسول کا انکار نہیں کرتے اور پھر صحابہ کرام کے اس جملہ پر ان کی تعریف کی گئی جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے موافق زبان سے کہا تھا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ
Top