Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 285
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ١۫ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ١۫ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ۗ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ
اٰمَنَ : مان لیا الرَّسُوْلُ : رسول بِمَآ : جو کچھ اُنْزِلَ : اترا اِلَيْهِ : اس کی طرف مِنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) كُلٌّ : سب اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَلٰٓئِكَتِهٖ : اور اس کے فرشتے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابیں وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول لَا نُفَرِّقُ : نہیں ہم فرق کرتے بَيْنَ : درمیان اَحَدٍ : کسی ایک مِّنْ رُّسُلِهٖ : اس کے رسول کے وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی غُفْرَانَكَ : تیری بخشش رَبَّنَا : ہمارے رب وَاِلَيْكَ : اور تیری طرف الْمَصِيْرُ : لوٹ کر جانا
رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے ، جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے ۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں ، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کیا ہے ۔ وہ سب اللہ اور فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ۔ “ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک ، ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ “
درس 22 ایک نظر میں یہ سبق اس عظیم سورت کا اختتامیہ ۔ یہ قرآن کریم کی طویل ترین سورت ہے ۔ اور اس کی تعبیرات بھی اپنے اندر ایک بڑا حجم رکھتی ہیں ۔ اس سورت کے اس حجم اور طوالت کے اندر اسلامی تصور حیات کے ایک بڑے حصے کو سمودیا گیا ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ ، اسلامی جماعت کی مختلف صفات ، اس کے فرائض ، اس کے طریقہ کار اور اس کرہ ارض پر مختلف امور کے بارے میں اس کی پالیسیوں کے بارے میں پوری تفصیلات اس سورت میں موجود ہیں ۔ اس پوری کائنات میں امت مسلمہ کا کیا کردار ہے ؟ اسلامی نظام زندگی کے مخالفین ، مقابلین اور دشمنان کے بارے میں اس کا کیا موقف ہے ؟ ان دشمنان کا مزاج کیا ہے اور اسلامی نظام کی محاربت میں ان کے وسائل کیا ہیں ؟ نیز اسلامی جماعت ان کے مقابلے میں کیا وسائل وذرائع اختیار کررہی ہے ۔ اور ان کی سازشوں کا مقابلہ کن ذرائع سے کررہی ہے ۔ ان امور کے علاوہ اس سورت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مجموعی لحاظ سے خود حضرت انسان کا اس کرہ ارض پر کیا کردار مقرر کیا گیا ہے ؟ انسان کی فطرت کیا ہے ؟ اور انسانی تاریخ میں انسان کیا سے کیا کو تاہیاں اور لغزشیں ہوئی ہیں ۔ تاریخی قصص پیش کرکے ان کی وضاحت کی گئی ہے ۔ غرض یہ اور وہ تمام دوسری باتیں جن کی تفصیلات اس طویل سورت میں بیان کی گئیں ۔ یہ سبق اس طویل سورت کا اختتامیہ ہے اور صرف دو آیات میں لیکن ان دو آیات میں ان تمام مضامین اور افکار کو سمودیا گیا ہے ۔ جو اس طویل ترین سورت میں زیر بحث آئے ۔ یہ آیات فی الواقع سورت کا ایک اچھا اختتامیہ ہیں جو اس پوری سورت کے ساتھ ہم آہنگ ، متناسب اور اس سورت کے مقاصد اور اس کے اندر پائی جانے والی واقعاتی فضاء کے ساتھ مناسب ہیں ۔ اس سورت کا آغاز ان الفاظ ان الفاظ سے ہوا تھا ۔” لاف ، لام ، میم ، یہ اللہ کی کتاب ہے۔ “ اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ہدایت ہے ان پرہیز گاروں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں ۔ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ “ ان الفاظ میں اس حقیقت کی طرف واضح اشارات دئیے گئے ہیں کہ اہل ایمان تمام رسولوں اور تمام کتابوں پر ایمان لاتے ہیں ۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے ۔ اب ذرا اس اختتامیہ کے الفاظ پر غور کریں ۔ اور رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے ۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں ۔ انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ” ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ۔ “ غرض یہ ایک ایسا اختتامیہ ہے جس طرح کتاب کے کور کے دوحصے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس سورت میں امت مسلمہ کے فرائض کا بڑا حصہ بیان کیا گیا ہے ۔ اور زندگی کے مختلف میدانوں میں اسلامی قوانین کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جس طرح اپنے فرائض کو نظر انداز کیا اور جس طرح انہوں نے شریعت خداوندی سے روگردانیاں کیں ان کا بھی تفصیلاً ذکر کیا گیا ۔ چناچہ اختتامیہ میں یہ آیات صاف بتادیتی ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور شریعت کی اطاعت کس طرح ہوتی ہے اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی اور شریعت سے نافرمانیاں کیوں کر جاتی ہیں ۔ اور کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ پر کوئی مصیبت ڈالنا نہیں چاہتے ۔ نہ اس پر کوئی بھاری بوجھ لادنا چاہتے ہیں ۔ نہ اللہ تعالیٰ کو امت مسلمہ سے کوئی خاص دوستی ہے ۔ جس طرح یہود ونصاریٰ یہ سمجھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص محبوبین میں سے ہیں۔ اور نہ یہ صورت حال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو نظر انداز کردیا ہے ۔ بلکہ صورت احوال یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے ، اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے ، اس کا وبال اسی پر ہے ۔ “ اس سورت میں بنی اسرائیل کے قصے بھی بیان کئے گئے ہیں ۔ وہ حالات بھی بیان کئے گئے ہیں جن میں بڑے مشکل وقت اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر اپنا فضل وکرم کیا اور اس کا انکار اور ناشکری کا تذکرہ بھی ہوا ہے ۔ جو ان انعامات کے مقابلے میں انہوں نے کی ۔ پھر وہ سزائیں بھی مذکور ہیں ۔ جو اللہ تعالیٰ نے بطور کفارہ ناشکری انہیں دیں اور یہ سزائیں سزائے موت تک تھیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ................” تو اپنے باری تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ “ ایسے ہی حالات کے بارے میں اسی سورت کے اختتام پر اہل ایمان کو دعا سکھائی جاتی ہے کہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ ایسے حالات سے پناہ مانگیں جو بنی اسرائیل کو پیش آئے ۔ فرماتے ہیں ۔” اے ایمان والو ، یوں دعا کرو “ اے ہمارے رب ، ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ، ان پر گرفت نہ کر ، مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال ، جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ پروردگار ! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے وہ ہم پر نہ رکھ ، ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگزر فرما ، ہم پر رحم کر۔ “ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین پر قتال فی سبیل اللہ فرض کیا تھا ۔ اور انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور اپنا مال اس کی راہ میں خرچ کریں تاکہ کفار اور کفر دونوں کا دفاع کیا جاسکے ۔ چناچہ سورت کے آخر میں اس دعا میں وہ ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اللہ کی امداد چاہتے ہیں ۔ دشمن کے مقابلے میں اللہ کی نصرت کے طلبگار ہوتے ہیں ۔” تو ہمارا مولیٰ ہے ، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ “ غرض یہ اس پوری سورت کا اختتامیہ ہے ۔ اس میں مضامین سورت کا خلاصہ بصورت اشارات دیا گیا ہے ۔ جو پوری سورت کے اصل خطوط کے ساتھ متناسب اور متوازی ہے ۔ پھر ان دونوں آیات پر مشتمل اس اختتامیہ کا ہر لفظ اپنے اندر وسیع معانی رکھتا ہے ۔ ہر لفظ کا اپنا موضوع اور اپنی اہمیت ہے اور اس کے پیچھے جو مباحث گزرے ہیں ۔ یہ لفظ ان کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اور یہ مباحث عظیم مباحث ہیں ۔ جن کا تعلق اسلامی نظریہ حیات ۔ نیز دین اسلام میں اسلامی نظریہ حیات کی اہمیت ، اس کی خصوصیات اور اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ہیں ۔ ان میں اہل ایمان کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کی نوعیت ، اللہ کے بارے میں ان کا تصور ، وہ فرائض اور ذمہ داریاں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کیں ۔ ان کی تفصیلات ہیں ۔ وہ التجا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے ۔ وہ مشیئت ایزدی کے تابع ہوں اور اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہے ۔ غرض اس اختتامیہ کے ہر لفظ کی اپنی جگہ ایک عظیم اہمیت ہے ۔ اور جو شخص قرآن کے سائے میں زندگی بسر کرچکا ہو اور اسے معلوم ہو کہ قرآن کریم کا انداز تعبیر کیا ہے ؟ اور اس کی آیات میں سے ہر آیت کے اسرار و رموز کیا ہیں تو اسے معلوم ہے کہ ان الفاظ میں سے ہر لفظ کی اپنی شان ہے اور ہر لفظ ایک اعجوبہ ہے ........ مناسب ہے کہ ہم ان آیات پر قدرے تفصیلی بحث کریں۔ ان آیات میں اہل ایمان کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے ۔ یہ اس برگزیدہ جماعت کی تصویر ہے ۔ جس کی زندگی میں حقیقت ایمان عملی شکل میں ظاہر تھی ۔ اور قیامت تک آنے والی تمام جماعتوں کے یہی خدوخال ہوں گے ۔ جن کی زندگیوں میں حقیقت ایمان عملی شکل اختیار کرلے ۔ اس جماعت مومنہ کو اللہ تعالیٰ یوں اعزاز دیتے ہیں کہ اس کا ذکر رسول ﷺ کے ساتھ صفت ایمان میں یکجا کرتے ہیں ۔ یہ ایک عظیم اعزاز وشرف ہے ۔ اس لئے کہ اس یکجائی سے جماعت مومنہ حقیقت رسالت تک رسائی حاصل کرلیتی ہے ۔ اور جماعت مسلمہ کو یہ شعور بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ اس کرہ ارض پر اس کی حیثیت اور مقام کیا ہے ، اسے احساس ہوجاتا ہے ۔ وہ کیا مرتبہ بلند ہے ۔ جس تک اللہ تعالیٰ نے اسے اٹھایا ہے ۔ اس طرح کہ اللہ صفت ایمان میں اہل ایمان کو رسول اکرم ﷺ کے ساتھ یکجا فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سب ایمان لائے ہیں۔ ایک ہی صفت ایک ہی آیت میں اور پھر اللہ کے کلام میں آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ................ ” رسول اس ہدایت پر ایمان لائے ہیں ۔ جوان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہے ۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں ۔ انہوں نے بھی اسی ہدایت کو دل سے تسلیم کیا ہے ۔ “ رسول اللہ پر جو کلام نازل ہوتا ہے ، اس پر رسول کا ایمان مہبط وحی ہونے کی وجہ سے براہ راست ہوتا ہے ۔ آپ کے قلب صافی پر بلندو برتر وحی نازل ہوتی ہے اور براہ راست حقیقت عظمیٰ کے ساتھ آپ کا بلاواسطہ تعلق قائم ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو شخصیت رسول میں بذات خود ، بلاکسب واکتساب متشکل ہوتی ہے ۔ رسول اور ذات باری کے درمیان نہ کوئی واسطہ ہوتا ہے اور نہ ہی رسول کے مقام رسالت کے بارے میں کچھ عزائم ہوتے ہیں ۔ اس لئے رسول کا درجہ ایمان کے متعلق تو رسول ہی سوچ سکتا ہے اور اس کا وصف اور بیان بھی وہی شخص کرسکتا ہے جس نے درجہ ایمان کو بعینہ رسول ﷺ کی طرح پالیا ہے ۔ تو ذات باری اور کلام باری پر یہ براہ راست ایمان صرف رسول کا ایمان ہوتا ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صفت ایمان میں شریک کرکے گویا ان کو ایک قسم کا شرف و اعزاز عطا فرماتے ہیں ۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صفت ایمان کی حقیقت اور آپ کے سوا تمام اہل ایمان کی حقیقت ، ماہیت اور کیفیت میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ اور اس ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ اور اس کے حدود اربعہ کیا ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ” یہ سب اللہ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کا مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ “ یہ ہے مکمل ایمان جو دین اسلام نے پیش کیا ہے ۔ یہ ایمان اس قابل ہے کہ جس پر یہ امت پوری طرح جم جائے جو دین کی وارث ہے ۔ جو اس دین کی داعی ہے ۔ اور یہ دعوت اس نے قیام تک پوری دنیاکو دینی ہے ۔ جس دعوت کی جڑیں تاریخ کی طویل وادیوں میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ جس کے قافلے مسلسل چل رہے ہیں ۔ یہ رسالت کے قافلے ہیں اور انسان کی طویل تاریخ میں یہ قافلے پھیلے ہوئے ہیں ۔ یہی ایمان ہے جس نے آغاز انسانیت سے ، انسانوں کو دومحاذوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ ایک محاذ اہل ایمان کا ہے ۔ اور دوسرا محاذ اہل کفر کا ہے ۔ ایک محاذ حزب اللہ کا ہے اور دوسرا حزب الشیطان کا ہے ۔ اور پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ان کے علاوہ کوئی تیسرا محاذ نہیں ہے۔ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ................ ” سب ایمان لائے ہیں۔ “ اللہ کی ذات پر ایمان اسلامی تصور حیات کا بنیادی پتھر ہے ۔ یہ اس نظام زندگی کی اساس ہے جو زندگی کو استحکام بخشتا ہے ۔ یہ اسلامی اخلاقیات کی اساس ہے ۔ اور اسی پر اسلام کا اقتصادی نظام استوار ہوا ہے ۔ اور یہ ہر اس تحریک کی اساس ہے جو ایک مسلم یہاں یا وہاں برپا کرتا ہے ۔ اور ایمان باللہ کا مفہوم کیا ہے ؟ یہ کہ صرف اللہ ہی الٰہ ہے ۔ وہی رب ہے ، وہ بندگی کے لائق ہے ۔ وہی ہے جسے انسان کے ضمیر ، انسان کے طرز عمل ، اور اس کی زندگی کے ہر موڑ پر حکمرانی کا حق حاصل ہے ۔ اس لئے اللہ کے ساتھ اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ اس جہاں کی نگہبانی میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اسی کائنات کی تخلیق میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کائنات کو چلانے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کائنات کے چلانے میں اس کے کام میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا ۔ اس زندگی کے چلانے میں کوئی دخیل نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ اس مخلوق کی رزاقی میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس مخلوق کی نفع رسانی یا ضرر رسانی میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ غرض اس کائنات کا کوئی بڑا معاملہ ہو یا چھوٹا ، اس کی مشیئت اور رضا کے سوا پائے تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ عبادت اور بندگی کے معاملے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں ۔ عبادت کے شعائر میں کوئی شریک نہیں ، اطاعت و بندگی میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔ نہ دین میں اس کا کوئی شریک ہے ۔ لہٰذا پرستش صرف اسی کی ہوگی ۔ اطاعت صرف اسی کی ہوگی یا اس کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے لئے کام کررہا ہے اور اس کی شریعت کو نافذ کررہا ہے اور اپنے اقتدار اور سلطنت کو اللہ سے اخذ کرتا ہے ۔ اس لئے کہ مقتدر اعلیٰ تو وہی ذات ہے ۔ لہٰذا عوام الناس پر فکری حکومت ، یا ان کے طرز عمل پر حکومت وہی شخص کرسکتا ہے ۔ جو دین اسلام سے اپنے لئے اقتدار اعلیٰ حاصل کرتا ہے ۔ لہٰذا اخلاقی اصول اور قانون سازی کے اصول وقواعد ، ہمارے اجتماعی نظام کے اصول اور ہمارے اقتصادی اصول ، سب کے سب صرف ذات باری تعالیٰ کے احکام اور اس کی ذات سے اخذ ہوسکتے ہیں ۔ یہی ہے ایمان کا مفہوم اور اس کا خلاصہ ، یہی ایمانی تصور حیات ہے جس کو اپنا کر ایک شخص ماسوا اللہ کے بندھنوں اور غلامیوں سے آزاد ہوسکتا ہے ۔ شریعت خداوندی کے علاوہ تمام حدود وقیود سے آزاد ہوجات ہے ۔ آزاد ہی نہیں بلکہ انسان سلطنت الٰہیہ کے سوا تمام قوتوں پر غالب آجاتا ہے۔ وَمَلائِكَتِهِ................ ” اور اس کے فرشتوں پر۔ “ اللہ کے فرشتوں پر ایمان لانا ، ایمان بالغیب کا ایک پہلو ہے ، اسی سورت کے آغاز میں ، یعنی حصہ اول میں ہم اس موضوع پر بحث کر آئے ہیں کہ فرشتوں پر ایمان لانے کے اثرات انسانی زندگی پر کیا پڑتے ہیں اور اس کے کیا فوائد ہیں ۔ یہ ایمان انسان کو نچلی سطح سے بلند کردیتا ہے جو خود اس کی دنیا تک محدود ہے اور جو خاصہ حیوانات ہے ۔ اس ایمان کی بدولت انسانی علم ومعرفت کا ماخذ حواس سے وراء ہوجاتا ہے ۔ اور ایک انسان ایک حیوان کی سطح سے بلند ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح وہ اعلان کردیتا ہے کہ وہ انسان ہے اور اس کے خواص بالکل جدا ہیں ۔ انسان کا یہ ایک فطرتی تقاضا ہے کہ وہ پردہ غیب کے اندر مستور نامعلوم حقائق کو معلوم کرنے کا شوق رکھتا ہے ۔ یہ حقائق اگرچہ اس کے حواس کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں لیکن انسان بتقاضائے فطرت ان کے وجود کو محسوس کرتا ہے ۔ اگر انسا کے اس فطری داعیہ اور تقاضے کے سامنے وہ غیبی حقائق نہ رکھے گئے ۔ جو اسے اللہ تعالیٰ نے عطاکئے ہیں تو انسان کا یہ داعیہ انسانوں اور مذہبی دیومالاؤں میں گم ہوکر اپنے اس فطری تقاضے کی تشفی کرتا ہے ۔ اس طرح وہ اپنی ایک فطری پیاس کو بجھاتا ہے اور اگر وہ ان توہمات اور طلسمات میں نہ پڑے تو وہ نفسیاتی الجھنوں اور اضطرابات کا شکار ہوجاتا ہے۔ فرشتوں پر ایمان لانا بھی ایک ایسی حقیقت ہے کہ انسان کا فہم وادراک بذات خود اسے نہیں پاسکتا ۔ یعنی صرف ان محسوس اور عقلی قوتوں کے بل پر جو اسے عطاکی گئی ہیں ۔ لیکن اپنی فطرت کے اعتبار سے ، انسان کے اندر ان غیبی حقائق تک رسائی کا بےحد شوق پایا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خالق انسان ہے ۔ وہ اس کی ساخت اور اس کے رجحانات سے اچھی طرح واقف ہے ۔ وہ ان امور سے بھی واقف ہے جو انسان کے لئے مفید ہیں اور جن سے اس کی اصلاح بھی اچھی طرح ہوسکتی ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی رحمت و شفقت کی وجہ سے بعض غیبی حقائق سے مطلع کیا ۔ اور تمثیلات کے ذریعہ ، ان غیبی حقائق کو اس کے فہم وادراک کے قریب لانے کی کوشش کی ۔ کیونکہ بغیر تمثیلات کے انسان کے موجودہ ذرائع فہم ان کا براہ راست ادراک کرنے سے قاصر تھے ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذاتی جدوجہد سے ان حقائق کے معلوم کرنے کی خاطر محنت ومشقت سے بچالیا ۔ اس لئے کہ صرف اپنی ذاتی قوتوں کے بل بوتے پر اس کے لئے ممکن ہی نہ تھا۔ اس سلسلے میں وہ الٰہی علم ومعرفت کا محتاج تھا ۔ اگر اللہ کی جانب سے یہ حقائق بتلائے نہ جاتے تو اس کا دل کبھی مطمئن نہ ہوتا اور اس کی شخصیت سکون وقرار سے محروم ہوتی ۔ جو لوگ اپنی فطرت کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے تصور سے غیبی حقائق کی نفی کرتے ہیں ۔ وہ ایسے خرافات اور اوہام کا شکار ہوجاتے ہیں جنہیں دیکھ کر بےاختیار ہنسی آتی ہے ۔ یا پھر وہ ذہنی خلجان میں مبتلاء ہوجاتے اور ان کی زندگی پیچیدگیوں اور مضحکہ انگیز خرافات کا شکار ہوجاتی ہے ۔ ملائکہ پر ایمان ان غیبی حقائق پر ایمان ہے ، جو عقل وخرد کے اعتبار سے یقینی حقائق ہیں ۔ پھر یہ حقائق منجانب اللہ ہیں اور ان پر ایمان کے نتیجے میں اس کائنات کے بارے میں انسانی شعور کو وسعت ملتی ہے ۔ مومن کے تصور میں یہ جہاں اس قدر سکڑا ہو انہیں ہوتا کہ یہ اسی قدر ہے جس قدر اس کے حواس میں آسکتا ہو۔ اس لئے کہ انسانی حواس اس کائنات کے نہایت ہی مختصر حصے پر قابو پاسکتے ہیں ۔ فرشتوں پر ایمان لانے والے انسان میں یہ شعور بھی موجزن ہوتا ہے کہ اس کی رفاقت میں ، اس کے اردگرد پھیلے ہوئے ، بیشمار غیر مرئی مومنین ہیں ، جو اس کے ساتھ اپنے رب پر ایمان لانے میں شریک ہیں ، جو اس کے لئے ہر وقت استغفار کرتے رہتے ہیں ۔ ہر بھلے کام میں اس کے معاون و مددگار ہیں ، اگر اللہ چاہے ۔ غرض یہ ایک لطیف ، اور تروتازہ ہم نشین کا شعور ہوتا جو ہر وقت ایک مومن کو حاصل ہوتا ہے ۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے غیبی معرفت حاصل کئے ہوتا ہے ۔ جو اللہ پر ایمان لانیوالوں اور فرشتوں پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ................ ” اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر اور ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک میں تفریق نہیں کرتے ۔ “ اسلام نے اللہ پر ایمان لانے کا جو تصور دیا ہے ۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی تمام کتابوں اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لے آئیں ۔ اور اس سلسلے میں کسی ایک رسول اور دوسرے رسول کے درمیان امتیاز نہ کریں ۔ اس لئے کہ اللہ پر ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان تمام حقائق پر ایمان لے آئے ، جو منجانب اللہ آئے ہیں ۔ ان تمام رسولوں کی تصدیق کرے ، جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کبھی مبعوث ہوئے۔ اس لئے کہ وہ سرچشمہ ایک ہے ۔ جس کی جانب سے یہ سب رسول آئے ۔ وہ تمام کتابیں جو نازل ہوئیں وہ ایک ہی ذات کی طرف سے نازل ہوئیں ۔ اس لئے ، اس تصور ایمان کے نتیجے میں ایک مسلمان کے ذہن میں رسولوں کے مقام وحیثیت میں کوئی فرق و امتیاز ممکن ہی نہیں ۔ ہر رسول اللہ جل شانہ کی جانب سے مبعوث ہوا ۔ اور وہ ایسی صورت میں مبعوث ہوا ، جو ان لوگوں کے لئے حالات کے لئے مناسب تھی جن کی طرف وہ رسول مبعوث ہوا تھا۔ اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور آخرکار حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ پر ختم ہوا۔ اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت ایسی شکل و صورت میں تشکیل پائی کہ وہ قیامت تک تمام انسانیت کے لئے ایک آخری اور مکمل نظام زندگی قرار پائی۔ اس تصور ایمان کے نتیجے میں امت مسلمہ تمام رسولوں کی رسالت کی وارث قرار پائی ۔ اب اسلامی نظام زندگی امت مسلمہ کی وراثت ہے اور اس کرہ ارض پر اس کے کاندھے پر عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔ اور مومنین اللہ تعالیٰ کے صاحب اختیار علم بردار ہیں ۔ وہ صرف اللہ کا علم بلند کریں گے اور اس علم کے بل بوتے پر وہ اس کرہ ارض پر ، جاہلیت کے تمام نشانات اور علامات کا مقابلہ کریں گے ۔ اس وقت یہ جاہلیت کبھی وطنی قومیت کا علم بلند کرتی ہے ۔ کبھی نسلی قومیت کے روپ میں آگے بڑھتی ہے ۔ کبھی یہ طبقاتی رنگ میں آتی ہے اور کبھی یہ صہیونیوں اور صلیبیوں کے جھنڈوں کے سایہ میں استعماری شکل میں آتی ہے ۔ کبھی وہ الحاد اور بےدینی کی شکل میں آتی ہے ۔ غرض زمان ومکان کے اختلاف سے ، اس کے رنگ ڈھنگ بھی مختلف ہیں ۔ کبھی وہ کس نام سے آتی ہے اور کبھی کس نشان سے آتی ہے ۔ لیکن اس کے علم بردار وہی ہیں یعنی جاہلیت کے پرستار ۔ اس کرہ ارض پر امت مسلمہ جس سرمایہ کی حفاظت پر مامور ہے ، وہ اسے قدیم ترین ادوار سے اس کرہ ارض پر مبعوث ہونے والے تمام رسولوں سے ملا ہے۔ اور یہ سرمایہ پوری انسانیت کا نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہے ۔ یہ ہدایت اور روشنی کا سرمایہ ہے ۔ یہ یقین و اطمینان کا سرمایہ ہے ۔ یہ سعادت اور رضائے الٰہی کا سرمایہ ہے ۔ یہ علم ومعرفت کا سرمایہ ہے ۔ یادر کھو ! جو دل اس سرمایہ سے تہی دامن ہوا وہ تاریکیوں اور رنج والم کا شکار ہوگا ۔ وہ اضطراب وخلجان سے دوچار ہوگا اور شکوک و شبہات میں گرفتار ہوگا۔ وہ بدبختی اور پریشانی کے ہاتھوں عاجز آجائے گا ۔ اس کی زندگی یوں گزرے گی جس طرح ایک شخص تہہ بہ تہہ اندھیروں ، بےآب وگیاہ ریگستان میں ٹامک ٹوئیاں ماررہاہو ۔ اسے نظر نہ آرہاہو کہ وہ کہاں قدم رکھے اور کہاں نہ رکھے ۔ ان دلوں کی چیخ و پکار انتہائی کربناک ہے ۔ وہ اس زاد راہ سے محروم ہوگئے ہیں ۔ جن سے یہ قیمتی سرمایہ لٹ گیا ہے ۔ جو ایسے غمگسار رفیق سفر سے محروم ہوچکے ہیں ۔ یہ کربناک چیخ و پکار تاریخ کے ہر دور میں سنی گئی ۔ بشرطیکہ دل زندہ ہوں ، ان میں احساس ہو ، وہ اپنے اندر معرفت حقیقت اور حصول یقین کا داعیہ رکھتے ہوں ۔ رہے وہ دل جو مرچکے ہیں جو غبی ہیں ، جن کی عقل موٹی ہے ، جن کی سوچ کے سوتے خشک ہوچکے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ ان میں حصول معرفت کی یہ تڑپ نہ ہو ، وہ حصول معرفت سے بےنیاز ہوں ۔ لیکن اس کرہ ارض پر ان جیسے لوگوں کی روش بہائم کی طرح روش ہوتی ہے ۔ وہ مویشیوں کی طرح کھاتے اور پیتے ہیں ۔ ان کا محبوب مشغلہ یہ ہوتا ہے ۔ اس کرہ ارض پر ظلم و استبداد کا ارتکاب کریں ، مار دھاڑ میں مشغول ہوں اس زمین میں فساد پھیلائیں اور اس سے اس طرح رخصت ہوں کہ ان پر تمام لوگوں کی نفریں ہوں اور اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ وہ معاشرے انتہائی ، بدبخت معاشرے ہیں جو اس دولت سے محروم رہ گئے ۔ اگرچہ وہ مادی سہولیات میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں ۔ یہ مرعاشرے گرے ہوئے تباہ حال معاشرے ہیں ۔ اگرچہ مادی پیداوار کے اعتبار سے ان کا گراف بہت اونچا ہو ۔ یہ معاشرے کربناک معاشرے ہیں ۔ اگرچہ وہ مکمل شہری آزادیوں سے مستفید ہوں ، داخلی طور پر زندگی پرامن ہو اور انہیں کوئی خارجی خطرہ بھی لاحق نہ ہو ، ہمارے پاس اس جدید دور میں ایسے معاشروں کی کئی مثالیں موجود ہیں ، اس بات کا انکار صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو انتہائی درجے کا مکار ہو اور جو اس قدر بےحیا ہو کہ محسوس اور کھلے حقائق کا انکار کرسکتا ہو۔ رہے اہل ایمان تو ان کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ۔ اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں ۔ وہ بارگاہ الٰہی میں تسلیم ورضا اور سمع وطاعت کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ آخر کار اللہ کی جانب لوٹنے والے ہیں ۔ لہٰذا وہ ہر وقت اپنی تقصیرات پر طلب مغفرت کرتے ہیں وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ................ ” ہم نے حکم سنا اور اطاعت کی ۔ مالک ! ہم تجھ ہی سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ “ ان کلمات سے ایمان باللہ ، فرشتوں ، ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان کے اثرات روشنی کی طرح ظاہرہوتے ہیں ۔ ان کا ظہور سمع و اطاعت کی صورت میں ہوتا ہے۔ اہل ایمان کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ پیغام آتا ہے ، وہ اسے سنتے ہیں ، وہ ہر اس حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ جس کا حکم اللہ تعالیٰ دیتے ہیں ۔ یعنی ان کا قائد صرف اللہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے قائد کے ہر اشارے کو روبعمل لاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اسلام کا کوئی ایساتصور نہیں ہے جس میں اللہ کے احکام کی اطاعت نہ ہو ، جس میں پوری زندگی میں نظام ربانی کا نفاذ ضروری نہ ہو ۔ اگر کسی معاشرے کی یہ حالت ہوجائے کہ اس میں لوگ اپنی زندگیوں کے یہ چھوٹے بڑے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اتر آئے ہوں تو ایسے معاشرے کو اہل ایمان کا معاشرہ نہیں کہا جاسکتا ۔ یا جہاں اللہ کی شریعت نافذ نہ ہو ۔ جس کے اخلاقی تصورات جس کا طرز عمل ، جس کے اجتماعی اور اقتصادی اور سیاسی امور سب کے سب غیر اسلامی تصورات سے ماخوذ ہوں تو ایسے معاشرے کو کس طرح ایک اسلامی معاشرہ کہا جاسکتا ہے ۔ اس لئے ایمان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ دل مومن میں قرار پکڑے اور اس کی تصدیق عمل سے ہو۔ اور سمع وطاعت کے ساتھ ساتھ ، انسان کو اپنی تقصیرات اور کوتاہیوں کا بھی مکمل شعورہو ، وہ یقین رکھتاہو کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا حق شکر ادا نہیں کرسکتا ۔ وہ اپنے فرائض سے کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں التجا کرتا ہے کہ وہ اس کی کوتاہیوں کا تدارک اپنی رحمت اور مغفرت سے فرمائیں۔ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا ................ ” اے ہمارے رب ، ہم تیری مغفرت کے طلبگار ہیں۔ “ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ اپنی تقصیرات پر طلب مغفرت کا مقام ومحل سمع و اطاعت اور اللہ کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کرنے کے بعد آتا ہے ۔ پہلے بغیر کسی نافرمانی اور بغیر کسی انکار کے مکمل انقیاد ضروری ہے ۔ اس کے بعد ہی انسان کے اندر یہ یقین پیدا ہوسکتا ہے کہ اس نے دنیا وآخرت میں اللہ کی طرف لوٹنا ہے ۔ اس کے عمل معاملے میں ، اور ہر عمل میں اس نے اللہ کے سامنے جوابدہی کرنی ہے ۔ اور اللہ کا فیصلہ پھر اس معاملے میں اٹل ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہ ہوگی ، اس کے مقابلے میں کوئی طاقت بچانے والی نہیں ہے ۔ اس کے فیصلے اور حکم سے صرف اس کی مغفرت ہی بچاسکتی ہے ۔ صرف اس کی رحمانیت ہی کام آسکتی ہے ۔ وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ................ ” تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ “ ان الفاظ میں ایمان بالآخرۃ کا بیان ہوا ہے ۔ اللہ پر ایمان لانے کے تقاضوں میں سے ایک بین تقاضا ایمان بالآخرت ہے ۔ اسلامی تصور حیات کے حوالے سے یہ لازم وملزوم ہیں ۔ اس تصور حیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔ ایک عہد کے تحت اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ۔ یہ عہد اس کے اندر طے شدہ شرائط ، اس کرہ ارض پر انسان کی پوری زندگی کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔ اللہ نے یہاں اسے خلیفہ اس غرض وغایت کے لئے بنایا ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں وہ اس کا امتحان لے ۔ اور آخری امتحان کے بعد وہ آخرت میں اسے جزاء و سزاء دے ۔ اس لئے اسلامی تصور حیات کی رو سے عقیدٔ آخرت ایمان کے لازمی تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے۔ اس پر ایمان لانا ، ایک مومن ومسلم کے تصورات اور اس کے طرزعمل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اسی ایمان کی روشنی میں ، اس دنیا میں ایک مومن کی اقدار حیات تشکیل پاتی ہیں ۔ اور اس کے حسی نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔ وہ مطیع فرمان ہو کر چلتا ہے ۔ وہ بھلائی کی راہ پر چلتا ہے ۔ وہ بھلائی کا متلاشی اور سچائی پر قائم رہتا ہے ۔ چاہے اس کا نتیجہ اس جہاں میں اسے بصورت راحت ملے یا بصورت مشقت ۔ اسے اس جہاں میں فائدہ ہو یا نقصان ہو ، اسے فتح ہو یا شکست ہو ، وہ کچھ پارہا ہو یا کچھ کھو رہا ہو ، اسے یہاں زندگی مل رہی ہو یا شہادت نصیب ہورہی ہو ۔ اس لئے کہ اس کی اصل جزاء اسے یوم آخرت میں ملے گی جب وہ اس دنیا کے امتحان میں کامیاب اور سرخرو ہوجائے گا ....... اس کا عزم اس قدر صمیم ہوتا ہے کہ اس کی راہ اطاعت ، راہ حق ، راہ بر اور راہ صداقت سے ، اسے پوری دنیا کی مخالفت ، پوری دنیا کی فتنہ انگیزی اور فتنہ وقتل اسے ہٹا نہیں سکتے ، کیونکہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ وہ عہد الست کو اپنی پوری شرائط کے ساتھ نافذ کررہا ہوتا ہے ۔ اور اپنے اجر کا طلب گار آخرت میں ہوتا ہے۔ یہ ایک عظیم وحدت ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات کا یہی مزاج ہے ۔ اور اسے اس مختصر سی آیت میں سمودیا گیا ہے ۔ اللہ اور ملائکہ پر ایمان ، تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان ، بلا تفریق و امتیاز ، اور اللہ کی طرف مکمل رجوع وسمع وطاعت کے ساتھ اور یوم آخرت میں جو ابدہی پر ایمان اور اس کا ہر وقت احساس ۔ یہ ہے اسلام ، یہ ایسا عقیدہ جو خاتم العقائد ہے ۔ یہ آخری رسالت ہے ۔ ایسا عقیدہ جو قافلہ اہل ایمان کو آغاز انسانیت سے انتہائے انسانیت تک ساتھ لے کر چلتا ہے ۔ اس کے سفر کی سمت پوری تاریخ انسانیت میں ، اللہ کے رسول متعین کرتے ہیں ۔ جن کی قیادت میں انسانیت بتدریج ترقی کے درجات طے کرتی ہے ۔ یہ عقیدہ اسے اس کائنات کے ناموس اکبر سے بقدر استطاعت انسان ، اسے متعارف کراتا ہے ۔ یہاں تک کہ آخر میں اسلامی نظام زندگی آتا ہے ۔ وہ توحید کا اعلان کرتا ہے اور عقل انسانی کو آزاد چھوڑدیا جاتا ہے کہ اب وہ معرفت کردگار میں خود آگے بڑھے ۔ یہی وہ نظریہ حیات ہے جو ایک انسان کو انسانیت سے روشناس کراتا ہے ۔ وہ اسے جمادات اور حیوانات کے مقام سے بلند کرتا ہے ۔ وہ اسے فرشتوں اور شیطانوں سے بھی ایک علیحدہ تشخص دیتا ہے ۔ وہ انسان کا بحیثیت انسان اعتراف کرتا ہے ۔ وہ اس کی کمزوریوں کو بھی تسلیم کرتا ہے اور اس کے کمالات کا بھی لحاظ رکھتا ہے ۔ وہ اسے ایک ایسی مخلوق کی طرح لیتا ہے جس کے جسم میں مختلف قسم کے رجحانات ہیں ۔ وہ ایک عقل فعال کا حامل ہے ۔ وہ ایک روح رکھتا ہے جس کے میلانات میں بوقلمونی ہے ۔ اس لئے وہ اس پر صرف ایسے فرائض و واجبات عائد کرتا ہے جن کے لئے یہ جسم اور یہ حضرت انسان اور اس کی شخصیت متحمل ہوسکتی ہے۔ یہ عقیدہ ان فرائض اور انسان کی صلاحیت اور طاقت کے درمیان بہترین توازن قائم رکھتا ہے ۔ اس قدر بوجھ ڈالتا ہے کہ انسان مشقت اور تھکاوٹ محسوس نہ کرے ۔ یہ عقیدہ انسان کے جسمانی تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے ۔ انسان کے عقلی تقاضوں کا بھی خیال رکھتا ہے ۔ اور اس کی روحانی دنیا بھی آباد کرتا ہے ۔ اور یہ سب کام انتہائی فطری توازن کے ساتھ ، اور ان سب امور کے بعد وہ انسان کو یہ آزادی عطا کرتا ہے کہ وہ جو راہ اپنے لئے اختیار کرتا ہے ، کرے۔
Top