Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 285
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ١۫ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ١۫ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ۗ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ
اٰمَنَ : مان لیا الرَّسُوْلُ : رسول بِمَآ : جو کچھ اُنْزِلَ : اترا اِلَيْهِ : اس کی طرف مِنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) كُلٌّ : سب اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَلٰٓئِكَتِهٖ : اور اس کے فرشتے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابیں وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول لَا نُفَرِّقُ : نہیں ہم فرق کرتے بَيْنَ : درمیان اَحَدٍ : کسی ایک مِّنْ رُّسُلِهٖ : اس کے رسول کے وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی غُفْرَانَكَ : تیری بخشش رَبَّنَا : ہمارے رب وَاِلَيْكَ : اور تیری طرف الْمَصِيْرُ : لوٹ کر جانا
رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اس پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور وہ (خدا سے) عرض کرتے ہیں کہ ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے
(آیت 282 کی بقیہ تفسیر) تم اس کے متعلق تحریر لکھنے سے اکتاہٹ یا بیزاری کا اظہار نہ کرو۔ اس لئے کہ یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ یہاں اس سے قیراط اور دانق (قیراط نصف دانق اور دانق ورہم کا چھٹا حصہ) مراد نہیں ہے۔ کیونکہ اتنی قلیل رقم میں ایک مدت تک ادھار لین دین کی لوگوں میں عادت نہیں ہے۔ اللہ نے یہ بتادیا کہ اتنی تھوڑی مقدار جس میں مدت کی تعین عام طور پر کرلی جاتی ہے تحریر اور گواہی کے لحاظ سے جس کی یہاں ترغیب دی گئی ہے۔ اس کا بھی وہی حکم ہے جو کثیر مقدار کا کیونکہ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ آیت میں بالکل معمولی رقم نہیں ہے۔ البتہ ایسی تھوڑی مقدار سج کے لین دین کی لوگوں کو عادت ہوتی ہے۔ اس کے متعلق تحریر اور گواہی کی ترغیب دی گئی ہے۔ اب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس معاملے کی بنیاد لوگوں کی روزمرہ عادت پر ہوا سے معلوم کرنے کا طریقہ اجتہاد اور ظن غالب ہے۔ یہ چیز اس بات کی دلیل ہے ان نئے مسائل میں اجتہاد کا جواز ہے جن کے متعلق نہ تو فقہاء کا اتفاق ہے اور نہ ہی توقیف یعنی شریعت کی رہنمائی ہے۔ قول باری (الی اجلہ) کا مطلب ادائیگی کے مقررہ وقت کے پہنچ جانے تک دستاویز میں مدت کا بھی ذکر کیا جائے گا اور ادائیگی کے وقت کا بھی جس طرح کہ اصل قرض کا ذکر ہوگا۔ یہ بات اس چیز کی دلیل ہے کہ ان دونوں پر لازم یہ ہے کہ دستاویز میں دین کی صفت یا کیفیت اس کی مقدار اور اس کی واپسی کے متعلق سب کچھ تحریر کریں۔ اس لئے کہ اجل یعنی مدت بھی دین کی کیفیتوں میں سے ایک کیفیت ہے۔ اس لئے اجل سے متعلق تمام باتوں کا حکم بھی وہی ہوگا جو اجل یعنی مدت کا ہے۔ قول باری ہے (ذلکم اقسط عند اللہ و اقوم لشھادۃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لئے زیادہ مبنی بر انصاف ہے اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے) اس میں اس غرض کا بیان ہے جس کے تحت تحریر اور گواہی کا حکم دیا گیا ہے۔ اور وہ غرض یہ ہے کہ ادھار لین دین کرنے والے طرفین کے لئے معاملے میں پختگی اور احتیاط کا پورا سامان مہیا کردیا جائے تاکہ آپس میں انکار اور مقدمے بازی کی صورت میں معاملہ پیچیدگیوں اور بےقاعدگیوں سے محفوظ رہے۔ نیز دستاویز لکھنے سے کیا مراد ہے وہ بھی بیان کردیا اور لوگوں کو بتادیا کہ یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی بر انصاف ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات اس بات کے لحاظ سے زیادہ عادل اور اولیٰ ہے کہ لوگوں کے درمیان چھینا چھپٹی اور ایک دوسرے پر ظلم کرنے اور حق مار لینے والی کیفیت پیدا نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اس طریقے سے گواہی قائم ہونے میں زیادہ سہولت بھی ہے۔ یعنی … واللہ اعلم … یہ طریقہ گواہی قائم کرنے کے لئے اس طریقے کی بہ نسبت زیادہ ٹھوس اور واضح ہے جبکہ دستاویز اور گواہ نہ ہوں اس کے ساتھ گواہی میں شک و شبہ کی نفی کے لئے بھی یہ طریقہ بہتر ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں یہ اطلاع دی کہ سا نے تحریر اور گواہی کا جو حکم دیا ہے اس میں ہماری دینی اور دنیوی بھلائی کو مدنظر رکھا گیا ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کے آپس میں ایک دوسرے پر ظلم اور حق مار لینے کی تمام راہوں کو بند کرنا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی بتادیا کہ تحریر کی وجہ سے جو احتیاطی صورتحال پیدا ہوتی ہے اس سے گواہی کے متعلق شک و شبہ کی نفی ہوجاتی ہے اور یہ بات اللہ کے نزدیک دستاویز کی عدم تحریر کی بہ نسبت زیادہ مبنی بر انصاف ہے۔ اس لئے کہ دستاویز نہ ہونے کی صورت میں گواہ شک و شبہ میں مبتلا ہوجائے گا اور پھر اسی شک و شبہ کی کیفیت کے ساتھ وہ گواہی بھی دے گا اور اس طرح ایک ممنوع چیز کا مرتکب قرار پائے گا یا وہ گواہی دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا اور اس طرح مدعی کے حق کو ضائع کرنے والا قرار پائے گا۔ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ گواہی اس وقت درست ہوتی ہے جب اس کے متعلق شک و شبہ کا ازالہ ہوجاتا ہے اور یہ کہ گواہ کے لئے گواہی دینا اسی وقت جائز ہوتا ہے جب اسے یہ گواہی یا ہوا گرچہ وہ اپنی تحریر اور خط پہچانتا ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ دستاویز کا حکم اس لئے دی اگیا ہے کہ گواہ کو گواہی کے متعلق کوئی شک و شبہ نہ ہو۔ یہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ شک کے ساتھ گواہی دینا جائز نہیں ہے اور جب گواہی کے متعلق شک و شبہ گواہی کی صحت اور جواز کے لئے مانع بن سکتا ہے تو گواہی کی یادداشت اور اس کے متعلق معلومات کی عدم موجودگی بطریق اولیٰ مانع بنے گی۔ قول باری ہے (الا ان تکون تجارۃ حاضرۃ قدیر ونھا بینکم فلیس علیکم جناح الا تکتبوھا، ہاں جو تجارتی لین دین تم دست بدست کرتے ہو اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں) یعنی واللہ اعلم … ایسے سودے کہ جن میں طرفین میں سے ہر ایک پر یہ لازم ہوتا ہے کہ سودے میں طے شدہ چیز، مبیع یا ثمن، دوسرے شخص کے حوالے کر دے اور اس میں ادھار یا مدت مقرر نہ کرے (دوسرے الفاظ میں دست بدست لین دین کی صورت ہو۔ ) اللہ تعالیٰ نے ایسے لین دین میں تحریر نہ لکھنے کی چھوٹ دے دی تاکہ بندوں کے لئے سہولت کی گنجائش پیدا ہوجائے اور ان کے ساتھ نرمی ہوجائے اور اس طرح وہ اشیائے خوردنی اور روزمرہ کی ضروریات وغیرہ کی خریداری میں تحریر کی بنا پر تنگی سے بچ جائیں۔ پھر سلسلہ خطاب میں یہ فرمایا (واشھدوا اذا تبایعتم، مگر تجارتی معاملے کرتے وقت گواہ کرلیا کرو) لفظ کا عموم اس بات کا متقاضی ہے کہ فوری ادائیگی یا موجل ادائیگی کی بنا پر ہونے والے تمام سودوں پر گواہ کرلینا چاہیے صرف دست بدست تجارتی معاملات اور سودوں میں جو غیر مئوجل ہوں دستاویز نہ لکھنے کی اجازت ہے۔ رہ گئی گواہ کرلینے کی بات تو وہ تمام صورتوں میں مستحسن اور مستحب ہے۔ اس کی ترغیب دی گئی ہے ۔ البتہ اس سے وہ صورت خارج ہے جس میں رقم یا مقدار اتنی قلیل ہو کہ کہ عام طور پر اس کے لئے گواہی کے ذریعے توثیق اور اعتماد حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، مثلاً روٹی، سبزی، پانی اور اس طرح دوسری اشیاء کی خریداری۔ تاہم سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ ان کے ہاں سبزیاں خریدتے وقت بھی گواہ کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ بات استحباب یا ترغیب کے درجے میں ہوتی تو حضور ﷺ صحابہ کرام، سلف صالحین اور متقدمین سے یہ ضرور منقول ہوتی بلکہ لوگوں کی عام ضروریات کی بنا پر تمام لوگ اس کے ناقل ہوتے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ یہ سب حضرات اشیائے خوردنی اور روزمرہ کی ضروریات کی خرید و فروخت کرتے لیکن گواہ بنانے کی کوئی بات ان سے منقول نہیں جس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ گواہ بنانے کا حکم اگرچہ استحباب اور ترغی کے طور پر ہے تاہم یہ ان سودوں اور تجارتی معاملات اور لین دین میں ہے جن میں قیمتوں کی صورت میں بھاری رقوم کی ادائیگی سے ان کا خطرہ ہو نیز جہاں قیمتی اور نفیس اشیاء کا تبادلہ ہو رہا ہو اور گڑ بڑ کا دھڑکا لگا ہو اور ان کے اندر نقص یا عیب کی صورت میں ایک دوسرے کے حقوق کے خطرے میں پڑجانے کا اندیشہ ہو یا فروخت شدہ چیز کے بعض حصوں یا کل پر کسی مستحق کا حق ثابت ہوجانے کی صورت میں خریدار پر تاوان وغیرہ عائد ہوجانے کا خطرہ ہو۔ آیت کے ضمن میں دستاویز لکھنے اور گواہ بنانے کی ترغیب ان صورتوں میں دی گئی ہے جہاں ایسے سودے ہوں جن میں قیمتوں کی دائیگی فوری نہ ہو بلکہ موجل ہو اور دست بدست لین دین میں صرف گواہ بنانے کی ترغیب ہے تحریر کی نہیں۔ لیث بن سعد نے مجاہد سے قول باری (واشھدوا اذا تبایعتم) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ جب معاملہ ادھار کی صورت میں ہو تو دستاویز لکھی جائے گی اور اگر نقد ادائیگی کی صورت ہو تو گواہی لی جائے گی۔ حسن بصری کا قول ہے کہ اگر نقد سو دے میں گواہ کر لئے جائیں تو یہ پختہ بات ہوگی اور اگر گواہی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ شعبی سے بھی اسی قسم کا قول منقول ہے۔ ایک گروہ کا یہ قول ہے گواہ بنانے کا حکم قول باری (فان امن بعضکم بعضاً اگر تمہیں ایک دور سے کی طرسے اطمینان ہو) ہم نے گزشتہ سطور میں اپنے ذوق کے مطابق درست بات کا تذکرہ کردیا۔ قول باری ہے (ولا یضار کاتب ولا شھید، کسی لکھنے والے کو اور نہ کسی گواہ کو ستایا نہ جائے) یزید بن ابی زیاد نے مقسم سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس کی صورت یہ کہ کوئی شخص کسی کاتب یا گواہ کے پاس جا کر یہ کہے کے مجھے تحریر یا گواہی کی ضرورت ہے اور تمہیں یہ حکم ہے کہ میری ضرورت پوری کرو۔ اس طرح اس کاتب یا گواہ کو مجبور نہ کیا جائے ۔ طائوس اور مجاہد سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ حسن بصری اور قتادہ کا قول ہے کہ کاتب نقصان نہ پہنچائے کہ وہ دستاویز میں وہ بتایں لکھ دے جو اسے لکھنے کے لئے کہی نہ گئی ہوں اور گواہ نقصان نہ پہنچائے کہ گواہی میں اپنی طرف سے اضافہ کر دے، حسن، قتادہ اور عطاء نے (ولا یضار کاتب) حرف، السراء، کی قرأت زیر کے ساتھ کی ہے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود اور مجاہد نے زبر کے ساتھ کی ہے۔ اسی طرح ایک قرأت میں صاحب حق یعنی مدعی کو کاتب اور گواہ کو تنگ کرنے نیز مجبور کرنے سے روکا گیا ہے اور دوسری قرأت میں کاتب اور گواہ کو حقدار کو نقصان پہنچانے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ دونوں مفہوم درست اور معمول بہ ہیں۔ حق دار یعنی مدعی کو اس سے روک دی اگیا کہ وہ کاتب اور گواہ کو نقصان نہ پہنچائے کہ انہیں ان کی اپنی مصروفیات سے نکال کر دستاویز لکھنے اور گواہی دینے پر مجبور کر دے۔ اسی طرح کاتب اور گواہ کو حق دار کو نقصان پہنچانے سے روک دی اگیا کہ وہ دستاویز میں وہ باتیں تحریر کر دے جو لکھوائی نہ گئی ہو۔ اور گواہ نے جو بات دیکھی نہ ہو اس کی گواہی دے دے گواہ کی طرف سے صاحب حق کو نقصان پہنچانے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ وہ بیٹھ جائے اور گواہی نہ دے جبکہ مقدمے میں صرف دوگواہوں ۔ ایسی صورت میں ان دونوں پر گواہی دینا فرض ہوگا اور گواہی سے باز رہ کر اسے نقصان پہنچانے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ اسی طرح کسی اور کاتب کی عدم موجودگی میں اسے دستاویز تیار کرنا فرض ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ تجارت کے متعلق قول باری (فلیس علیکم جناح الا تکتبوھا) میں تجارت دین موجل کے درمیان فرق کی وجہ سے یہ دلالت پائی جاتی ہے کہ ان پر دین مئوجل کی تحریر اور اس پر گواہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے۔ ادھار لین دین کے اندر جس میں مدت کا تعین ہو گواہ بنانے کا حکم ترغیب اور استحباب کے طور پر ہے اور اس حکم کا تارک اس احتیاط کا تارک ہوگا جس کی حفاظت کے لئے اسے ترغیب دی گئی ہے۔ اس لئے جائز ہے کہ اس پر قول باری (الا ان تکون تجارۃ حاضرۃ تدیرونھا بینکم فلیس علیکم جناح الا تکتبوھا) کو عطف کردیا جائے اور پورا مفہوم یہ ہوگا کہ ” تم تحریر ترک کر کے اس حکم کے تارک نہیں بنو گے جس کی تمہیں ترغیب دی گئی تھی جس طرح تم مئوجل دیون میں دستاویز نہ لکھے کر اور گواہ نہ بنا کر احتیاط اور استحباب کے تارک قرار پائو گے۔ “ قول باری (فلیس علیکم جناح) میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ ماں کو محفوظ کرلینے کے باب میں تم پر کوئی ضرر نہیں ہے ا س لئے کہ متعاقدین میں ہر ایک دوسرے کو اس کا حق حوالے کرنے کے بدلے اپنا حق لے لیتا ہے۔ قول باری (قران تفعلوا فانہ فسوق بکم ایسا کو گے تو گناہ کا ارتکاب کرو گے) کا عطف (ولایضار کاتب ولا شھید) پر ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ طالب حق یعنی مدعی کی طرف سے کاتب اور گواہ کو نقصان پہنچانا اور ان دونوں کی طرف سے اسے نقصان پہنچانا فسق یعنی گناہ کی بات ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف ممانعت کے باوجود ہر ایک نے دوسرے کو نقصان پہنچانے کا ارادۃ اقدام کیا۔ واللہ اعلم ! رہن کا بیان قو ل باری ہے (وان کنتم علی سفر ولم تجدوا کاتباً فرھان مقبوضۃ اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لئے کوئی کاتب نہ ملے تو رہن بالقبض پر معاملہ کرو) یعنی … واللہ اعلم … جب تمہیں دستاویز اور گواہی کے ذریعے اطمینان حاصل کرنے اور بات پختہ کرنے کی صورت حاصل نہ ہو تو ایسی حالت میں رہن بالقبض اطمینان اور وثوق کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی صورت میں جہاں دستاویز اور گواہوں کے ذریعے اطمینان اور توثیق حاصل نہ ہوسکتا ہو۔ وہاں اس کے لئے رہن کو دستاویز اور گواہی کو قائم مقام بنادیا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں سفر کی حالت کا ذکر کیا ہے۔ سا لئے کہ سفر کے اندر عام حالات میں دستاویز اور گواہ مہیا نہیں ہوتے۔ مجاہد سے مروی ہے کہ وہ سفر کے سوا اور کسی حالت میں رہن کو ناپسند کرتے تھے جبکہ عطاء بن ابی رباح قیام کی حالت میں بھی اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ مجاہد کا استدلال یہ تھا کہ رہن کا حکم چونکہ اس آیت سے ماخوذ ہے اور سفر کی حالت میں اس کی اباحت کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لئے غیر سفر یعنی قیام کی صورت میں یہ حکم ثابت نہیں ہوگا۔ لیکن یہ استدلال تمام اہل علم کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔ فقہائے امصار اور عام سلف صالحین کے نزدیک حالت قیام میں اس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ابراہیم نخعی نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک یہودی سے اشیائے خوردنی ایک مدت کے لئے ادھار حاصل کیں اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھ دی۔ قتادہ نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی ایک زرہ مدینے کے ایک یہودی کے پاس گروی رکھ دی تھی اور اس سے اپنے اہل خانہ کے لئے جو ادھار لئے تھے۔ حضور ﷺ کے اس عمل سے حالت قیام میں رہن کا جواز ثابت ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (فاتبعوہ تم رسول کی پیروی کرو۔ ) نیز فرمایا (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ تمہارے لئے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے) اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے رہن کے ذکر کو حالت سفر کے ساتھ اس لئے خاص کردیا ہے کہ سفر ہی کے اندر عام حالات میں کاتب اور گواہ دستیاب نہیں ہوتے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ (فی خمس وعشرین من الابل ابنۃ مخاض و فی ست وثلثین انبۃ لبون ، پچیس اونٹوں کی زکواۃ میں ایک بنت مخاض اور چھتیس میں ایک بنت لبون دی جائے گی۔ آپ نے یہاں ان دو لفظوں سے مراد یہ نہیں لیا کہ پچیس اور چھتیس اونٹوں پر زکواۃ میں دی جانے وا لی ایک سالہ اور دو سالہ بچھیا ایسی ہو کہ اس کی ماں مخاض یعنی درد زہ میں مبتلا ہو یا وہ لبن یعنی دودھ دے رہی ہو بلکہ آپ نے عام حالات پر مبنی ایک بات کی اطلاع دی۔ جبکہ یہ ممکن ہے کہ ماں نہ دروزہ میں مبتلا ہو اور نہ ہی دودھ دے رہی ہو۔ اسی طرح آیت میں سفر کا ذکر بھی اسی صورت پر محمول ہے۔ اسی طرح ﷺ کا ارشاد ہے (لا قطع فی ثمر حتی یودیہ البحرین، جب تک کھلیان کسی پھل کو سمیٹ نہ لے اس وقت تک اسے چرا لینے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا) اس سے مراد پھل کا پختہ ہو کر خشک ہوجانا ہے، کھلیان میں پہنچ جانا مراد نہیں ہے اس لئے کہ پھل پک کر خشک ہوجانے کے بعد اگر مالک کے گھر یا دکان پر پہنچ جائے اور پھر اسے کوئی چرا لے تو چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اس لئے کھلیان کا ذکر عام حالات کے تحت پھل کے پکنے اور خشک ہوجانے کے سلسلے میں کیا گیا ہے اسی طرح سفر کی حالت کا بھی ذکر اسی معنی پر محمول ہوگا۔ قول باری ہے (فرھان مقبوضۃ) یہ اس بات پر دو طرح سے دلالت کرتا ہے کہ قبضہ کے بغیر رہن درست نہیں ہوتا۔ ایک تو یہ کہ اسے ماقبل کے قول پر عطاف کیا گیا ہے جو یہ ہے (واستشھد واشھدین من رجالکم فان لم یکون رجلین فرجل وامراتان ممن ترضون من الشھدآء) جب گواہوں کے لئے تعداد اور صفت کی شرطوں کا پورا ہونا واجب ہے تو یہ بھی واجب ہے کہ رہن کا حکم بھی صفت کی شرط کے لحاظ سے ایسا ہی ہو اور رہن صرف اس صفت کی بنا پر اس طرح درست ہو جس طرح گواہوں کی گواہی مذکورہ اوصاف کی بنا پر درست ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ابتداء سے ان کی طرف خطاب کا رخ امر کے صیغے کے ساتھ ہوا جو ایجاب کا مقتضی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ رہن کا حکم آیت سے ماخوذ ہے اور آیت نے اس صفت یعنی قبضے کے ساتھ اس کی اجازت دی ہے اس لئے اس کے سوا کسی اور صورت کے تحت اس کی اجازت ناجائز ہوگی اس لئے کہ رہن کے جواز کے لئے آیت کے سوا اور کوئی اصل یا بنیاد موجود نہیں ہے۔ قبضہ کے بغیر رہن کی عدم صحت پر یہ بات دلالت کر رہی ہے کہ سب کو اس کا علم ہے کہ مرتہن (رہن جس کے پاس رکھی جائے یعنی قرض دینے والا) کو پانے دین کے متعلق بھروسہ اور اطمینان رہن رکھ کر ہوتا ہے ۔ اگر رہن میں قبضہ کی شرط نہ ہوتی تو مرتہن کا بھروسہ اور اطمینان باطل ہوجاتا اور یہ رہن راہن کے دور سے اموال اور چیزوں کی طرح ہوجاتا جن میں مرتہن کے لئے بھروسے اور اطمینان کا کوئی سامان نہیں ہوتا۔ رہن کو بھروسے کا ذریعہ اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ وہ مرتہن کے ہاتھوں میں اس کے دین کے بدلے محبوب رہے اور راہن کی طرح موت یا مفلس ہوجانے کی صورت میں مرتہن دوسرے قرض خواہوں کے مقابلے میں اس کا سب سے بڑھ کر مستحق ہو۔ اگر رہن اس کے ہاتھ میں نہیں ہوگا تو یہ بےمعنی اور لغو چیز ہوگی اور مرتہن اور دوسرے قرض خواہ اس کی نسبت سے یکساں صورت کے حامل ہوں گے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ فروخت شدہ چیز قیمت کے بدلے اس وقت تک محبوب ہوتی ہے جب تک وہ فرخت کنندہ کے ہاتھ میں ہو۔ اگر فروخت کنندہ اسے خریدار کے حوالے کر دے تو اس کا حق ساقط ہوجائے گا اور پھر فروخت کنندہ اور دوسرے قرض خواہ اس چیز کی نسبت سے یکساں صورت اور حیثیت کے حامل ہوجائیں گے۔ رہن پر قبضہ کے لئے راہن اور مرتہن دونوں کے اقرار کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب اور امام شافعی کا قول ہے کہ جب قبضے کے متعلق راہن کے اقرار پر گواہی کیی صورت میں ثبوت مل جائے اور مرتہن اس کا دعویٰ کر رہا ہو تو گواہی درست ہوگی اور رہن کی صحت کا حکم لگا دیا جائے گا۔ امام مالک کے نزدیک قبضے کی تصدیق کرنے والے کے اقرار پر گواہی ناقابل قبول ہوگی جب تک کہ گواہ قبضہ کی چشم دید گواہی نہ دیں۔ امام مالک کے اس قول کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ رہن کے متعلق قیاس کا بھی یہی تقاضا ہے۔ رہن پر قبضہ کے متعلق راہن اور مرتہن کے اقرار پر گواہی کے جواز کی یہ دلیل ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ بیع، غصب اور قتل کے بارے میں اس کا اقرار جائز ہے۔ اسی طرح رہن پر قبضے کے متعلق اس کا اقرار بھی جائز ہونا چاہیے۔ رہن مشاع کے بارے میں فقہاء کے اختلاف کا ذکر امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر کا قول ہے کہ ایسی مشترک چیز جس میں حصہ داروں کے حصول کا تعین نہ ہوا ہو جس کی تقسیم ہوسکتی ہو یا تقسیم نہ ہوسکتی ہو اس کا رہن جائز نہیں۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ دونوں صورتوں میں اس کا رہن جائز ہے۔ ابن المبارک نے سفیان ثوری سے نقل کیا ہے۔ ایک شخص اگر کوئی چیز رہن کے طور پر رکھ لے اور اس کے بعض حصے کا راہن مستحق ہو تو وہ چیز رہن کے حکم سے خارج ہوجائے گی۔ لیکن مرتہن کو اختیار ہوگا کہ وہ راہن کو اس پر مجبور کر دے کہ وہ اپنے اس حصے کو رہن بنا دے لیکن اگر وہ اسے رہن بنا دینے سے پہلے مرجائے تو یہ حصہ اس کے اور دوسرے قرض خواہوں کے درمیان رہے گا۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ جس مشترک چیز میں حصہ داروں کا حصہ متعین نہ ہوا ہو اور اس کی تقسیم نہ ہوسکتی ہو اسے رہن رکھ دینا جائز ہے اور جس کی تقسیم ہوسکتی ہو اس کا رہن جائز نہیں ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب آیت کی دلالت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قبضہ کے بغیر رہن اس حیثیت سے درست نہیں کہ یہ اعتماد اور بھروسے کا ذریعہ ہے اور قبضے کے خاتمے سے رہن کے معنی یعنی اعتماد اور بھروسے کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ ایسی مشترک چیز کا رہن درست نہ ہو جس کے حصہ داروں کے حصے ابھی متعین نہ ہوئے ہوں اور جس کی تقسیم ہوسکتی ہو یا تقسیم نہ ہوسکتی ہو اس لئے کہ حصہ داروں کے قبضہ کے استحقاق کو واجب اور اعتماد اور بھروسے کو باطل کرنے والا سبب عقد بالرہن کے ساتھ موجود ہے۔ یہ سبب وہ اشتراک ہے جس کی وجہ سے شریکوں کے درمیان قبضے کی باری بدلنے کے اصول کے تحت اسے یعنی مرتہن کو قبضہ چھوڑ دینا پڑت ا ہے۔ اس لئے ایسی بات کی موجودگی میں رہن درست نہیں ہوگا جو رہن کو باطل کرنے والی ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب قبضے کی باری بدلنے کے اصول کے تحت اس چیز پر قبضے کا حق پیدا ہوجائے گا اور اس صورت میں رہن واپس شریک کے ہاتھ میں چلا جائے گا تو اس سے اعتماد اور بھروسے کی بات ختم ہوجائے گی اور اس کی حیثیت اس رہن جیسی ہوجائے گی جو مرتہن کے قبضے میں نہ آیا ہو۔ تاہم اس کی حیثیت قبضے میں آئے ہوئے رہن کو عاریت کے طور پر راہن کو واپس کردینے والے رہنے جیسی نہیں ہے اور اس سے رہن باطل بھی نہیں ہوگا، مرتہن کو اختیار ہوگا کہ وہ اسے راہن سے اس بنا پر وپ اس لے لے کہ اس پر قبضہ رکھنے کا راہن کو کوئی حق نہیں پہنچتا اور مرتہن جب چاہے اسے راہن سے لے سکتا ہے۔ مرتہن کی طرف سے اس کی ابتداء ہوئی تھی اور اس پر راہن کے قبضے کا استحقاق کسی ایسے سبب کی بنا پر نہیں تھا جو عقد کے مقارن ہو۔ نیز اس کی حیثیت اس مشترک چیز کے ہبہ جیسی بھی نہیں ہے جس کے حصہ داروں کے حصے متعین نہ ہوں اور جو ناقابل تقسیم ہو۔ ہمارے نزدیک ہبہ کی یہ صورت جائز ہے اگرچہ رہن کی طرح ہبہ میں بھی قبضہ شرط ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہبہ میں قبضے کی جو شرط ہے وہ ملکیت کی صحت کے لئے ہے۔ ملکیت باقی رکھنے کے لئے اس ہبہ کا قبضے میں رہنا شرط نہیں ہے۔ جب ابتداء میں قبضہ درست ہوگیا تو اس چیز پر دوسرے شریکوں کے قبضے کا استحقاق اس شخص کی ملکیت کو ختم کرنے میں کسی طرح بھی مئوثر نہیں ہوگا جبکہ ایسی مشترک چیز رن کی صورت میں جس کے حصہ داروں کے حصے متعین نہ ہوئے ہوں۔ شریکوں کے استحقاق کی بنا پر اعتماد اور بھروسے کی وہ بات ہی ختم ہوجائے گی جو رہن کا مقصد ہے ۔ اس لئے اس چیز کا رہن درست نہیں ہوگا کیونکہ اس کے ساتھ وہ سبب بھی موجود ہے جو اسے باطل کردیتا ہے اور جو اس کے منافی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے مشترک چیز کو اپنے شریک کے پاس رہن رکھ دینے کو کویں جائز قرار نہیں دیا کیونکہ اس میں دوسرے دن اسے قبضے کا استحقاق کی بنا پر اعتماد اور بھروسے کی وہ بات ہی ختم ہوجائے گی جو رہن کا مقصد ہے۔ اس لئے اس چیز کا رہن درست نہیں ہوگا کیونکہ اس کے ساتھ وہ سبب بھی موجود ہے جو اسے باطل کردیتا ہے اور جو اس کے منافی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ نے مشترک چیز کو اپنے شریک کے پاس رہن رکھ دینے کو کیوں جائز قرار نہیں دیا کیونکہ اس میں دوسرے دن اسے قبضے کا استحقاق نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ رہن چھڑا لینے تک اس پر اس کا قبضہ باقی رہتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر رہن غلام کی صورت میں ہو تو قبضے پر باری بدلنے کے اصول کے تحت شریک کو اپنی ملکیت کے حق کی بنا پر اس سے خدمت لینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے اور جو شخص ایسا کرے گا غلام پر اس کا قبضہ رہن والا قبضہ نہیں ہوگا اور دوسرے دن رہن پر قبضے کا استحقاق پیدا ہوجائے گا۔ سا لئے شریک اور اجنبی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ وہ سبب موجود ہوتا ہے جو عقد کے ساتھ رہن پر قبضہ کے استحقاق کا موجب ہے۔ دین کو رہن رکھنے کے مسئلے میں اختلاف ہے ۔ تمام فقہاء کا یہ قول ہے کہ دین کو رہن رکھنا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص کا دوسرے شخص پر قرضہ ہو۔ میں اس کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کر دوں اور ثمن کے بدلے دین کی وہ رقم رہن رکھ لوں جو اسے ملنے والی ہے تو یہ صورت جائز ہوگی۔ یہ صورت اس صورت سے بہتر ہے کہ وہ کسی عائد شدہ قرضے کو بطور رہن رکھ لے۔ اس لئے کہ مقروض کے ذمہ جو قرض ہے اس کی بنا پر صورت جائز ہے۔ امام مالک کے قول کے مطباق یہ صورت جائز ہے کہ ایک شخص اپنے قرضے کی وہ رقم رہن رکھ دے جو کسی کے ذمہ واجب الا دا ہے پھر وہ کسی اور شخص سے کچھ خریداری کرے اور قیمت کے بدلے قرض کی اسی رقم کو اس کے پاس رہن رکھ دے جو اس دوسرے شخص کے ذمے واجب الادا ہے۔ وہ اس کے اس حق کو اپنے قبضے میں لے کر اس کے حق میں گواہی دے گا۔ یہ ایسا قول ہے کہ اہل علم میں سے سوائے امام مالک کے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے اور یہ قول فرمان الٰہی (فرھان مقبوضۃ) کی بنا پر فاسد ہے۔ دین پر قبضہ اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک وہ دین ہے خواہ یہ دین خود اس پر ہو یا کسی اور پر۔ اس لئے کہ دین ایسا حق ہے۔ جس پر قبضہ درست نہیں ہوتا جبکہ قبضہ اعیان یعنی نقد نیز اشیاء پر ہوتا ہے۔ تاہم اس چیز کے باوجود یہ دیکھا جائے گا کہ آیا وہ دین پہلی ضمانت کے حکم پر باقی ہے یا رہن کی ضمانت کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔ اگر دوسری صورت ہو تو پھر ضرو ری ہے کہ جب قرض کی رقم رہن کی رقم سے کم ہو تو اس زائد رقم سے وہ بری الذمہ ہوجائے۔ اگر پہلی صورت ہو تو یہ رہن نہیں بنے گا اس لئے کہ یہ اپنی اصلی حالت پر باقی ہے ۔ رہ گیا وہ دین جو کسی دوسرے کے ذمہ ہے۔ اس کے رہن رکھنے کا جواز اور بھی بعید ہے اس لئے کہ ایسے دین کو اپنے قبضے میں لانا اور پھر اسے اپنے قبضے میں رکھنا کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۔ اگر رہن کسی عادل آدمی کے پاس رکھوا دیا جائے تو اس کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور زفرنیز سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر راہن اور مرتہن دونوں اس رہن کو سکی عادل انسان کے پاس رکھوا دیں تو رہن جائز ہوگا اور مرتہن کی ذمہ داری پر ہوگا یعنی نقصان پہنچنے کی صورت میں مرتہن تاوا ن بھرے گا۔ حسن بصری ، عطاء اور شعبی کا یہی قول ہے۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ ، ابن شبرمہ اور اوزاعی کا قول ہے کہ جب تکمترہن اسے اپنے قبضے میں نہ لے لے اس وقت تک اس کا رہن بننا درست نہیں ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب راہن اور مرتہن دونوں نے مل کر اسے کسی عادل آدمی کے پاس رکھوا دیا ہو تو اس صورت میں اگر وہ ضائع ہوجائے تو اس صورت میں اس کا ضیاع راہن کے حساب میں شمار ہوگا۔ امام شافعی نے تلوار کے ایک حصے کو بطور رہن رکھنے کے متعلق کہا کہ جب تک راہن اور مرتہن اس تلوار کو سکی عادل شخص یا شریک یعنی حصہ دار کے پاس نہ رکھوا دیں اس وقت تک اس پر قبضے کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (فرھان مقبوضہ) رہن پر کسی عادل آدمی کے قبضے کی صورت میں اس کے جواز کا مقتضی ہے۔ اس لئے کہ آیت میں مرتہن کے قبضے اور عادل آدمی کے قبضے کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے آیت کا عموم ان دونوں میں سے ہر ایک کے قبضے کے جواز کا مقتضی ہے۔ سا لئے کہ عادل آدمی دراصل قبضے کے معاملے میں مرتہن کا وکیل اور نمائندہ ہوتا ہے اس لئے اس قبضے کی حیثیت وہی ہوگی جو ہبہ اور قبضے میں لی جانے والی تمام اشیاء میں وکالت کی ہے۔ ان میں حق والے کی طرف سے کسی کو وکیل کے طور پر مقرر کیا جائے تو یہ وکالت درست ہوگی اور وکیل اپنے موکل کی طرف سے ان اشیاء کو اپنے قبضے میں لے سکے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اگر عادل آدمی مرتہن کا وکیل ہوتا تو مرتہن کو اختیار ہوتا کہ وہ اس سے رہن لے کر اسے اپنے قبضے میں کرلے اور عادل آدمی اسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ صورت حال اس عادل آدمی کو کیل بننے اور رہن پر قبضہ رکھنے کے حکم سے خارج نہیں کرسکتی۔ اگرچہ اسے اس پر قبضہ رکھنے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دراصل راہن اس چیز پر مرتہن کے قبضے سے رضای نہیں ہوا بلکہ اس کے وکیل کے قبضے سے راضی ہوا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص کسی کی طرف کسی شئی کی خریداری کا وکیل وہتا ہے وہ مئوکل کی طرف سے خریدی ہوئی چیز کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اسے یہ اختیار ہوتا ہے کہ اس نے مئوکل کی طرف سے اس چیز کی اپنی گرہ سے جو قیمت ادا کی ہے اس کی وصولی کے لئے اس چیز کو اپنے پاس رکھ لے۔ اگر وہ چیز وکیل کی طرف سے محبوب ہونے سے قبل ہلاک ہوجائے تو وہ مئوکل کے مال سے ہلاک ہوگئی۔ لیکن بائع اس پر راضی نہیں ہوا جس کی بنا پر یہ ساری صورتحال بدل گئی۔ لیکن رہن کے معاملے میں یہ صورت حال نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ عادل آدمی کا مرتہن کی طرف سے وکیل بن جانا راہن کے حق کے سقوط کو واجب نہیں کرتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ رہن پر مرتہن کے قبضے کے بعد بھی اس پر راہن کا حق باقی رہتا ہے۔ اس طرح عادل آدمی کے قبضے کے بعد بھی اس پر راہن کا حق باقی رہے گا۔ اس لئے عادل آدمی کے قبضے اور مرتہن کے قبضے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے لیکن خرید کی صورت میں اس وجہ سے فرق ہے کہ عادل آدمی جس کے پاس مبیع رکھا دیا گیا ہے، مشتری کا وکیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس صورت میں مبیع کا بائع کی ضمانت سے نکل کر مشتری کی ضمانت میں داخل ہونے کے لحاظ سے وہ مشتری کے قبضے کے معنی میں ہوگا۔ نیز اس کا معنی یہ بھی ہوگا کہ اس مبیع کے سلسلے میں بیع کی تکمیل ہوگئی ہے اور اس پر سے بائع کا حق ساقط ہوگیا ہے جبکہ بائع اس پوری صورت حال پر سرے سے رضا مندی ہی نہیں ہوا۔ یہ بھی جائز نہیں کہ عادل آدمی بائع کے مثل قرار دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عادل آدمی کا اپنے پاس مبیع کو روکے رکھنے کا حق عقد بیع کی بنا پر واجب ہوا ہے۔ اس لئے یہ حق ساقط نہیں ہوگا الا یہ کہ بائع اس مبیع کو مشتری کے حوالے کرنے یا ثمن پر قبضہ کرنے پر رضا مند ہوجائے۔ رہن کی ضمانت کا بیان قول باری ہے (فرھان مقبوضہ فان امن بعضکم بعضاً فلیود الذی اوتمن امانتہ، رہن بالقبض پر معاملہ کرو۔ اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کر دے) اللہ تعالیٰ نے امانت کے ذکر کو رہن پر عطاف کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ رہن امانت نہیں ہے۔ اور جب امانت نہیں ہے تو اس کا تاوان بھرنا پڑے گا۔ اس لئے کہ رہن اگر امانت ہوتا تو اس پر امانت کو عطف نہ کیا جاتا کیونکہ ایک چیز کو اس کی اپنی ذات پر عطف نہیں کیا جاتا ہے بلکہ دوسری چیز پر عطف کیا جاتا ہے۔ رہن کے حکم کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر، ابن ابی لیلیٰ اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ رہن کا تاوان ہوتا ہے۔ یہ تاوان اس کی قیمت اور قرض کی رقم میں سے جو چیز کم ہوگی، اس کی صورت میں ادا کیا جائے گا۔ الثقفی نے عثمن البتی سے یہ نقل کیا ہے کہ اگر رہن سونے، چاندی یا کپڑوں کی صورت میں ہو تو ضائع ہوجانے کی صورت میں اس کا تاوان بھرنا پڑے گا اور جو زائد مقدار ہوگی اسے راہن اور مرتہن آپس میں ایک دوسرے کو لوٹا دیں گے۔ اگر رہن زمین یا جانور کی صورت میں ہو اور پھر ہلاک ہوجائے تو وہ راہن کے مال سے ہلاک ہوگا اور مرتہن کا حق باقی رہے گا، البتہ اگر راہن نے تاوان کی شرط لگائی ہو تو اس کی شرط کے مطابق معاملہ طے ہوگا۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر رہن کی ہلاکت کا علم ہوجائے تو وہ راہن کے مال سے ہلاک ہوگا اور مرتہن کے حق میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ اگر اس کی ہلاکت کا علم نہ ہو سکے تو وہ مرتہن کے مال سے ہلاک ہوگا اور مرتہن اس کی قیمت کا تاوان بھر دے گا۔ راہن سے کہا جائے گا کہ ہلاک شدہ چیز کی تفصیل اور مالیت بیان کرے۔ سا کے بعد اس سے اس بیان کردہ تفصیل اور اس کی مالیت کی سچائی پر حلف لیا جائے گا۔ پھر اس چیز کے متعلق واقفصیت رکھنے والوں سے اس کی قیمت لگوائی جائے گی۔ اگر ان کی لگائی ہوئی قیمت راہن کی بیان کردہ قیمت سے زائد ہوگی تو زائد قیمت راہن کو دے دے جائے گی اور اگر قیمت کم ہوگی تو اس سے اس کی بیان کردہ قیمت پر پھر حلف لیا جائے گا اور قرض کی زائد رقم باطل ہوجائے گی۔ اگر راہن حلف اٹھانے سے انکار کر دے تو اس صورت میں رہن کی قیمت سے جو رقم زائد ہوگی وہ مرتہن کو دے دی جائے گی۔ ابن القاسم نے بھی امام مالک سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ ا س میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ اگر یہ شرط ہو کہ اس کی ہلاکت کی صورت میں مرتہن کے قول کی تصدیق کی جائے گی اور مرتہن پر اس کا تاوان نہیں آئے گا تو یہ شرط باطل ہوگی اور مرتہن کو اس کا تاوان بھرنا پڑے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر گروی شدہ غلام مرجائے تو اس کا قرض باقی رہے گا۔ اس لئے کہ رہن کو بند نہیں کیا جاتا۔ حضور ﷺ کے اس قول (الرھن لایغلق کا ) کا مطلب یہ ہے کہ جب اس کی ہلاکت کا علم ہوجائے تو یہ ہلاکت قرض کی رقم کے بدلے نہیں ہوگی۔ لیکن اگر اس کی ہلاکت کا علم نہ ہو تو اس صورت میں راہن اور مرتہن زائد رقم آپس میں ایک دوسرے کو لوٹا دیں گے۔ اوزاعی نے حضور ﷺ کے اس قول (لہ غنمہ و علیہ غرمہ) کے متعلق کہا کہ پہلے حصے کا معنی یہ ہے کہ اگر رہن کی مالیت قرض کی مالیت سے زائد ہوگی تو زائد رقم راہن کو واپس کردی جائے گی اور دوسرے حصے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی مالیت میں کمی ہوگی تو اتنی رقم راہن سے لے کر مرتہن کر دے دی جائے گی۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ جب رہن ہلاک ہوجائے اور اس کی قیمت میں دونوں کا اختلاف ہوجائے اور قرض کی رقم کی مقدار کے متعلق بھی کوئی ثبوت یعنی گواہی وغیرہ نہ ہ وتو اس کی ہلاکت کو اس قرض میں سے سمجھا جائے گا۔ اگر قرض کی رقم کا ثبوت مل جائے تو راہن اور مرتہن دونوں زائد رقم آپس میں ایک دوسرے کو لوٹا دیں گے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ رہن امانت ہے اس کی ہلاکت کی صورت میں مرتہن پر کسی بھی صورت میں تاوان عائد نہیں ہوگا۔ خواہ اس کی ہلاکت ظاہر ہو یا خفیہ یعنی معلوم ہو یا نامعلوم۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ سلف یعنی صحابہ کرام اور تابعین عظام کا اس پر اتفاق ہے کہ رہن کا تاوان ہوتا ہے۔ اس بارے میں ہمیں کسی کے اختلاف کا علم نہیں ہے۔ البتہ تاوان کی کیفیت کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی سے اس کے متعلق مختلف روایتیں ہیں۔ اسرائیل نے عبدالاعلیٰ سے، انہوں نے محمد بن علی اور انہوں نے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ جب رہن کی قیمت اس قرض کی رقم سے زائد ہو جس کے بدلے رہن رکھا گیا تھا اور پھر رہن ہلاک ہوجائے تو وہ اس قرض کے بدلے ہلاک ہوجائے گا اور رہن کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس لئے کہ مرتہن زائد رقم کا امین ہوتا ہے۔ اس لئے اس پر کوئی تاوان نہیں آئے گا۔ اگر رہن کی قیمت قرض کی رقم سے کم ہو اور وہ ہلاک ہوجائے تو راہن قرض کی باقی ماندہ رقم مرتہن کو واپس کر دے گا۔ عطاء نے عبید بن عمیر نے اور انہوں نے حضرت عمر سے اسی قسم کی روایت کی ہے ابراہیم نخعی کا بھی یہی قول ہے ۔ شعبی نے الحرث کے واسطے سے رہن کے متعلق حضرت علی سے روایت کی ہے کہ اگر رہن ہلاک ہوجائے تو راہن اور مرتہن دونوں قیمت اور قرض کی رقموں میں کمی بیشی کے لحاظ سے ایک دوسرے کو زائدرقم لوٹا دیں گے۔ قتادہ نے خلاس بن عمرو کے واسطے سے حضرت علی سے روایت کی ہے کہ اگر رہن کی قیمت قرض کی رقم سے زائد ہو اور پھر وہ کسی آفت کی وجہ سے ہلاک ہوجائے تو وہ قرض کی رقم کے بدلے ہلاک ہوجائے ہو گا۔ اگر اس کی ہلاکت کا سبب کوئی آفت نہ ہو بلکہ مرتہن پر اس کا اتہام آئے تو مرتہن رہن کی زائد رقم راہن کو واپس کر دے گا۔ حضرت علی سے یہ تین روایتیں ہے۔ ان تینوں میں اس کے قابل ضمانت ہونے کا ذکر آیا ہے لیکن ضمان کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے جس کا ہم نے ذکر کردیا۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ زائد رقم راہن اور مرتہن آپس میں ایک دوسرے کو لوٹا دیں گے۔ قاضی شریح، حسن بصری، طائوس، شعبی اور ابن شبرمہ کا قول ہے کہ رہن کی ہلاکت قرض کی رقم کے بدلے ہوگی۔ شریح نے یہ بھی کہا ہے کہ خواہ وہ لوہے کی اگنوٹھی ہی کیوں نہ ہو جس کی قیمت ایک سو درہم لگائی گئی ہو۔ جب سلف کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ رہن کا تاوان ہے صرف تاوان کی کیفیت کے متعلق اختلاف ہے تو اس صورت میں یہ قول کی رہن امانت ہے اور اس کا تاوان نہیں ہے سلف کے اقوال کے دائرے سے خارج ہے۔ جس سے ان کے اجماع کی مخالفت لازم اتٓی ہے وہ اس طرح کہ جب ان حضرات کا تاوان کے متعلق اتفاق ہوگیا تو گویا تاوان کی نفی کے قول کے بطلا نپر بھی ان کا اتفاق ہوگیا۔ تاوان کی کیفیت کے متعلق ان کے اختلاف اور ضمان پر ان کے یکساں اتفاق سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ ان کے اتفاق سے یہ بات حاصل ہوگئی کہ رہن قابل ضمانت ہے۔ یہ اتفاق ان لوگوں کے قول کے فساد کے متعلق قول فیصل ہے جو رہن کو امانت دیتے ہیں۔ اس سے پہلے رہن کے قابل ضمانت ہونے پر آیت کی دلالت بھی گذر چکی ہے۔ رہن کا تاوان ہے یا رہن قابل ضمانت ہے ۔ اس پر سنت یعنی حضور ﷺ سے منقول روایات کی بھی دلالت ہو رہی ہے عبداللہ بن المبارک نے مصعب بن ثابت ہے سے روایت کی ہے انہوں نے کہا میں نے عطاء بن ابی رباح کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا تھا کہ ایک شخص نے گھوڑا رہن رکھ دیا جو مرتہن کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا حضور ﷺ نے مرتہن یس فرمایا۔ (ذھب حقک) تیرا حق ختم ہوگیا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں (لاشئی لک ، اب تیرے لئے کچھ نہیں) آ پکا مرتہن سے یہ فرمانا گویا اس کے دین کے سقوط کی اطلاع ہے۔ اس لئے کہ مرتہن کا حق وہ قرض ہے جو وہ راہن کو دے چکا ہوتا ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن علی الغنوی اور عبدالوارث بن ابراہیم نے اسماعیل بن ابی امیہ الزارع سے، انہیں حماد بن سلمہ نے قتادہ سے، انہوں نے حضرت انس سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الرھن بمافیہ) ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اسحاق نے، انہیں مسیب بن واضح نے انہیں ابن المبارک نے مصعب بن ثابت سے، انہیں عقلمہ بن مرثد نے محارب بن دثار سے کہ حضور ﷺ نے یہ فصلہ دیا تھا کہ (الرھن بمافیہ) اس فقرے سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا تاوان اس قرض سے ادا ہوگا جس کے بدلے اسے رہن رکھا گیا تھا۔ آپ شریح کے قول کو نہیں دیکھتے کہ ” رہن کی ہلاکت قرض کی پوری رقم کے بدلے ہوگی خواہ یہ رہن لوہے کی انگوٹھی کیوں نہہو۔ “ اسی طرح محارب بن دثار کا قول ہے کہ حضور ﷺ سے اس انگوٹھی کے متعلق مروی ہے جسے قرض کے بدلے رہن رکھ دیا گیا تھا۔ پھر انگوٹھی ضائع ہوگئی تو آپ نے فرمایا (انہ بما فیہ) یعنی قرض کی رقم کے بدلے ضائع ہوئی۔ اس کا ظاہر تو یہ واجب کرتا ہے کہ رہن کے قرض کی رقم کے بدلے ہوگی خواہ قرض کی رقم رہن کی قیمت سے زیادہ ہو یا کم لیکن یہ دلیل موجود ہے کہ اس سے مراد قرض کی رقم کا رہن کی قیمت کے برابر یا اس سے کم ہونا ہے۔ اگر قرض کی رقم اس کی قیمت سے زیادہ ہوگی تو زائد رقم مرتہن کو لوٹا دی جائے گی۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ راہن کی موت کے بعد اس کے دوسرے قرض خواہوں کے مقابلے میں مرتہن رہن کا سب سے بڑھ کر حق دار ہوگا تاکہ اسے فروخت کر کے وہ اپن اقرض وصول کرلے۔ اس اتفاق کے مضمون سے بھی رہن کے قابل ضمانت ہونے پر دلالت ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رہن پر قبضہ قرض کی وصولی قابل ضمانت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ہر وہ چیز جو کسی وجہ کی بنا پر قبضے میں رکھی گئی ہو۔ اس کی ہلاکت بھی اسی وجہ پر سمجھی جائے گی جس کے تحت اسے قبضے میں رکھا گیا تھا۔ مثلاً غصب شدہ چیز اگر ہلاک ہوجائے تو اس کی ہلاکت غصب کی ضمانت اور تاوان پر ہوگی۔ اس طرح فاسد یا جائز بیع کی صورت میں قبضے میں آئی ہوئی چیز یعنی مبیع کی ہلاکت بھی اسی وجہ سے سمجھی جائے گی جس کے تحت اس پر قبضہ ہوا تھا۔ اب چونکہ رہن پر قبضہ قرض کی وصولی کی خاطر ہوتا ہے اور اس کی دلیل ہم نے پہلے بیان کردی ہے تو یہ واجب ہے کہ اس کی ہلاکت بھی اسی وجہ کے تحت ہو اس طرح رہن کی ہلاکت کے ساتھ مرتہن اپنا قرض اسی طریقے سے وصول کرلینے والا قرار دیا جائے جس طریقے سے وصول کرنا جائز ہوتا ہے۔ اگر رہن کی قیمت قرض کی رقم سے کم ہو تو یہ جائز نہیں ہوگا کہ رقم کی مقدار کی وصولی کو اس سے کم پر محمول کیا جائے یعنی قرض کی باقی مرتہن کو واپس کردی جائے گی اور اگر رہن کی قیمت زائد ہو تو مرتہن کے لئے جائز نہیں ہوگا کہ وہ راہن سے اپنے قرض کی رقم سے زائد وصول کرلے اس صورت میں وہ زائد رقم کا امین قرار پائے گا یعنی اس پر اس کے بدلے کوئی تاوان نہیں آئے گا۔ رہن کے قابل ضمانت ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اعیان مثلاً ودیعت ، مضاربت اور شراکت کے بدلے رہن درست نہیں ہوتا اس لئے کہ اگر رہن ہلاک ہوجائے تو مرتہن عین کو وصول نہیں کرسکے گا۔ جبکہ ایسے دیون کے بدلے جو قابل ضمانت ہوں رہن درست ہوتا ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ رہن کا تاوان قرض کے بدلے میں ہوتا ہے اور اس طرح مرتہن رہن کی ہلاکت کے ساتھ اپن اگویا قرض وصول کرے گا۔ اس پر یہ چیز بھی دلالت کر رہی ہے کہ ہم نے کسی اصل میں حق دار کے کسی حق کی بنا پر غیر کی مملوکہ شئی کا حبس نہیں پایا جس کے ساتھ ضمان یعنی تاوان کا تعلق نہ ہو۔ آپ دیکھتے نہیں کہ فروخت شدہ چیز اس وقت تک بائع کی ضمانت میں ہوتی ہے جب تک وہ اسے مشتری کے حوالے نہ کر دے کیونکہ مبیع ثمن کے بدلے بائع کے پاس محبوب ہوتا ہے۔ اسی طرح اجرت پر لی ہوئی چیز اجرت پر لینے والے شخص کے ہاتھ میں محبوس ہوتی ہے۔ اور اس چیز سے حاصل ہونے والے فائدے مستاجر کی ضمانت میں ہوتے ہیں خواہ وہ اسے استعمال کرے یا نہ کرے۔ اس حبس کی وجہ سے مستاجر کے ذمے اجرت کی ادائیگی ہوتی ہے جو کہ منافع کا بدل ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ غیر کی مملوکہ شئی کو محبوب کرلینے کی صورت میں ضمان یعنی تاوان کا اس کے ساتھ ضرور تعلق ہوجاتا ہے۔ امام شافعی نے رہن کو امانت قرار دینے کے لئے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو ابن ابی زویب نے زہری سے انہوں نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لایغلق الرھن من صاحبہ الذی رھنہ، لہ غنمہ وعلیہ غرمہ، رہن ک و اس کے مالک سے بند نہیں کیا جاسکتا جس نے اسے بطور رہن رکھوایا ہے۔ مالک کو اس کا فائدہ ملے گا اور مالک کے ذمے اس کے نقصان کی تلافی ہوگی۔ ) امام شافعی نے فرمایا کہ سعید بن المسیب نے حضرت ابوہریرہ کے واسطے سے اتصال سند کے ساتھ حضور ﷺ سے روایت کی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اتصال سند کے ساتھ حضور ﷺ سے یحییٰ بن ابی انیسہ نے روایت کی ہے اور روایت میں یہ فقرہ ” لہ غنمہ و علیہ غرمہ “ سعید بن المسیب کا کلام ہے۔ جس طرح کہ امام مالک، یونس اور ابن ابی زویب نے زہری سے، انہوں نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ حضو ر ﷺ نے فرمایا (لایغلق الرھن) یونس بن زید نے کہا کہ ابن شہاب زہری نے یہ کہ ا ہے کہ ابن المسیب یہ کہا کرتے تھے کہ ” الرھن لمن ذھنہ لہ غنمہ وعلیہ غرمہ “ رہن اس شخص کا ہوتا ہے جس نے اسے بطور رہن رکھوایا ہے اسے اس کا فائدہ ملے گا اور اس کے ذمے اس کے نقصان کی تلافی ہوگی۔ ) ابن شہاب زہری نے یہ کہہ کر دراصل یہ بتایا ہے کہ در ج بالا فقرہ ابن المسیب کا قول ہے حضور ﷺ کا نہیں۔ اگر ابن المسیب اس فقرے کو حضو ر ﷺ سے روایت کرتے تو ابن شہاب وہ بات نہ کہتے جو درج بالافقرے میں انہوں نے کہی ہے بلکہ وہ اس فقرے کی نسبت حضور ﷺ کی طرف ہی کرتے۔ امام شاعفی نے ” لہ غنمہ وعلیہ غومہ “ سے یہ استدلال کیا ہے کہ حضور ﷺ نے قرض کی رقم سے رہن کی زائد قیمت رہن کے مالک کے لئے واجب کردی اور قیمت میں کمی کی تلافی بھی اس کے ذمے ڈال دی اور قرض کو علیٰ حالہ باقی رکھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے ارشاد (لایغلق الرھن) کے متعلق ابراہیم نخعی اور طائوس دونوں حضرات نے یہ پس منظر باین کیا ہے کہ لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک شخص رہن رکھواتے وقت مرتہن سے کہتا کہ اگر میں فلاں وقت تک مال یعنی قرض کی رقم تمہارے پاس لے آئوں تو ٹھیک ہے ورنہ یہ رہن تمہارا ہوگا۔ اس پر حضور ﷺ نے یہ فرما دیا کہ (لایغلق الرھن، رہن کو بند نہیں کیا جاسکتا۔ ) امام مالک اور سفیان ثوری نے بھی آپ کے ارشاد کا یہی پس منظر بیان کیا ہے۔ ابوعبید نے کہا ہے کہ کلام عرب میں رہن کے ضائع ہونے کی صورت میں یہ فقرہ نہیں کہا جاتا ” قدغلن الرھن “ (رہن کو بند کردیا گیا) بلکہ یہ فقرہ اس وقت کہا جاتا ہے جب مرتہن اپنا حق جتا کر اسے لے جاتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے (لایغلق الرھن) فرما کر اس طریق کار کو باطل قرار دے دیا بعض اہل لغت کا قول ہے کہ ” غلق الرھن “ کا فقرہ اس وقت کہا جاتا ہے جب رہن بغیر کسی شئی یعنی بدل کے ضائع ہوجائے۔ زھیر کا شعر ہے۔ وفارقتک برھن لافکاک لہ یوم الوداع فامسیٰ رھنھا غلقاً اے محبوبہ میں تجھ سے الوداع کے دن ایسا رہن دے کر جدا ہوا جسے کبھی بھی چھڑایا نہیں جاسکتا ۔ اب محبوبہ کے پاس رکھا ہوا رہن بند ہوگیا ہے۔ شاعر کی مراد اس سے یہ ہے کہ محبوبہ اس کا دل بغیر کچھ دیئے اپنے ساتھ لے گئی۔ اعشی کا شعر ہے۔ فھل یمنعنی ارتیاد البلا …… دمن حذر الموت ان یاتین علی رقیب لہ حافظ …… فقل فی امری غلق مرتھن کیا موت کی آمد کا خوف اور خطرہ ملکوں میں چلنے پھرنے سے باز رکھ سکتا ہے مجھ پر اس کی طرف سے ایک محافظ اور نگہبان مقرر ہے۔ اس لئے میرے متعلق بتائو کہ میں ایک ایسا شخص ہوں جسے گروی رکھ دیا گیا ہے اور اس گروہی کو بند کردیا گیا ہے۔ شاعر نے دور سے شعر میں ” فقل فی امری غلق مرتھن “ کہہ کر یہ مراد لیا ہے کہ وہ مرجائے گا اور بغیر کسی چیز کے اس طرح ختم ہوجائے گا گویا کہ وہ تھا ہی نہیں۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد (لایغلق الرھن) دو معنوں پر محمول ہے ایک توبہ کہ اگر رہن بحالہ باقی ہے تو مدت گذر جانے پر قرض کے بدل کے طور پر مرتہن کو اس پر قبضے کا حق نہیں ہوگا اور دوسرا یہ کہ اگر رہن ہلاک ہوجائے تو کسی بدل کے بغیر ہلاک نہیں ہوگا۔ رہ گیا یہ قول کہ ” لہ غتمہ وعلیہ غرمہ “ تو ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ سعید بن المسبب کا قول ہے کہ جسے کسی راوی نے متن حدیث میں شامل کردیا اور بعض نے اسے متن حدیث سے لاگ رکھ کر بیان کردیا کہ یہ ابن المسبب کا قول ہے اور حضور ﷺ سے اس کی نسبت نہیں ہے۔ امام شافعی نے اس تول سے جو مفہوم اخذ کیا ہے کہ راہن کو رہن کی وہ قیمت جو قرض کی رقم سے زائد ہو، ہلاکت کی صورت میں واپس مل جائے گی اور اگر رہن کی قیمت قرض کی رقم سے کم ہوگی تو زائد رقم کی ادائیگی بھی اس کے ذمے ہوگی۔ اس کی تاویل ایسی ہے جو نہ صرف فقہاء کے اقوال کے دائرے سے خارج ہے بلکہ لغت کے اعتبار سے بھی غلط ہے۔ اس لئے کہ اصل لغت میں غرم لزوم کو کہتے ہیں۔ ارشاد باری ہے (ان عذا بھا کان غراماً ، بیشک جہنم کا عذاب ثابت اور لازم ہے) یعنی جہنم کا عذاب ثابت اور لازم ہے۔ غریم اس شخص کو کہتے ہیں جس کے ذمہ قرض کی رقم لگ گئی ہو یعنی مقروض، غریم قرض خواہ کو بھی کہا جاتا ہے اس لئے کہ قرض خواہ کو مقروض کے ساتھ چپک جانے اور مسلسل قرض کی واپسی کے مطالبہ کا حق ہے۔ حضور ﷺ گناہ اور قرض سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے، اس کے متعقل جب آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا (ان الرجل اذا غرم حدث فکذب دود عدفا خلف ) جب کوئی مقروض ہوجاتا ہے تو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔ ) آپ نے عزم کا مفہوم یہ بتادیا کہ یہ آدمی کی طرف سے مسلسل مطالبہ کا نام ہے۔ قبیصہ بن المخارق کی روایت کردہ حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا (ان المسئلۃ لاتحل الامن ثلاث فقر مدقع اونحرم مفظع اودم موجع، دست سوال دراز کرنا تین باتوں کی وجہ سے حلال ہوتا ہے یا تو ایسی تنگ دستی ہو جو انسان کو زمین پر گرا دے یعنی بےبس کر دے یا ایسا قرض ہو جو مقروض کو ذلیل کرا دے یا قتل کی وجہ سے خون بہا کی ادائیگی کے سلسلے میں پیدا ہونے والی پریشان کن صورت ہو) قو ل باری ہے (انما الصدقات للفقراء) تاقول باری (والغارمین) ان سے مراد قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگ ہیں۔ اسی طرح قول باری ہے (انا لمغرمون یعنی ہم سے ہمارے قرضوں کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جائے گا اور ہمارے قرض خواہ ہمارے پیچھے لگ جائیں گے۔ لغنت میں عزم کے اصل معنی یہی ہیں۔ ہمیں ثعلث کے غلام ابو عمر نے ثعلب سے اور انہوں نے ابن الاعرابی سے عزم کے معنی بیان کئے۔ ابوعمر نے کہا کہ جس شخص کا یہ قول ہے کہ مال کی ہلاکت اور اس کے نقصان کا نام عزم ہے۔ اس نے غلط کہا اس لئے کہ وہ فقیر جس کا سارا مال ختم ہوچکا ہے غریم نہیں کہلاتا بلکہ غریم وہ شخص ہے جس پر کسی آدمی کی طرف سے قرض کی ادائیگی کا مسلسل مطالبہ ہو رہا ہو جب بات اس طرح ہے تو پھر جس نے ولیہ غرمہ، کے معانی نقصان کے کئے ہیں وہ غلطی پر ہے۔ اس حدیث کے راوی سعید بن المسبب ہیں اور ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ اس فقرہ ” لہ غنمہ و علیہ غرمہ “ کے قائل وہ خود ہیں لیکن انہوں نے اس کے وہ معنی بیان نہیں کئے جو امام شافعی نے لئے ہیں کیونکہ سعید بن المسیب کا مسلک یہ ہے کہ رہن قابل ضمانت یا ضمانت کے تحت ہے۔ عبدالرحمٰن بن ابی الزناد نے ” کتاب السبعہ “ میں اپنے والد سے، انہوں نے سعید بن المسیب، عروہ، قاسم بن محمد، ابوبکر بن عبدالرحمٰن، خارجہ بن زید، عبید اللہ بن عبداللہ وغیر ھم سے ذکر کیا ہے کہ ان حضرات نے یہ کہا ہے کہ ” الرھن بمافیہ اذا ھلک وعمیت قیمتہ “ (رہن جب ہلاک ہوجائے اور اس کی قیمت کے متعلق پتہ نہ ہ وتو وہ قرض کی رقم کے بدلے ہلاک ہوگا۔ ) ان حضرات میں سے ثقہ لوگوں نے اس قومل کی روایت حضور ﷺ تک پہنچائی ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ سعید بن المسیب کا مسلک رہن کے ضمان کے اثبات میں ہے اس پس منظر میں کسی شخص کے لئے یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ ان کے اس قول ” دعلیہ غرمہ “ سے ضمان کی نفی پر استدلال کرے۔ اگر حضور ﷺ سے اس قول کی روایت درست تسلیم کرلی جائے تو امام شافعی کے مسلک پر یہ واجب ہوگا کہ اس قول سے حضور ﷺ کی مراد کے متعلق راوی کے بیان کردہ معنی کی بنیاد پر فیصلہ کردیا جائے اس لئے کہ امام شافعی اس بات کے قائل ہیں کہ راوی حدیث کے معنی کا زیادہ اور بہتر علم رکھتا ہے۔ اسی اصول کے تحت انہوں نے عمرو بن دینار کے قول کو شاہد اور یمین کے مسئلے میں حجت تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مالی مقدمات کے بارے میں ہے اور غیر مالی مقدمات میں اس پر فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ” حدیث قلتین “ میں راوی ابن جریج کے قول کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ حضور ﷺ نے اس سے ہجر کے علاقے کے قلال یعنی کوزے مراد لئے ہیں۔ اسی طرح حضرت ابن عمر کے مسلک کی بنا پر بائع اور مشتری کے خیار کے مسئلے میں دونوں کی علیحدگی کے متعقل کہا ہے کہ حضور ﷺ کی اس سے مرا جسمانی طور پر ایک دوسرے سے علیحدگی ہے کہ جس کے بعد دونوں کے لئے سودے کو ختم کردینے کا اختیار ختم ہوجاتا ہے اس اصول کی بنا پر امام شافعی پر یہ لازم آت ا ہے کہ اگر وہ حضور ﷺ سے اس فقرے کی روایت کو ثابت مانتے ہیں تو پھر اس سے آپ کی مراد کے متعلق حدیث کے راوی سعید بن المسیب کی تشریح کو قول فیصل تسلیم کرلیں۔ سعید بن المسیب کے قول ” لہ غنمہ “ کے معنی یہ ہیں کہ رہن کی قیمت میں دنی سے بڑھی ہوئی رقم کا حق دار راہن ہے اور ” دعلیہ غرمہ “ کے معنی یہ ہیں کہ راہن پر قر ض کی رقم ہے جس کے بدلے میں رہن رکھا گیا ہے۔ دراصل یہ دونوں فقرے حضور ﷺ کے ارشاد (لایغلق الرھن) کی تفسیر و تشریح ہیں۔ اس لئے کہ لوگوں کا طریقہ تھا کہ قرض کی ادائیگی سے پہلے مدت گذر جانے پر وہ رہن پر مرتہن کی ملکیت کے استحقاق کو لازم کردیتے تھے۔ اس پر آپ نے درج بالا فقرہ فرمایا جس کے معنی یہ ہیں کہ مدت گزر جانے پر مرتہن رہن کا مستحق نہیں ہوگا۔ پھر اس کی تفسیر ان الفاظ میں فرمائی کہ ” لصاحبہ غنمہ “ یعنی رہن کی قیمت میں پائی جانے والی زیادتی راہن کے لئے ہے اور یہ بیان کردیا کہ مرتہن صرف عین رہن کا مستحق ہے اس کی زیادتی اور اضافے کا حق دار نہیں نیز اس کا قرض راہن کے ذمے بحالہ باقی ہے۔” وعلیہ غرمہ “ کا مفہوم یہی ہے۔ جس طرح اس قول ” وعلیہ دینہ “ (اس کے ذمے اس کا فرض ہے) کا فمہوم بھی اس جیسا ہے۔ اس لئے روایت میں کوئی ایسی دلالت نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ رہن ناقابل ضمانت ہوتا ہے بلکہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ رہن قابل ضمانت ہوتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا قول (لایغلق الرھن) سے جب یہ مراد لی جائے کہ رہن چھڑانے کے وقت وہ بحالہ باقی ہو نیز مدت گزرن یکے ساتھ اس پر مرتہن کی ملکیت کے استحقاق کی شرط آپ نے باطل قرار دی ہے تو یہ فقرہ کئی معانی پر مشتمل ہوگا ایک تو یہ کہ فاسد شرطیں رہن کو فاسد نہیں کرسکتیں بلکہ رہن شرط کو باطل کردیتا ہے اور خود جائز ہوجاتا ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے لوگوں کی شرط کو باطل قرار دے کر رہن کو جائز کردیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہبہ اور صدقہ کی طرح قبضہ رہن کی صحت کی شرط ہے پھر فاسد شرطیں اسے فاسد نہیں کرسکتیں اس لئے ضروری ہوگیا کہ ان تمام چیزوں کا حکم بھی یہی ہو جو قبضہ کے بغیر درست نہیں ہوتیں مثلاً ہبہ اور صدقات کی تمام صورتیں یعنی شرطوں سے یہ صورتیں فاسد نہیں ہوتیں عین اور رہن میں مشترک بات یہ ہے کہ ان تمام کی صحت قبضہ کے ساتھ مشروط ہے۔ درج بالا روایت کی اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے ۔ ایسے تمام عقود جن میں تملیک یعنی کسی کو سکی چیز کا مالک بنادینا ہو انہیں آنے والے وقتوں اور شرطوں کے ساتھ معلق نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ روایت میں مذکور رہن کی ملکیت جو مرتہن کو حاصل ہوجاتی ہے وہ مدت کے گذر جانے کے ساتھ مشروط تھی اور یہ ایسی تملیک تھی جو آنے والے وقت کے ساتھ مشروط تھی۔ حضور ﷺ نے تملیک کے لئے اسی طرح کی شرط کو باطل قرار دے دیا اور یہ مثال اس بات کی بنیاد بن گئی کہ تملیک اور برأت کے تمام عقود کو آنے والے وقتوں اور شرطوں کے ساتھ معلق کرنے کی معمانت ہے جسے ” تملیک معلق علی الخطر “ کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” جب کل آ جائے گی تو میں تمہیں اپنا غلام ہبہ کر دوں گا یا تیرے ہاتھ فروخت کر دوں گا یا تم پر میرا جو قرض ہے اس سے میں تمہیں بری کر دوں گا۔ “ تو اس کا یہ کہنا باطل ہوگا۔ پہلے دو فقروں سے نہ ملکیت ثابت ہوگی اور فقرے سے نہ قرض سے برأت لیکن طلاق اور عتاق کی صورتیں درج بالا صورتوں سے مختلف ہیں یعنی انہیں مستقبل کے اوقات اور شرائط کے ساتھ معلق کردینا جائز ہے۔ اس لئے کہ ان صورتوں میں ایسا کرنے کے جواز کے لئے ایک اور اصل اور بنیاد ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے غلام کو مکاتب بنانے کی اپنے قول (وکاتبو ھم ان علمتم فیھم خیراً اور انہیں مکاتب بنادو اگر تمہیں ان میں کوئی بھلائی نظر آئے) میں اجازت دے دی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ آقا غلام سے یہ کہے کہ ” میں تجھے ایک ہزار درہم پر مکاتب بناتا ہوں اگر تو یہ رقم ادا کر دے گا تو تو آزاد ہے۔ اگر ادائیگی نہ کرسکے گا تو تو غلام رہے گا۔ “ اب ظاہر ہے کہ اس آزادی کو مستقبل کی ایک شرط اور وقت کے ساتھ معلق کردیا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے طلاق کے بارے میں فرمایا (فطلقوھن لعدتھن، انہیں ان کی عدت پر طلاق دو ۔ ) اللہ تعالیٰ نے فی الحال طلاق دینے اور اسے سنت طلاق کے وقت کی طرف منسوب کرنے کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا۔ جب اس عقد یعنی مال کے بدلے عتق یا خلع کا ایجاب آقا یا شوہر کے لئے اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ غلام یا بیوی کی طرف سے عتق یاخلع کو قبول کرنے سے پہلے اپنی پیشکش میں واجب کردہ مال وغیرہ سے رجوع نہیں کرسکتے اس صورت میں یہ عتق ایسی صورت کے ساتھ معلق ہوگیا۔ جس کی حیثیت قسموں والی شرطوں جیسی ہے۔ جن میں رجوع کرلینے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ طلاق اور عتاق کو آنے والے اوقات اور شرائط کے ساتھ معلق کردینا جائز ہے۔ ان دونوں میں جو مشترک بات پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ طلاق یا عتاق اگر ایک دفعہ واقع ہوجائے تو پھر اسے فسخ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس تملیک کے جن تمام عقود کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ ان کے انعقاد کے بعد بھی انہیں فسخ کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے انہیں مستقبل کے اوقات اور شرائط کے ساتھ معلق کرنا درست قرار نہیں پایا۔ حضور ﷺ کے ارشاد (لایغلق الرھن) کی ہمارے بیان کردہ معنی پر دلالت کی نظیر وہ روایت ہے جس میں آپ نے بیع منابذہ، بیع ملامسہ اور بیع حصاۃ سے منع فرما دیا ہے بیع کی ان صورتوں پر زمانہ جاہلیت میں لوگ عمل پیرا تھے۔ اگر کوئی شخص فروخت کے لئے رکھی ہوئی چیز یا جانور کو ہاتھ لگا دیتا جسے بیع ملامسہ کہتے ہیں یا اپنے مقابل کی طرف کپڑا پھینک دیتا جو بیع منابذہ ہے یا اس پر ایک کنکری مار دیتا جو بیع حصاۃ کی ایک صورت ہے تو بیع واجب اور لازم ہوجاتی۔ اس طرح ملکیت کے وقوع کا تعلق ایجاب اور قبول کی بجائے کسی اور چیز سے ہوجاتا جسے بائع اور مشتری میں سے ایک سر انجام دیتا۔ حضور ﷺ نے ان تمام صورتوں کو باطل قرار دیا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ تملیک کے تمام عقود اخطار یعنی آنے والے اوقات اور شرائط کے ساتھ معلق نہیں ہوسکتے۔ ہمارے اصحاب نے رہن کے تاوان کے لئے وہ رقم مقرر کی ہے جو اس کی قیمت اور قرض کی مقدار می سے کم ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ رہن پر مرتہن کا قبضہ چونکہ اپنے قرض کی وصولی کے لئے ہوتا ہے تو ضروری ہوگیا کہ اس رقم کا اعتبار کیا جائے جس کے ذریعے قرض کی وصولی درست ہو سکے۔ اب یہ بھی درست نہیں ہے کہ مرتہن اپنی دی ہوئی رقم سے کم وصول کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ دی ہوئی رقم سے زائد وصول کرے اس لئے اگر رہن کی قیمت کم ہوگی اور قرض زیادہ ہوگا تو وہ قرض کی زائد رقم راہن سے رکھوالے گا اور اگر صورت اس کے برعکس ہوگی تو وہ زائد رقم کا امین قرار پائے گا۔ جس شخص نے رہن کی ہلاکت کو پورے قرضے کی رقم کے بدلے ہلاکت قرار دیا ہے۔ خواہ رہن کی قیمت قرض کی رقم سے کم ہو یا زائد اور اسے بائع کے ہاتھ میں مبیع کی ہلاکت کے مشابہ قرار دیا ہے جس میں مبیع کی ہلاکت ثمن کے مقابلے میں ہوتی ہے خواہ مبیع کی اصل قیمت ثمن کی مقدار سے کم ہو یا زیادہ اور دلیل یہ دی ہے کہ ان دونوں میں مشترک بات اور علت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک یعنی رہن اور مبیع ایک قرض کی رقم کے بدلے محبوب ہوتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ بات ایسی نہیں ہے۔ اس لئے کہ مبیع کی ضمانت اور تاوان کی بات صرف ثمن کی حد تک محدود ہوتی ہے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ اس لئے کہ مبیع کی ہلاکت پر بیع ٹوٹ جاتی ہے اور ثمن ساقط ہوجاتا ہے کیونکہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ بیع ٹوٹ جائے اور ثمن بحالہ باقی رہے۔ لیکن جہاں تک رہن کا معاملہ ہے تو اس کی ہلاکت کے ساتھ عقد رہن مکمل ہوجاتا ہے اور ٹوٹتا نہیں اور دوسری طرف مرتہن کو اس کے قرض کی وصولی بھی ہوجاتی ہے۔ اس لئے ہماری بیان کردہ دلیل کی بنا پر رہن کے ضمان کا اعتبار واجب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرض سے زائد رقم اگر مرتہن کے ہاتھ میں امانت ہوسکتی ہے تو رہن کی پوری قیمت کیوں نہیں امانت ہوسکتی اور یہ کہ زائد رقم میں امانت کے معنی کے وجود کی بنا پر جس میں تاوان نہیں ہوتا مرتہن کی طرف سے اپنے قرض کی وصولی کے لئے رہن کو اپنے قبضے میں رکھنا اس کے تاوان کا موجب قرار نہ دیا جائے۔ اسی طرح رہن میں رکھی گئی عورت کے ہاں اگر رہن میں رکھے جانے کے بعد کوئی بچہ پیدا ہوجائے تو وہ بھی مرتہن کے ہاتھ میں اپنی ماں کے ساتھ محبوس ہوگا لیکن اگر وہ مرجائے تو اس کی موت کا کسی کو تاوان بھرنا نہیں پڑے گا۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مرتہن کے ہاتھ میں اس کا محبوب ہونا اس کے مضمون ہونے یعنی اس کے تاوان کی ادائیگی کی علت قرار نہیں پایا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ رہن کی قیمت سے قرض کی زائد رقم اور رہن رکھی ہوئی عورت کا بچہ یہ دونوں اپنے اپنے اصل کے تابع ہوتے ہیں اور انہیں اپنے اصل سے علیحدہ کرنا جائز نہیں ہوتا بشرطیکہ انہیں عقد میں تابع کی حیثیت سے داخل کرلیا گیا ہو۔ جب یہ بات طے ہوگئی تو اب ان پر اصلاً ضمان کا حکم لگانا درست نہیں ہوگا کیونکہ بچے کی پیدائش سے پہلے طے پا جانے والے عقد کی وجہ سے بچے پر اصلاً ضمانت کا حکم لگانا ناممکن ہے اور عقد میں بالتبع داخل ہونے اولی شے کا وہ حکم نہیں ہوتا جو اصلاً داخل ہونے والی چیز کا ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ام ولد کا بچہ بالتبع ماں کے حکم میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کے لئے بھی استیلاد کا حق ثابت ہوجاتا ہے لیکن اگر اس بچے کے لئے اصلاً اور ماں سے جدا کر کے یہ حق ثابت کیا جائے تو یہ صحیح نہیں ہوگا اسی طرح ایسی لونڈی جسے مکاتب بنادیا گیا ہو اور کتابت کے وقت اسے حمل ہو تو پیدا ہونے والا بچہ بھی بالتبع عقد کتابت میں داخل ہوجائے گا۔ اگر حمل کی حالت میں اس بچے کو اصلاً عقد کتابت میں داخل کیا جاتا تو یہ بات درست نہ ہوتی۔ ٹھیک اسی طرح قرض سے رہن کی قیمت کی زائد رقم اور رہن رکھی ہوئی عورت کا بچہ چونکہ عقد رہن میں بالتبع داخل ہوتے ہیں اس لئے یہ لازم نہیں ہوگا کہ ان کا حکم بھی وہی ہوجائے جو اصل کا حکم ہے اور نہ ہی یہ حکم انہیں اس حیثیت سے لاحق ہوگا کہ ان پر عقد کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس پر یہ صورت بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک اونٹنی قربانی کے جانور کے طور پر اپنے ساتھ مکہ معظمہ لے چلا۔ اونٹنی موٹی ہوگئی یا اس کا بچہ پیدا ہوگیا تو اس شخص پر یہ لازم ہوگا کہ وہ انٹنی کو اس کے جسمانی اضافے اور بچے کے ساتھ لیتا جائے اگر آگے چل کر اس کی فربہی ختم ہوجائے یا بچہ ہلاک ہوجائے تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی جو چیز اس پر پہلے سے لازم ہے یعنی دی کو مکہ معظمہ تک لے جانا وہی لازم رہے گی۔ اسی طرح اگر اس پر درمیانے درجے کا جانور لازم ہو لیکن وہ چنا وہا موٹا اور فربہ جانور بطور ہدی لے چلے تو اس سے زائد مقدار کا حکم اسی وقت تک ثابت رہے گا جب تک اصل باقی ہے۔ اگر ذبح ہونے سے پہلے اصل ہلاک ہوگیا تو اس سے زائد مقدار کا حکم باطل ہوجائے گا اور اس پر وہی حکم واپس آ جائے گا جو پہلے تھا یعنی درمیانے درجے کے جانور کی قربانی۔ اسی طرح اگر اضافہ یعنی جسمانی فربہی کی جگہ اس جانور سے پیدا ہونے والا بچہ ہوتا تو اس کا بھی یہی حکم ہوتا۔ ٹھیک اسی طرح رہن شدہ عورت کا بچہ اور قرض کی مقدار سے رہن کی قیمت کی زائد رقم ان دونوں کا بھی یہی حکم ہے کہ جب تک اصل موجود ہیں ان کا حکم بھی باقی رہے گا اور جب اصل ہلاک ہوجائیں گے تو ان کا حکم ساقط ہوجائے گا۔ واللہ اعلم ! رہن سے فائدہ اٹھانے کے متعلق فقہاء کے اختلاف کا ذکر امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، حسن بن زیاد اور زفر کا قول ہے کہ رہن شدہ چیز سے نہ تو مرتہن ہی کسی قسم کا کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی راہن۔ ان حضرات کا قول ہے کہ اگر مرتہن نے راہن کی یاراہن نے مرتہن کی اجازت سے رہن کو اجرت پردے دیا تو وہ رہن کے حکم سے خارج ہوجائے گا اور اس حکم میں واپس نہیں آئے گا۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ جب مرتہن راہن کی اجازت سے اسے اجرت پردے دے تو بحالہ رہن رہے گا اور آمدنی ہوگی تو مرتہن کی ہوگی تاکہ اس کے ذریعے اس کا حق ادا ہو سکے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ جب مرتہن رہن اور راہن کے درمیان سے ہٹ جائے کہ مکان کی صورت میں رہن اسے کرایہ پردے دے یا کسی کو لا کر وہاں بسا دے یا کسی کو عاریت کے طور پردے دے تو اب وہ رہن نہیں رہے گا لیکن اگر مرتہن راہن کی اجازت سے اسے کرایہ یا اجرت پردے دے تو وہ رہن کے حکم سے خارج نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر راہن کی اجازت سے مرتہن اسے عاریت کے طور پر کسی کو دے دے تو وہ رہن کے حکم سے خارج نہیں ہوگا ۔ اگر راہن کی اجازت سے مرتہن اسے کرایہ پردے دے تو زمین کا کرایہ مالک یعنی ساہن کو ملے گا اور یہ کرایہ اس کے لئے حق رہن نہیں بنے گا۔ البتہ مرتہن اس کی شرط لگا دے تو پھر کرایہ بھی رہن بن جائے گا۔ اگر بیع میں رہن رکھنے اور کرایہ میں اپنا حق وصول کرنے کی شرط لگائی گئی ہو تو یہ صورت امام مالک کے نزدیک مکروہ ہے لیکن اگر عقد بیع میں یہ شرط نہ ہو اور ربیع کے بعد راہن از راہ نیکی ایسا کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اگر بیع اس شرط پر ایک متعین مدت کے لئے کی جائے یا بائع اس میں رہن کو فروخت کرنے کی شرط لگا دے تاکہ اپنا حصہ وصول کرسکے تو امام مالک کے نزدیک مکانات اور اراضی کی صورت میں یہ بات جائز ہوگی البتہ جانور کی صورت میں یہ مکروہ ہوگی۔ المعانی نے سفیان ثوری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے رہن شدہ چیز سے کسی قسم کے انتفاع کو مکروہ سمجھا ہے حتیٰ کہ رہن شدہ قرآن مجید کے نسخے سے تلاوت بھی نہیں کرسکتا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ رہن کی آمدنی اس کے مالک کی ہوگی اور اس میں سے وہ رہن پر خرچ کرے گا۔ بچ رہنے والا حصہ اس کا ہوگا اگر رہن سے کوئی آمدنی نہ ہو اور اس کا مالک اس سے خدمت لیتا ہو تو وہ اسے اس خدمت کے عوض کھانا دے گا۔ اگر اس سے خدمت نہ لیتا تو اس کے اخراجات مالک کے ذمے ہوں گے۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ رہن کو کام پر نہیں لگایا جائے گا اور نہ اس سے کوئی فائدہ اٹھایا جائے گا۔ البتہ اگر کوئی مکان رن میں رکھ دیا جائے اور اس کے اجڑنے اور بےآباد ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے تو اس میں مرتہن اس سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے نہیں بلکہ اسے درست حالت میں رکھنے کی نیت سے وہاں سکونت اختیار کرسکتا ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ مرتہن اگر رہن میں رکھی ہوئی انگوٹھی زیب و زینت کی نیت سے پہن لے گا تو اسے تاوان بھرنا پڑے گا لیکن اگر اسے حفاظت کی غرض سے پہن لے گا تو اس پر کوئی تاوان عائد نہیں ہوگا لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر رہن شدہ غلام کو اس کی غذا کے بدلے کا م پر لگایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ خرچ کام کی مقدار کے برابر ہو۔ اگر کام خرچ سے زیادہ ہو تو مرتہن سے زائد مقدار وصول کی جائے گی۔ المزنی نے امام شافعی سے حضور ﷺ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ (الرھن محلوب ومرکوب، رہن کا دودھ نکالا جاسکتا ہے اور اس پر سواری بھی کی جاسکتی ہے) یعنی جس شخص نے سواری کا یا دودھ والا جانور رہن رکھ دیا ہو تو راہن کو اس پر سوار ہونے اور اس کا دودھ حاصل کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔ راہن کے لئے رہن شدہ غلام سے خدمت لینا دودھ والے جانور سے دودھ حاصل کرنا اور سواری کے جانور پر سواری کرنا جائز ہے۔ وہ رہن شدہ بھیڑوں کا اون بھی حاصل کرسکتا ہے۔ رہن کو رات گذارنے کے لئے مرتہن کے پاس یا اس شخص کے پاس چھوڑ دے گا جس کے ہاتھوں میں دونوں یعنی راہن اور مرتہن نے اسے دے دیا ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب (فرھان مقبوضۃ) فرمایا اور قبضے کو رہن کی ایک خصوصیت قرار دیا تو گویا یہ واجب کردیا کہ قبضے کا استحقاق عقد رہن کے ابطال کا موجب ہے اس لئے جب راہن یا مرتہن میں سے کوئی بھی دوسرے ساتھی کی اجازت سے اسے اجرت پر کسی کے حوالے کر دے گا تو رہن شدہ چیز رہن کے حکم سے نکل جائے گی کیونکہ اس صورت میں مستاجر اس قبضے کا مستحق ہوجائے گا جس کی بنا پر عقد رہن درست ہوتا ہے۔ تاہم عاریت کی صورت میں ہمارے نزدیک یہ بات پیدا نہیں ہوتی کیونکہ عاریت قبضے کے استحقاق کی موجب نہیں ہے اس لئے کہ عاریت کے طور پر کوئی چیز دینے والا شخص اس چیز کو جب چاہے اپنے قبضے میں لوٹا سکتا ہے جن لوگوں نے رہن کو اجرت پر دینے اور اس سے فائدہ اٹھانے کو جائز قرار دیا ہے۔ ان کا استدلال اس روایت سے ہے جسے ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابو دائود نے انہیں ھناد نے ابن المبارک سے، انہوں نے زکریا سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے ، انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا۔ (لبن الدریحلب بنفقتہ اذا کان مرھونا والظھر یرکب بنفقتہ اذاکان مرھونا وعلی الذی یرکب ویحلب النفقۃ ، دودھ دینے والا جانور اگر رہن شدہ ہو تو اس کے اخراجات کے بدلے اس سے دودھ نکالا جائے گا، سواری کا جانور اگر رہن شدہ ہو تو اس کے اخراجات کے بدلے اس پر سواری کی جائے گی۔ دودھ نکالنے اور سواری کرنے والے پر ان جانوروں کے اخراجات کی ذمہ داری ہوگی۔ اس حدیث میں یہ ذکر ہوا کہ اخراجات کا وجوب اس پر سواری کرنے اور اس کا دودھ نکالنے کی بنا پر ہے جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ راہن پر رہن کے اخراجات کا وجوب اس کی ملکیت کی بنا پر ہے سواری کرنے یا دودھ نکالنے کی بن اپر نہیں۔ اس لئے کہ اگر رہن ایسی چیز ہوتی جس کا دودھ نہ نکالا جاسکتا یا جس پر سواری نہ ہوسکتی تو اس صورت میں بھی راہن پر اس کا نفقہ واجب ہوتا ۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس سے مراد یہ بات ہے کہ دودھ نکالنے اور سواری کرنے کا حق مرتہن کو اس نفقہ کے بدلے ہے جو وہ رہن پر کرتا ہے۔ یہ بات ہشیم نے اپنی روایت میں بیان کی ہے۔ انہوں نے زکریا بن ابی زائدہ سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روای ت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ (اذا کانت الدابۃ مرھونۃ فعلی الموتھن علفھاولبن الدریشرب و علی الذی یشرب نفق تھا ویرکب، جب کوئی جانور رہن میں رکھ دیا جائے تو اس کا چارہ مرتہن کے ذمے ہوگا۔ دودھ دینے والے جانور کا دودھ استعمال کیا جائے گا اور دودھ استعمال کرنے والے اور سواری کرنے والے پر اس جانور کے اخراجات کی ذمہ داری ہوگی۔ ) اس روایت میں یہ بیان ہوا کہ مرتہن کے ذمے رہن شدہ جانور کا نفقہ ہوگا اور اس کے دودھ اور اس پر سواری کا حق اسے حاصل ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اس کا نفقہ راہن پر ہوگا مرتہن پر نہیں ہوگا۔ اس لئے یہ روایت امام شافعی کے خلاف حجت ہے نہ کہ ان کے حق میں ۔ حسن بن صالح نے اسماعیل بن ابی خالد سے اور انہوں نے شعبی سے نقل کیا ہے کہ رہن سے کسی قسم کا فائدہ اٹھایا نہیں جاسکتا۔ اس طرح شعبی نے درج بالا روایت کو چھوڑ دیا حالانکہ وہ حضرت ابوہریرہ کی روایت کردہ حدیث ہے۔ یہ چیز دو باتوں میں سے ایک پر دلالت کرتی ہے یا تو یہ حدیث اصل میں حضور ﷺ سے ثابت ہی نہیں ہے یا شعبی کے نزدیک یہ منسوخ ہوچکی ہے۔ اس حدیث کے متعلق ہماری بھی یہی رائے ہے۔ اس لئے کہ حدیث میں مذکور جیسی باتیں سود کی تحریم سے پہلے جائز تھیں۔ پھر جب سود کی حرمت نازل ہوئی اور معاملات اور اشیاء کو ان کی اصلی حالتوں کی طرف لوٹا دی اگیا (یعنی لوگوں کے معمولات اور پیش آمدہ باتوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صحیح خطوط پر استوار کردیا گیا۔ ) تو ایسی باتیں منسوخ ہوگئیں آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ نے نفقہ کو دودھ کا بدل قرار دیا خواہ یہ دودھ تھوڑا ہو یا زیادہ۔ اس کی مثال وہ روایت ہے جو مصراۃ (جس جانور کے تھنوں کو خریدار کے سامنے بڑا دکھانے کے لئے اس کا دودھ اس کے تھنوں میں رہنے دیا گیا ہو) کے متعلق مروی ہے کہ خریدار اس جانور کو واپس کر دے گا اور اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے گا۔ اس میں دودھ کی اس مقدار کا اعتبار نہیں کیا گیا جو خریدار نے اس جانور سے حاصل کیا تھا۔ سود کی تحریم کے ساتھ یہ حکم بھی ہمارے نزدیک منسوخ ہوچکا ہے۔ جو لوگ راہن کے لئے مرہون جانور کی سواری اور دودھ کے ایجاب کے قائل ہیں ان کے بطلان پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قبضہ کو رہن کی اس طرح صفت اور خصوصیت قرار دی جس طرح عدالت کو گواہی کی صفت اور خصوصیت قرار دی۔ ارشاد ہوا (اثنان ذوا عدل منکم) نیز (ممن ترضون من الشھدآء) اور یہ معلوم ہے کہ گواہی سے صفت عدالت کا زائل ہوجانا گواہی کے جواز کو مانع ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (فرھان مقبوضۃ) سے رہن کی صفت اور خصوصیت بیان کردی کہ وہ قبضے میں ہو تو پھر اس صفت کے عدم وجود پر یعنی رہن پر کسی اور کے قبضے کے استحقاق کی صورت میں عقد رہن کا ابطال واجب ہوگا۔ اس لئے اگر راہن اس قبضے کا مستحق قرار پائے جس کی وجہ سے عقد رہن درست ہوتا ہے۔ تو یہ چیز ابتداء ہی سے اس عقد کی صحت کے مانع ہوجائے گی۔ اس لئے کہ عقد کے ساتھ ساتھ اسے باطل کرنے والی چیز بھی موجود تھی۔ اگر عقد رہن ابتدائی طور پر درست ہوجائے تو پھر یہ ضروری ہوگا کہ اس پر قبضہ کے استحقاق اور اسے راہن کی طرف لوٹا دینے کے وجوب کی بنا پر یہ باطل ہوجائے۔ نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ راہن کو اپنی اس لونڈی سے ہمبستری کی ممانعت کردی جائے گی جسے اس نے رہن رکھ دیا ہو حالانکہ ہمبستری اس مرہونہ لونڈی کے منافع میں سے ایک منفعت ہے تو اس سے یہ واجب تمام منافع کا یہی حکم ہو کہ راہن کا ان سے فائدہ اٹھانے کا حق باطل ہوجاتا ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ راہن کو اس لونڈی سے ہمبستری کا اس لئے حق نہیں رہا کہ مرتہن کو اس پر اپنا قبضہ رکھنے کا حق حاصل ہے۔ یہی صورت است خدام کی ہے (یعنی رہن رکھے ہوئے غلام وغیرہ سے راہن خدمت لینا چاہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ ) اگر کسی نے عقد رہن میں مدت کے خاتمے پر قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں رہن پر مرتہن کی ملکیت کی شرط عائد کردی تو اس کے حکم کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس کوئی رہن رکھ کر یہ کہے کہ اگر میں ایک ماہ تک رقم لا دوں تو ٹھیک ہے ورنہ یہ بیع ہوگی، تو اس صورت میں رہن جائز ہوگا اور شرط باطل ہوگی۔ امام مالک کا قول ہے کہ رہن فاسد ہوگا اور یہ عقد توڑ دیا جائے گا۔ اگر توڑا نہ جائے یہاں تک کہ مدت کا اختتام آ جائے تو رہن اس شرط ک بنا پر مرتہن کا نہیں ہوگا۔ البتہ مرتہن کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے حق یعنی قرض کے بدلے اسے اپنے پاس روکے رکھے۔ وہ راہن کے دوسرے قرض خواہوں کے مقابلے میں اس کا سب سے بڑھ کر حق دار ہوگا۔ اگر رہن اس کے پاس پڑے پڑے خراب ہوجائے تو وہ اسے واپس نہیں کرے گا بلکہ اسکی قیمت اس پر لازم آئے گی یعنی اس کی وہ قیمت جو مدت کے اختتام کے دن ہو ۔ یہ حکم جانوروں اور سامان تجارت کا ہے لیکن مکانات اور اراضی کا حکم یہ ہے کہ انہیں مرتہن راہن کو واپس کر دے گا خواہ مدت کتنی طویل کیوں نہ ہوجائے۔ البتہ اگر مکان گرجائے یا مرتہن اس میں کچھ اور تعمیر کرلے یا زمین میں پودے لگا دے تو یہ حد سے تجاوز ہوگا اور مرتہن اس کی قیمت بھر دے گا۔ المعافی نے سفیان ثوری سے اس شخص کے متعلق نقل کیا ہے جو ایک مشترک چیز کو جس میں حصہ داروں کے حصوں کا تعین نہ ہوا ہو اپنے شریک کے پاس رہنے رکھ کر یہ کہتا ہے کہ اگر میں تمہارے پاس نہ آئوں تو یہ چیز تمہاری ہوگی۔ سفیان کہتے ہیں کہ ایسے رہن کو بند نہیں کیا جائے گا۔ سفیان کے اس قول پر حسن بن صالح نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا یہ قول بےمعنی ہے۔ الربیع نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اگر ایک شخص کسی کے پاس رہن رکھ کر یہ شرط لگا دیتا ہے کہ اگر وہ قرض کی رقم فلاں مدت تک نہیں لائے گا تو یہ رہن بیع بن جائے گی تو اس صورت میں رہن فاسد ہوگا اور یہ رہن اس کے مالک کا ہوگا جس نے اسے رہن رکھوایا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ تمام کا اس پر اتفاق ہے کہ مرتہن مدت گزر جانے پر رہن کا مالک نہیں ہوگا اختلاف صرف رہن کے جواز اور فساد کے متعلق ہے۔ ہم نے سابقہ سطور میں بیان کردیا ہے کہ حضور ﷺ کے ارشاد (لایغلق الرھن) کا مطلب یہ ہے کہ راہن اور مرتہن کی مقرر کردہ شرط کی بنیاد پر مدت گذرنے پر مرتہن رہن کا مالک نہیں ہوگا۔ حضور ﷺ نے رہن کو اس صورت میں بند کردینے کی نفی کردی ہے لیکن اس مشروط رہن کی صحت کی نفی نہیں فرمائی ہے جو رہن کے جواز اور شرط کے بطلان پر دلالت کرتی ہے ۔ قیاساً یہ صورت عمریٰ (مکان یا زمین جو زندگی بھر کے لئے کسی کو دے دی جائے) کی صورت کی طرح ہے جس میں حضور ﷺ نے عمر بھر کی شرط کو باطل قرار دے کر اس میں ہبہ کی صورت کو جائز قرار دیا تھا۔ ان دونوں صورتوں میں مشترک بات یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک قبضے کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ اگر قرض کی مقدار میں راہن اور مرتہن کے درمیان اختلاف ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہے ۔ اس کے متعلق فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے، امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محم، زفر اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ رہن ہلاک ہونے کی صورت میں دین کی مقدار کے متعلق اگر راہن اور مرتہن کے درمیان اختلاہوجائے تو دین کی مقدار کے متعلق راہن کا قول معتبر ہوگا۔ لیکن اسے اس کے لئے قسم اٹھانی پڑے گی۔ حسن بن صالح، امام شافعی، ابراہیم نخعی اور عثمان البتی کا بھی یہی قول ہے ۔ طائوس کا قول ہے کہ رہن کی قیمت کی مقدار میں دین کے متعلق مرتہن کے قول کی تصدیق کی جائے گی اور اس سے اس کے متعلق حلف لیا جائے گا۔ یہی حسن بصری، قتادہ اور الحکم کا قول ہے۔ ایاس بن معاویہ کا اس بارے میں جو قول ہے وہ ان دونوں اقوال کے بین بین ہے۔ وہ یہ کہ اگر راہن کے پاس رہن رکھنے کے متعلق کوئی ثبوت گواہی وغیرہ کی شک ل میں ہو تو پھر راہن کا قول معتبر ہوگا اور اگر ثبوت نہ ہو تو مرتہن کا قول معتبر ہوگا۔ اس لئے مرتہن اگر چاہتا رہن رکھنے کے بارے میں صاف انکار کردیتا لکین جب اس نے اپنی ذات پر ایک چیز یعنی رہن کا اقرار کرلیا اور اس کے خلاف ثبوت بصورت گواہی وغیرہ نہیں ہے تو پھر اختلاف کی صورت میں کا اس کا قول معتبر ہوگا۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ اگر راہن اور مرتہن دین اور رہن دونوں باتوں میں اختلاف کا شکار ہوجائیں اور رہن موجود ہو تو اس صورت میں اگر رہن مرتہن کے حق کی مقدار کے مساوی ہوگا تو مرتہن اسے لے لے گا اس پر اس کا حق سب سے بڑھ کر ہوگا اور قسم بھی کھائے گا۔ آیت 282 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت میں ملاحظہ فرمائیں۔
Top