Al-Qurtubi - Al-Baqara : 285
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ١۫ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ١۫ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ۗ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ
اٰمَنَ : مان لیا الرَّسُوْلُ : رسول بِمَآ : جو کچھ اُنْزِلَ : اترا اِلَيْهِ : اس کی طرف مِنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) كُلٌّ : سب اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَلٰٓئِكَتِهٖ : اور اس کے فرشتے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابیں وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول لَا نُفَرِّقُ : نہیں ہم فرق کرتے بَيْنَ : درمیان اَحَدٍ : کسی ایک مِّنْ رُّسُلِهٖ : اس کے رسول کے وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی غُفْرَانَكَ : تیری بخشش رَبَّنَا : ہمارے رب وَاِلَيْكَ : اور تیری طرف الْمَصِيْرُ : لوٹ کر جانا
رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اس پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (خدا سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے
اس آیت میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ “۔ حضرت حسن، مجاہد اور ضحاک رحمۃ اللہ علہیم سے روایت ہے کہ یہ آیت قصہ معراج میں عطا ہوئی اور حضرت ابن عباس ؓ سے بعض روایات میں اسی طرح مروی ہے، اور بعض نے کہا ہے : تمام قرآن سوائے اس آیت کے حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) لے کر حضور نبی رحمت ﷺ پر نازل ہوئے، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ نے یہ آیت شب معراج سماعت فرمائی، اور بعض نے کہا ہے اس کا واقعہ معراج سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ لیلۃ المعراج تو مکہ مکرمہ میں تھی اور یہ ساری سورت مدنی ہے۔ پس جنہوں نے یہ کہا ہے کہ اس کا تعلق شب معراج سے ہے انہوں نے فرمایا کہ جب حضور نبی مکرم ﷺ بلندیوں کی جانب چڑھے اور آسمانوں میں بلند مقام پر پہنچے اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) بھی تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ سدرۃ المنتہی سے آگے گزر گئے تو حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے آپ سے عرض کی : بلاشبہ میں اس جگہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور یہ ہی آپ کے سوا کسی کو اس مقام سے تجاوز کرنے کی اجازت دی گئی ہے، پس آپ ﷺ آگے گزر گئے یہاں تک کہ اس مقام تک پہنچے جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا، تو حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے آپ کی طرف اشارہ کیا کہ اپنے رب کریم کو سلام عرض کیجئے، تو حضور نبی کریم ﷺ نے کہا : ” التحیات للہ والصلوت والطیبات “۔ (قولی عبادات، بدنی عبادات اور مالی عبادات سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں) تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ “ (اے نبی مکرم تجھ پر سلام ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں) تو حضور نبی کریم ﷺ نے چاہا کہ آپ کی امت کے لئے بھی سلام میں حصہ موجود ہو۔ چناچہ عرض کی : السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین “۔ (1) (صحیح بخاری، باب التشھد فی الاخرۃ، حدیث نمبر 788، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (سلام ہو ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں پر) تو حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) اور آسمانوں میں رہنے والے تمام ملائکہ نے کہا : اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” امن الرسول “ یہ معنی شکر کی بنا پر ہے یعنی رسول نے تصدیق کی : (آیت) ” بما انزل الیہ من ربہ (اس کتاب کی جو اس کی طرف اس کے رب کی طرف سے اتاری گئی) پس حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو بھی کرامت وفضیلت میں شریک کرنے کا ارادہ فرمایا : تو کہا : (آیت) ” المؤمنون، کل امن باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسولہ، لا نفرق بین احمد من رسلہ “۔ یعنی وہ کہتے ہیں ہم تمام رسل علیہم الصلوت والتسلیمات کے ساتھ ایمان لائے اور ہم ان میں سے کسی کے ساتھ کفر نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے درمیان کوئی فرق کرتے ہیں جس طرح کہ یہود ونصاری نے فرق کیا، تو آپ کے رب نے آپ کو فرمایا اس آیت کے بارے ان کی قبولیت کیسی ہے جسے میں نے نازل کیا ہے ؟ـ اور وہ یہ قول باری تعالیٰ ہے (آیت) ” ان تبدوا مافی انفسکم “۔ تو رسول اللہ ﷺ نے عرض کی (آیت) ” وقالوا سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر “۔ (285) ترجمہ : انہوں نے کہا ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی ہم طالب ہیں تیری بخشش کے اے ہمارے رب ! اور تیری طرف ہی لوٹنا ہے۔ یعنی المصیر بمعنی الموجع (لوٹنے کی جگہ) ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت فرمایا : (آیت) ” لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا “۔ یعنی طاقتھا۔ ترجمہ : اللہ تعالیٰ کسی شخص پر ذمہ داری نہیں ڈالتا مگر جتنی اس کی طاقت ہو۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے : الادون طاقتھا مگر اس کی طاقت سے کم۔ (آیت) ” لھا ماکسبت “۔ یعنی اس کے لئے اس خیر اور نیکی کے عمل کا اجر ہوگا جو اس نے کیا۔ (آیت) ” وعلیھا ما اکتسبت “۔ اور اس پر اس برے عمل کا وبال ہوگا جو اس نے کمایا، تو اس وقت حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے کہا : مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا، تب حضور نبی کریم ﷺ نے کہا : (آیت) ” ربنا لا تؤاخذنا ان نسینا “۔ اے ہمارے رب ہم کو نہ پکڑ اگر ہم بھولیں یعنی لاعلم رہیں ” اواخطانا “ یا ہم خطا کر بیٹھیں یعنی اگر ہم رادۃ کریں۔ اور کہا جاتا ہے : اگر ہم عمل کر بیٹھیں بھول کر اور خطاء تو حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے آپ سے کہا : آپ کو یہ عطا کردیا گیا، تحقیق آپ کی امت سے خطا اور نسیان اٹھا لئے گئے ہیں۔ (1) (السنن ابن ماجہ باب طلاق المکروہ والناس، حدیث نمبر 2034، ضیا القرآن پبلی کیشنز) پس آپ کسی دوسری شے کی التجا کیجئے، تو آپ نے کہا : (آیت) ” ربنا ولا تحمل علینا اصرا ‘، اصرا سے مراد ثقل اور بوجھ ہے، (یعنی اے ہمارے رب ! ہم پر بھاری بوجھ نہ ڈال) (آیت) ” کما حملتہ علی الذین من قبلنا “۔ (جیسے تو نے ڈالا تھا ان پر جو ہم سے پہلے گزرے ہیں) اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے ظلم کے سبب پاکیزہ چیزیں بھی حرام قرار دیں، اور وہ جب رات کے وقت گناہ کرتے تھے تو وہ اسے اپنے دروازے پر لکھا ہوا پاتے تھے اور ان پر نمازیں پچاس تھیں، پس اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے تخفیف کردی اور ان سے پچاس نمازیں فرض کرنے کے بعد کم کردیں۔ (2) (صحیح بخاری، ذکر الملائکۃ حدیث نمبر 2968، ضیا القرآن پبلی کیشنز) پھر عرض کی : (آیت) ” ربناولا تحملنا ما لا طاقۃ لنا بہ “ وہ کہہ رہے ہیں : ایسے عمل کا بوجھ ہم پر نہ ڈال جسے کرنے کی طاقت ہم نہیں رکھتے کہ پھر تو ہمیں عذاب دے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایسا عمل جو ہم پر گراں اور مشکل ہو، کیونکہ اگر انہیں پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا تو وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن وہ ان پر شاق اور مشکل ہوگا اور وہ اس پر دوام اور ہمیشگی اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، (آیت) ” واعف عنا “۔ اور ہمارے ہر قسم کے (گناہوں کو) معاف فرما (آیت) ” واغفرلنا “۔ اور ہم سے درگزر فرما اور کہا جاتا ہے۔ : (آیت) ” واعف عنا “۔ اور ہمیں مسخ (شکل بدلنے) سے معاف فرما (آیت) ” واغفرلنا اور ہمارے خسف (زمین میں دھنسنا) سے درگزر فرما۔ (آیت) ” وارحمنا “۔ اور ہم پر قذف (پتھر برسانا) سے رحم فرما، کیونکہ سابقہ امتوں میں سے بعض کی شکلیں مسخ کردی گئیں، بعض کو زمین میں دھنسا دینے کا عذاب دیا گیا اور بعض پر پتھر برسائے گئے۔ پھر کہا (آیت) ” انت مولنا “۔ یعنی تو ہمارا اولی ہے اور تو ہمارا محافظ ہے۔ (آیت) ” فانصرنا علی القوم الکفرین “۔ سو آپ کی دعا قبول کرلی گئی، اور حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : ” میری ایک مہینے کی مسافت سے رعب کے ساتھ مدد کی گئی ہے۔ نصرت بالرعب مسیرۃ شھر (1) (السنن الکبری للبیہقی، کتاب الصلوۃ، جلد 2، صفحہ 433) اور کہا جاتا ہے کہ لشکری جب اپنے گھروں سے خالص نیت کے ساتھ نکلتے اور جنگ کا طبل بجاتے تو کفار کے دلوں میں رعب اور ہیبت ایک مہینہ کی مسافت سے واقع ہوجاتی۔ انہیں ان کے نکلنے کا علم ہوتا یا علم نہ ہوتا، پھر حضور نبی مکرم ﷺ جب (معراج سے) لوٹے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات وحی فرمائیں تاکہ آپ اپنی امت کو اس کے بارے آگاہ کریں، اور اس آیت کی ایک دوسری تفسیر بھی ہے۔ زجاج نے کہا ہے : جب اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں نماز اور زکوۃ کے فرض ہونے کا ذکر فرمایا اور حج کے احکام اور حیض طلاق، ایلا کا حکم اور انبیاء (علیہم السلام) کے قصص بیان فرمائے اور ربا کا حکم بیان فرمایا : (تو) اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد کے ساتھ اپنی عظمت وشان کا ذکر فرمایا : (آیت) ” للہ ما فی السموت وما فی الارض “۔ پھر نبی مکرم ﷺ کی تصدیق کا ذکر فرمایا اور پھر ان تمام کے بارے مومنین کی تصدیق کا ذکر فرمایا اور ارشاد فرمایا : (آیت) ” امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ “۔ یعنی رسول اللہ ﷺ نے ان تمام اشیاء کی تصدیق کی جن کا ذکر جاری ہے اور اسی طرح تمام مومنین نے اللہ تعالیٰ ، اس کے ملائکہ، اس کی کتب اور اس کے رسولوں کی تصدیق کی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا سبب نزول اس کی ماقبل آیت ہے اور وہ یہ ہے (آیت) ” للہ ما فی السموت وما فی الارض، وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ، فیغفرلمن یشآء ویعذب من یشآء “۔ واللہ علی کل شیء قدیر “۔ (286) کیونکہ جب یہ آیت حضور نبی مکرم ﷺ پر نازل ہوئی تو یہ آپ ﷺ کے اصحاب پر انتہائی گراں اور شدید ثابت ہوئی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور گھٹنے ٹیک کر بیٹھ گئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ہمیں ایسے اعمال کا مکلف بنایا گیا ہے جس کی ہم طاقت رکھتے ہیں : نماز، روزہ، جہاد، (اور صدقہ) اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت نازل کی ہے اور ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کیا تم ارادہ رکھتے ہو کہ تم اس طرح کہو جس طرح تم سے پہلے اہل کتاب نے کہا تھا، سمعنا وعصینا (ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی) بلکہ تم یہ کہو (آیت) ” سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر “۔ (ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اے ہمارے رب ہم تیری بخشش کے طالب ہیں اور تیری طرف ہی ہمیں لوٹنا ہے۔ تو انہوں نے کہا (آیت) ” سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر “ پس جب قوم نے اسے پڑھا تو اس کے ساتھ ان کی زبانیں پست ہوگئیں، تو اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” کل امن باللہ وملئکتہ وکتبہ ورسولہ، لا نفرق بین احمد من رسلہ، وقالوا سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر “ (285) پس جب انہوں نے یہ کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے منسوخ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت، ربنا لا تؤاخذنا ان نسینا اواخطانا “۔ فرمایا ” ہاں “ ربنا ولا تحمل علینا اصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا “۔ فرمایا : ” ہاں “ ربنا ولا تحملنا مالا طاقۃ لنا بہ “۔ فرمایا : ” ہاں “ واعف عنا، واغفرلنا، وارحمنا، انت مولنا فانصرنا علی القوم الکفرین “۔ (286) فرمایا : ” ہاں “ اسے مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے (1) ہمارے علماء نے کہا ہے : پہلی روایت میں یہ قول قد فعلت اور اس روایت میں کہا : نعم یہ اس پر دلیل ہے کہ حدیث بالمعنی نقل کی گئی ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے اور جب اس پر امر پختہ ہوگیا کہ انہوں نے کہا : (آیت) ” سمعنا واطعنا “۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کی تعریف اور مدح کی اور اس مشقت کو دور کردیا تو انہوں دلوں میں کھٹکنے والی چیزوں کے سبب ہوئی، اور یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی طرف کامل متوجہ ہونے کا ثمرہ ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کے لئے اس کا برعکس ظاہر ہوا، ان کی مذمت کی اور انہیں ذلت، محتاجگی، اور جلا وطنی جیسی مشقتوں میں ڈال دیا جب انہوں نے یہ کہا تھا۔ سمعنا وعصینا ہم نے سنا اور ہم نے نافرمانی کی۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور سرکشی اختیار کرنے کا ثمرہ ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احسان اور مہربانی سے اس عذاب اور سزا سے پناہ عطا فرمائے۔ (آمین) اور حدیث میں کہ حضور نبی مکرم ﷺ کو عرض کی گئی کہ حضرت ثابت بن قیس بن شماس کا گھر ہر رات چراغوں کے ساتھ روشن ہوتا ہے، آپ نے فرمایا : شاید وہ سورة البقرہ پڑھتا ہو، سو حضرت ثابت ؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : میں سورة البقرۃ میں سے (آیت) ” امن الرسول “ پڑھی ہے، (2) (فضائل القرآن، سورالقرآن وآیاتہ، صفحہ 229، دارا ابن کثیر ومشق بیروت) یہ تب نازل ہوئی جب حضور نبی کریم ﷺ کے اصحاب پر وہ دھمکی شاق گزری جو اللہ تعالیٰ نے ان تصورات پر حساب لینے کے بارے انہیں فرمائی جنہیں ان کے دل مخفی رکھے ہوئے ہوں گے، تو انہوں نے اس کے بارے حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں شکوہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” شاید تم یہ کہہ رہے ہو سمعنا وعصینا جیسا کہ بنی اسرائیل نے کہا تھا “۔ تو انہوں نے عرض کی : (نہیں) بل سمعنا واطعنا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اور ان کے لئے فرض ہے کہ وہ ایمان لائیں (3) “۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” امن “ اس کا معنی صدق ہے یعنی تصدیق کی اور یہ پہلے گزر چکا ہے اور جو نازل کیا گیا وہ قرآن کریم ہے، حضرت ابن مسعود ؓ نے اس طرح پڑھا ہے۔ ” امن المومنون کل امن باللہ “ یہ لفظ پر (عطف کی بنا) پر ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 391 دارالکتب العلمیہ) اور غیر قرآن میں معنی پر (عطف کرتے ہوئے) امنوا پڑھنا بھی جائز ہے۔ نافع، ابن کثیر، عاصم ابوبکر کی روایت میں اور ابن عامررحمۃ اللہ علہیم نے ” وکتبہ “ صیغہ جمع کے ساتھ قرأت کی ہے، اور انہوں نے سورة التحریم میں کتابہ صیغہ واحد پڑھا ہے۔ اور ابو عمرو نے یہاں اور سورة التحریم میں ” وکتبہ “ صیغہ جمع کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور حمزہ اور کسائی نے دونوں میں کتابہ واحد کے ساتھ قرات کی ہے، پس جنہوں نے جمع پڑھا ہے انہوں نے کتاب کی جمع کا ارادہ کیا ہے اور جنہوں نے مفرد پڑھا ہے انہوں نے اس مصدر کا ارادہ کیا ہے جو ہر لکھی ہوئی شے کو جامع ہوتا ہے جس کا نزول اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہو (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 391 دارالکتب العلمیہ) اور جنہوں نے واحد پڑھا ہے ان کی قرات میں بھی یہ جائز ہے کہ اس سے مراد جمع لیا جائے، اس اعتبار سے کہ کتاب اسم جنس ہے، پس دونوں قراتیں مساوی طور پر برابر ہوگئیں، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” فبعث اللہ النبین مبشرین ومنذرین وانزل معھم الکتب “۔ (البقرہ : 213) ترجمہ : تو بھیجے اللہ نے انبیاء خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے اور نازل فرمائی ان کے ساتھ کتاب۔ جماعت نے ورسلہ سین کو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اسی طرح رسلنا ورسلکم ورسلک میں ہے سوائے ابو عمرو کے اور ان سے رسلنا ورسلکم کی تخفیف مروی ہے، اور ان سے رسلک میں تثقیل اور تخفیف دونوں مروی ہیں ابو علی نے کہا ہے : جنہوں نے رسلک کو تثقیل کے ساتھ پڑھا ہے تو وہ کلمہ کی اصل ہے اور جنہوں نے تخفیف کی ہے تو اسی طرح احاد میں تخفیف کی جاتی ہے۔ مثلا عنق وطنب، اور جب احاد میں تخفیف کی جائے تو یہ اس جمع میں زیادہ مناسب ہے جو زیادہ ثقیل ہے۔ فرمایا اس کا (یہ) معنی مکی ہے۔ اور جمہور لوگوں نے لا نفرق نون کے ساتھ پڑھا ہے، اور معنی یہ ہے یقولون لا نفرق (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 392 دارالکتب العلمیہ) (وہ کہتے ہیں ہم فرق نہیں کرتے) اور قول حذف کردیا گیا، اور قول کا حذف کرنا کثیر اور زیادہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” والملائکۃ یدخلون علیم من کل باب سلام علیکم “ یعنی یقولون سلام علیکم “۔ (وہ کہیں گے تم پر سلام ہو) اور مزید فرمایا : ” ویتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ماخلقت ھذا باطلا، ای یقولون ربنا “۔ (وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! اور اسی طرح (ان میں ہے) جو اس کی مثل ہیں، سعید بن جبیر، یحییٰ بن یعمر، ابو زرعہ بن عمرو بن جریر اور یعقوب نے لا یفرق یا کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ لفظ کل کی بنا پر ہے۔ ہارون نے کہا ہے : اور یہ حضرت ابن مسعود ؓ کی قرات میں لایفرقون (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 392 دارالکتب العلمیہ) اور بین احد مفرد پڑھا ہے آحاد نہیں کہا ہے، کیونکہ احد واحد اور جمع تمام کو شامل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” فما منکم من احد عنہ حجزین “۔ (الحاقہ) اس میں حجزین احد کی صفت ہے کیونکہ اس کا معنی جمع ہے، اور حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ما احنت الغنائم لا حد سود الرؤس غیرکم (5) (جامع ترمذی، کتاب التفسیر جلد، 2، صفحہ 134، جامع ترمذی، باب سورة الانفال، حدیث نمبر 3010، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (تمہارے سو بڑے سرداروں میں سے کسی کے لئے غنائم حلال نہیں کی گئیں) اس میں سود الرؤس، احد کی صفت ہے اور رؤبہ نے کہا ہے : اذا امور الناس دینت دینکا لا یرھبون احدا من دونکا۔ جب لوگوں کے امور تیرے دین کے تابع بنا دیئے گئے ہیں تو وہ تیرے سوا کسی سے خوف نہیں کھاتے۔ اس آیت کا معنی ہے : بیشک مومنین یہودونصاری کی طرح نہیں ہیں اس میں کہ وہ بعض کے ساتھ ایمان لاتے ہیں اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہیں مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وقالوا سمعنا واطعنا “۔ اس میں حذف ہے، یعنی سمعنا سماع قابلین “ ہم نے قبول کرنے والوں کے سماع کی طرح سنا، اور کہا گیا ہے : سمع بمعنی قبل ہے (یعنی قبول کرنا) جیسا کہ کہا جاتا ہے : سمع اللہ لمن حمدہ، تو اس میں حذف نہ ہوگا۔ المختصر یہ قول اپنے کہنے والے کی مدح کا تقاضا کرتا ہے اور اطاعت کا معنی حکم کو قبول کرنا ہے۔ اور قولہ تعالیٰ : غفرانک “ یہ مصدر ہے جیسا کہ کفران اور خسران ہیں اور اس میں عامل فعل مقدر ہے، تقدیر کلام یہ ہے : اغفر غفرانک، (تو اپنی بخشش عطا فرما۔ ) زجاج نے یہی کہا ہے اور اس کے سوا دوسروں نے کہا ہے : نطلب اواسال غفرانک (ہم یا میں تیری بخشش کے طالب ہیں) (آیت) ” والیک المصیر “۔ یہ دوبارہ زندہ کئے جانے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کا اقرار ہے اور کہا جاتا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو جبرائیل امین (علیہ السلام) نے آپ کو کہا :” بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ پر اور آپ کی امت پر غنائم کو حلال کیا ہے سو آپ مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا۔ “ پس آپ نے آخر سورت تک التجا کی (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 392 دارالکتب العلمیہ)
Top