Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 285
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ١۫ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ١۫ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ۗ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ
اٰمَنَ
: مان لیا
الرَّسُوْلُ
: رسول
بِمَآ
: جو کچھ
اُنْزِلَ
: اترا
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
مِنْ
: سے
رَّبِّهٖ
: اس کا رب
وَالْمُؤْمِنُوْنَ
: اور مومن (جمع)
كُلٌّ
: سب
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَمَلٰٓئِكَتِهٖ
: اور اس کے فرشتے
وَكُتُبِهٖ
: اور اس کی کتابیں
وَرُسُلِهٖ
: اور اس کے رسول
لَا نُفَرِّقُ
: نہیں ہم فرق کرتے
بَيْنَ
: درمیان
اَحَدٍ
: کسی ایک
مِّنْ رُّسُلِهٖ
: اس کے رسول کے
وَقَالُوْا
: اور انہوں نے کہا
سَمِعْنَا
: ہم نے سنا
وَاَطَعْنَا
: اور ہم نے اطاعت کی
غُفْرَانَكَ
: تیری بخشش
رَبَّنَا
: ہمارے رب
وَاِلَيْكَ
: اور تیری طرف
الْمَصِيْرُ
: لوٹ کر جانا
رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے ، جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے ۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں ، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کیا ہے ۔ وہ سب اللہ اور فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ۔ “ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک ، ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ “
درس 22 ایک نظر میں یہ سبق اس عظیم سورت کا اختتامیہ ۔ یہ قرآن کریم کی طویل ترین سورت ہے ۔ اور اس کی تعبیرات بھی اپنے اندر ایک بڑا حجم رکھتی ہیں ۔ اس سورت کے اس حجم اور طوالت کے اندر اسلامی تصور حیات کے ایک بڑے حصے کو سمودیا گیا ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کے ساتھ ساتھ ، اسلامی جماعت کی مختلف صفات ، اس کے فرائض ، اس کے طریقہ کار اور اس کرہ ارض پر مختلف امور کے بارے میں اس کی پالیسیوں کے بارے میں پوری تفصیلات اس سورت میں موجود ہیں ۔ اس پوری کائنات میں امت مسلمہ کا کیا کردار ہے ؟ اسلامی نظام زندگی کے مخالفین ، مقابلین اور دشمنان کے بارے میں اس کا کیا موقف ہے ؟ ان دشمنان کا مزاج کیا ہے اور اسلامی نظام کی محاربت میں ان کے وسائل کیا ہیں ؟ نیز اسلامی جماعت ان کے مقابلے میں کیا وسائل وذرائع اختیار کررہی ہے ۔ اور ان کی سازشوں کا مقابلہ کن ذرائع سے کررہی ہے ۔ ان امور کے علاوہ اس سورت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مجموعی لحاظ سے خود حضرت انسان کا اس کرہ ارض پر کیا کردار مقرر کیا گیا ہے ؟ انسان کی فطرت کیا ہے ؟ اور انسانی تاریخ میں انسان کیا سے کیا کو تاہیاں اور لغزشیں ہوئی ہیں ۔ تاریخی قصص پیش کرکے ان کی وضاحت کی گئی ہے ۔ غرض یہ اور وہ تمام دوسری باتیں جن کی تفصیلات اس طویل سورت میں بیان کی گئیں ۔ یہ سبق اس طویل سورت کا اختتامیہ ہے اور صرف دو آیات میں لیکن ان دو آیات میں ان تمام مضامین اور افکار کو سمودیا گیا ہے ۔ جو اس طویل ترین سورت میں زیر بحث آئے ۔ یہ آیات فی الواقع سورت کا ایک اچھا اختتامیہ ہیں جو اس پوری سورت کے ساتھ ہم آہنگ ، متناسب اور اس سورت کے مقاصد اور اس کے اندر پائی جانے والی واقعاتی فضاء کے ساتھ مناسب ہیں ۔ اس سورت کا آغاز ان الفاظ ان الفاظ سے ہوا تھا ۔” لاف ، لام ، میم ، یہ اللہ کی کتاب ہے۔ “ اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ ہدایت ہے ان پرہیز گاروں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں ۔ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ “ ان الفاظ میں اس حقیقت کی طرف واضح اشارات دئیے گئے ہیں کہ اہل ایمان تمام رسولوں اور تمام کتابوں پر ایمان لاتے ہیں ۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے ۔ اب ذرا اس اختتامیہ کے الفاظ پر غور کریں ۔ اور رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے ۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں ۔ انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ” ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ۔ “ غرض یہ ایک ایسا اختتامیہ ہے جس طرح کتاب کے کور کے دوحصے ہوتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس سورت میں امت مسلمہ کے فرائض کا بڑا حصہ بیان کیا گیا ہے ۔ اور زندگی کے مختلف میدانوں میں اسلامی قوانین کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جس طرح اپنے فرائض کو نظر انداز کیا اور جس طرح انہوں نے شریعت خداوندی سے روگردانیاں کیں ان کا بھی تفصیلاً ذکر کیا گیا ۔ چناچہ اختتامیہ میں یہ آیات صاف بتادیتی ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی اور شریعت کی اطاعت کس طرح ہوتی ہے اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی اور شریعت سے نافرمانیاں کیوں کر جاتی ہیں ۔ اور کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ پر کوئی مصیبت ڈالنا نہیں چاہتے ۔ نہ اس پر کوئی بھاری بوجھ لادنا چاہتے ہیں ۔ نہ اللہ تعالیٰ کو امت مسلمہ سے کوئی خاص دوستی ہے ۔ جس طرح یہود ونصاریٰ یہ سمجھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص محبوبین میں سے ہیں۔ اور نہ یہ صورت حال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو نظر انداز کردیا ہے ۔ بلکہ صورت احوال یہ ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے ، اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے ، اس کا وبال اسی پر ہے ۔ “ اس سورت میں بنی اسرائیل کے قصے بھی بیان کئے گئے ہیں ۔ وہ حالات بھی بیان کئے گئے ہیں جن میں بڑے مشکل وقت اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر اپنا فضل وکرم کیا اور اس کا انکار اور ناشکری کا تذکرہ بھی ہوا ہے ۔ جو ان انعامات کے مقابلے میں انہوں نے کی ۔ پھر وہ سزائیں بھی مذکور ہیں ۔ جو اللہ تعالیٰ نے بطور کفارہ ناشکری انہیں دیں اور یہ سزائیں سزائے موت تک تھیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ................” تو اپنے باری تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو۔ “ ایسے ہی حالات کے بارے میں اسی سورت کے اختتام پر اہل ایمان کو دعا سکھائی جاتی ہے کہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ ایسے حالات سے پناہ مانگیں جو بنی اسرائیل کو پیش آئے ۔ فرماتے ہیں ۔” اے ایمان والو ، یوں دعا کرو “ اے ہمارے رب ، ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ، ان پر گرفت نہ کر ، مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال ، جو تونے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے ۔ پروردگار ! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے وہ ہم پر نہ رکھ ، ہمارے ساتھ نرمی کر ، ہم سے درگزر فرما ، ہم پر رحم کر۔ “ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مومنین پر قتال فی سبیل اللہ فرض کیا تھا ۔ اور انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور اپنا مال اس کی راہ میں خرچ کریں تاکہ کفار اور کفر دونوں کا دفاع کیا جاسکے ۔ چناچہ سورت کے آخر میں اس دعا میں وہ ان تمام ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اللہ کی امداد چاہتے ہیں ۔ دشمن کے مقابلے میں اللہ کی نصرت کے طلبگار ہوتے ہیں ۔” تو ہمارا مولیٰ ہے ، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔ “ غرض یہ اس پوری سورت کا اختتامیہ ہے ۔ اس میں مضامین سورت کا خلاصہ بصورت اشارات دیا گیا ہے ۔ جو پوری سورت کے اصل خطوط کے ساتھ متناسب اور متوازی ہے ۔ پھر ان دونوں آیات پر مشتمل اس اختتامیہ کا ہر لفظ اپنے اندر وسیع معانی رکھتا ہے ۔ ہر لفظ کا اپنا موضوع اور اپنی اہمیت ہے اور اس کے پیچھے جو مباحث گزرے ہیں ۔ یہ لفظ ان کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اور یہ مباحث عظیم مباحث ہیں ۔ جن کا تعلق اسلامی نظریہ حیات ۔ نیز دین اسلام میں اسلامی نظریہ حیات کی اہمیت ، اس کی خصوصیات اور اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں ہیں ۔ ان میں اہل ایمان کا اپنے رب کے ساتھ تعلق کی نوعیت ، اللہ کے بارے میں ان کا تصور ، وہ فرائض اور ذمہ داریاں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کیں ۔ ان کی تفصیلات ہیں ۔ وہ التجا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے ۔ وہ مشیئت ایزدی کے تابع ہوں اور اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہے ۔ غرض اس اختتامیہ کے ہر لفظ کی اپنی جگہ ایک عظیم اہمیت ہے ۔ اور جو شخص قرآن کے سائے میں زندگی بسر کرچکا ہو اور اسے معلوم ہو کہ قرآن کریم کا انداز تعبیر کیا ہے ؟ اور اس کی آیات میں سے ہر آیت کے اسرار و رموز کیا ہیں تو اسے معلوم ہے کہ ان الفاظ میں سے ہر لفظ کی اپنی شان ہے اور ہر لفظ ایک اعجوبہ ہے ........ مناسب ہے کہ ہم ان آیات پر قدرے تفصیلی بحث کریں۔ ان آیات میں اہل ایمان کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے ۔ یہ اس برگزیدہ جماعت کی تصویر ہے ۔ جس کی زندگی میں حقیقت ایمان عملی شکل میں ظاہر تھی ۔ اور قیامت تک آنے والی تمام جماعتوں کے یہی خدوخال ہوں گے ۔ جن کی زندگیوں میں حقیقت ایمان عملی شکل اختیار کرلے ۔ اس جماعت مومنہ کو اللہ تعالیٰ یوں اعزاز دیتے ہیں کہ اس کا ذکر رسول ﷺ کے ساتھ صفت ایمان میں یکجا کرتے ہیں ۔ یہ ایک عظیم اعزاز وشرف ہے ۔ اس لئے کہ اس یکجائی سے جماعت مومنہ حقیقت رسالت تک رسائی حاصل کرلیتی ہے ۔ اور جماعت مسلمہ کو یہ شعور بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ اس کرہ ارض پر اس کی حیثیت اور مقام کیا ہے ، اسے احساس ہوجاتا ہے ۔ وہ کیا مرتبہ بلند ہے ۔ جس تک اللہ تعالیٰ نے اسے اٹھایا ہے ۔ اس طرح کہ اللہ صفت ایمان میں اہل ایمان کو رسول اکرم ﷺ کے ساتھ یکجا فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سب ایمان لائے ہیں۔ ایک ہی صفت ایک ہی آیت میں اور پھر اللہ کے کلام میں آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ................ ” رسول اس ہدایت پر ایمان لائے ہیں ۔ جوان کے رب کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ہے ۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں ۔ انہوں نے بھی اسی ہدایت کو دل سے تسلیم کیا ہے ۔ “ رسول اللہ پر جو کلام نازل ہوتا ہے ، اس پر رسول کا ایمان مہبط وحی ہونے کی وجہ سے براہ راست ہوتا ہے ۔ آپ کے قلب صافی پر بلندو برتر وحی نازل ہوتی ہے اور براہ راست حقیقت عظمیٰ کے ساتھ آپ کا بلاواسطہ تعلق قائم ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو شخصیت رسول میں بذات خود ، بلاکسب واکتساب متشکل ہوتی ہے ۔ رسول اور ذات باری کے درمیان نہ کوئی واسطہ ہوتا ہے اور نہ ہی رسول کے مقام رسالت کے بارے میں کچھ عزائم ہوتے ہیں ۔ اس لئے رسول کا درجہ ایمان کے متعلق تو رسول ہی سوچ سکتا ہے اور اس کا وصف اور بیان بھی وہی شخص کرسکتا ہے جس نے درجہ ایمان کو بعینہ رسول ﷺ کی طرح پالیا ہے ۔ تو ذات باری اور کلام باری پر یہ براہ راست ایمان صرف رسول کا ایمان ہوتا ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صفت ایمان میں شریک کرکے گویا ان کو ایک قسم کا شرف و اعزاز عطا فرماتے ہیں ۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صفت ایمان کی حقیقت اور آپ کے سوا تمام اہل ایمان کی حقیقت ، ماہیت اور کیفیت میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ اور اس ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ اور اس کے حدود اربعہ کیا ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ” یہ سب اللہ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کا مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ۔ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ “ یہ ہے مکمل ایمان جو دین اسلام نے پیش کیا ہے ۔ یہ ایمان اس قابل ہے کہ جس پر یہ امت پوری طرح جم جائے جو دین کی وارث ہے ۔ جو اس دین کی داعی ہے ۔ اور یہ دعوت اس نے قیام تک پوری دنیاکو دینی ہے ۔ جس دعوت کی جڑیں تاریخ کی طویل وادیوں میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ جس کے قافلے مسلسل چل رہے ہیں ۔ یہ رسالت کے قافلے ہیں اور انسان کی طویل تاریخ میں یہ قافلے پھیلے ہوئے ہیں ۔ یہی ایمان ہے جس نے آغاز انسانیت سے ، انسانوں کو دومحاذوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ ایک محاذ اہل ایمان کا ہے ۔ اور دوسرا محاذ اہل کفر کا ہے ۔ ایک محاذ حزب اللہ کا ہے اور دوسرا حزب الشیطان کا ہے ۔ اور پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ان کے علاوہ کوئی تیسرا محاذ نہیں ہے۔ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ................ ” سب ایمان لائے ہیں۔ “ اللہ کی ذات پر ایمان اسلامی تصور حیات کا بنیادی پتھر ہے ۔ یہ اس نظام زندگی کی اساس ہے جو زندگی کو استحکام بخشتا ہے ۔ یہ اسلامی اخلاقیات کی اساس ہے ۔ اور اسی پر اسلام کا اقتصادی نظام استوار ہوا ہے ۔ اور یہ ہر اس تحریک کی اساس ہے جو ایک مسلم یہاں یا وہاں برپا کرتا ہے ۔ اور ایمان باللہ کا مفہوم کیا ہے ؟ یہ کہ صرف اللہ ہی الٰہ ہے ۔ وہی رب ہے ، وہ بندگی کے لائق ہے ۔ وہی ہے جسے انسان کے ضمیر ، انسان کے طرز عمل ، اور اس کی زندگی کے ہر موڑ پر حکمرانی کا حق حاصل ہے ۔ اس لئے اللہ کے ساتھ اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ اس جہاں کی نگہبانی میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اسی کائنات کی تخلیق میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کائنات کو چلانے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس کائنات کے چلانے میں اس کے کام میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا ۔ اس زندگی کے چلانے میں کوئی دخیل نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ اس مخلوق کی رزاقی میں کوئی شریک نہیں ہے ۔ اس مخلوق کی نفع رسانی یا ضرر رسانی میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ غرض اس کائنات کا کوئی بڑا معاملہ ہو یا چھوٹا ، اس کی مشیئت اور رضا کے سوا پائے تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ عبادت اور بندگی کے معاملے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں ۔ عبادت کے شعائر میں کوئی شریک نہیں ، اطاعت و بندگی میں اس کا کوئی شریک نہیں ۔ نہ دین میں اس کا کوئی شریک ہے ۔ لہٰذا پرستش صرف اسی کی ہوگی ۔ اطاعت صرف اسی کی ہوگی یا اس کی ہوگی جو اللہ تعالیٰ کے لئے کام کررہا ہے اور اس کی شریعت کو نافذ کررہا ہے اور اپنے اقتدار اور سلطنت کو اللہ سے اخذ کرتا ہے ۔ اس لئے کہ مقتدر اعلیٰ تو وہی ذات ہے ۔ لہٰذا عوام الناس پر فکری حکومت ، یا ان کے طرز عمل پر حکومت وہی شخص کرسکتا ہے ۔ جو دین اسلام سے اپنے لئے اقتدار اعلیٰ حاصل کرتا ہے ۔ لہٰذا اخلاقی اصول اور قانون سازی کے اصول وقواعد ، ہمارے اجتماعی نظام کے اصول اور ہمارے اقتصادی اصول ، سب کے سب صرف ذات باری تعالیٰ کے احکام اور اس کی ذات سے اخذ ہوسکتے ہیں ۔ یہی ہے ایمان کا مفہوم اور اس کا خلاصہ ، یہی ایمانی تصور حیات ہے جس کو اپنا کر ایک شخص ماسوا اللہ کے بندھنوں اور غلامیوں سے آزاد ہوسکتا ہے ۔ شریعت خداوندی کے علاوہ تمام حدود وقیود سے آزاد ہوجات ہے ۔ آزاد ہی نہیں بلکہ انسان سلطنت الٰہیہ کے سوا تمام قوتوں پر غالب آجاتا ہے۔ وَمَلائِكَتِهِ................ ” اور اس کے فرشتوں پر۔ “ اللہ کے فرشتوں پر ایمان لانا ، ایمان بالغیب کا ایک پہلو ہے ، اسی سورت کے آغاز میں ، یعنی حصہ اول میں ہم اس موضوع پر بحث کر آئے ہیں کہ فرشتوں پر ایمان لانے کے اثرات انسانی زندگی پر کیا پڑتے ہیں اور اس کے کیا فوائد ہیں ۔ یہ ایمان انسان کو نچلی سطح سے بلند کردیتا ہے جو خود اس کی دنیا تک محدود ہے اور جو خاصہ حیوانات ہے ۔ اس ایمان کی بدولت انسانی علم ومعرفت کا ماخذ حواس سے وراء ہوجاتا ہے ۔ اور ایک انسان ایک حیوان کی سطح سے بلند ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح وہ اعلان کردیتا ہے کہ وہ انسان ہے اور اس کے خواص بالکل جدا ہیں ۔ انسان کا یہ ایک فطرتی تقاضا ہے کہ وہ پردہ غیب کے اندر مستور نامعلوم حقائق کو معلوم کرنے کا شوق رکھتا ہے ۔ یہ حقائق اگرچہ اس کے حواس کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں لیکن انسان بتقاضائے فطرت ان کے وجود کو محسوس کرتا ہے ۔ اگر انسا کے اس فطری داعیہ اور تقاضے کے سامنے وہ غیبی حقائق نہ رکھے گئے ۔ جو اسے اللہ تعالیٰ نے عطاکئے ہیں تو انسان کا یہ داعیہ انسانوں اور مذہبی دیومالاؤں میں گم ہوکر اپنے اس فطری تقاضے کی تشفی کرتا ہے ۔ اس طرح وہ اپنی ایک فطری پیاس کو بجھاتا ہے اور اگر وہ ان توہمات اور طلسمات میں نہ پڑے تو وہ نفسیاتی الجھنوں اور اضطرابات کا شکار ہوجاتا ہے۔ فرشتوں پر ایمان لانا بھی ایک ایسی حقیقت ہے کہ انسان کا فہم وادراک بذات خود اسے نہیں پاسکتا ۔ یعنی صرف ان محسوس اور عقلی قوتوں کے بل پر جو اسے عطاکی گئی ہیں ۔ لیکن اپنی فطرت کے اعتبار سے ، انسان کے اندر ان غیبی حقائق تک رسائی کا بےحد شوق پایا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خالق انسان ہے ۔ وہ اس کی ساخت اور اس کے رجحانات سے اچھی طرح واقف ہے ۔ وہ ان امور سے بھی واقف ہے جو انسان کے لئے مفید ہیں اور جن سے اس کی اصلاح بھی اچھی طرح ہوسکتی ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی رحمت و شفقت کی وجہ سے بعض غیبی حقائق سے مطلع کیا ۔ اور تمثیلات کے ذریعہ ، ان غیبی حقائق کو اس کے فہم وادراک کے قریب لانے کی کوشش کی ۔ کیونکہ بغیر تمثیلات کے انسان کے موجودہ ذرائع فہم ان کا براہ راست ادراک کرنے سے قاصر تھے ۔ یوں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذاتی جدوجہد سے ان حقائق کے معلوم کرنے کی خاطر محنت ومشقت سے بچالیا ۔ اس لئے کہ صرف اپنی ذاتی قوتوں کے بل بوتے پر اس کے لئے ممکن ہی نہ تھا۔ اس سلسلے میں وہ الٰہی علم ومعرفت کا محتاج تھا ۔ اگر اللہ کی جانب سے یہ حقائق بتلائے نہ جاتے تو اس کا دل کبھی مطمئن نہ ہوتا اور اس کی شخصیت سکون وقرار سے محروم ہوتی ۔ جو لوگ اپنی فطرت کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے تصور سے غیبی حقائق کی نفی کرتے ہیں ۔ وہ ایسے خرافات اور اوہام کا شکار ہوجاتے ہیں جنہیں دیکھ کر بےاختیار ہنسی آتی ہے ۔ یا پھر وہ ذہنی خلجان میں مبتلاء ہوجاتے اور ان کی زندگی پیچیدگیوں اور مضحکہ انگیز خرافات کا شکار ہوجاتی ہے ۔ ملائکہ پر ایمان ان غیبی حقائق پر ایمان ہے ، جو عقل وخرد کے اعتبار سے یقینی حقائق ہیں ۔ پھر یہ حقائق منجانب اللہ ہیں اور ان پر ایمان کے نتیجے میں اس کائنات کے بارے میں انسانی شعور کو وسعت ملتی ہے ۔ مومن کے تصور میں یہ جہاں اس قدر سکڑا ہو انہیں ہوتا کہ یہ اسی قدر ہے جس قدر اس کے حواس میں آسکتا ہو۔ اس لئے کہ انسانی حواس اس کائنات کے نہایت ہی مختصر حصے پر قابو پاسکتے ہیں ۔ فرشتوں پر ایمان لانے والے انسان میں یہ شعور بھی موجزن ہوتا ہے کہ اس کی رفاقت میں ، اس کے اردگرد پھیلے ہوئے ، بیشمار غیر مرئی مومنین ہیں ، جو اس کے ساتھ اپنے رب پر ایمان لانے میں شریک ہیں ، جو اس کے لئے ہر وقت استغفار کرتے رہتے ہیں ۔ ہر بھلے کام میں اس کے معاون و مددگار ہیں ، اگر اللہ چاہے ۔ غرض یہ ایک لطیف ، اور تروتازہ ہم نشین کا شعور ہوتا جو ہر وقت ایک مومن کو حاصل ہوتا ہے ۔ اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے غیبی معرفت حاصل کئے ہوتا ہے ۔ جو اللہ پر ایمان لانیوالوں اور فرشتوں پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ................ ” اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر اور ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک میں تفریق نہیں کرتے ۔ “ اسلام نے اللہ پر ایمان لانے کا جو تصور دیا ہے ۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی تمام کتابوں اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لے آئیں ۔ اور اس سلسلے میں کسی ایک رسول اور دوسرے رسول کے درمیان امتیاز نہ کریں ۔ اس لئے کہ اللہ پر ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ان تمام حقائق پر ایمان لے آئے ، جو منجانب اللہ آئے ہیں ۔ ان تمام رسولوں کی تصدیق کرے ، جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کبھی مبعوث ہوئے۔ اس لئے کہ وہ سرچشمہ ایک ہے ۔ جس کی جانب سے یہ سب رسول آئے ۔ وہ تمام کتابیں جو نازل ہوئیں وہ ایک ہی ذات کی طرف سے نازل ہوئیں ۔ اس لئے ، اس تصور ایمان کے نتیجے میں ایک مسلمان کے ذہن میں رسولوں کے مقام وحیثیت میں کوئی فرق و امتیاز ممکن ہی نہیں ۔ ہر رسول اللہ جل شانہ کی جانب سے مبعوث ہوا ۔ اور وہ ایسی صورت میں مبعوث ہوا ، جو ان لوگوں کے لئے حالات کے لئے مناسب تھی جن کی طرف وہ رسول مبعوث ہوا تھا۔ اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور آخرکار حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ پر ختم ہوا۔ اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت ایسی شکل و صورت میں تشکیل پائی کہ وہ قیامت تک تمام انسانیت کے لئے ایک آخری اور مکمل نظام زندگی قرار پائی۔ اس تصور ایمان کے نتیجے میں امت مسلمہ تمام رسولوں کی رسالت کی وارث قرار پائی ۔ اب اسلامی نظام زندگی امت مسلمہ کی وراثت ہے اور اس کرہ ارض پر اس کے کاندھے پر عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔ اور مومنین اللہ تعالیٰ کے صاحب اختیار علم بردار ہیں ۔ وہ صرف اللہ کا علم بلند کریں گے اور اس علم کے بل بوتے پر وہ اس کرہ ارض پر ، جاہلیت کے تمام نشانات اور علامات کا مقابلہ کریں گے ۔ اس وقت یہ جاہلیت کبھی وطنی قومیت کا علم بلند کرتی ہے ۔ کبھی نسلی قومیت کے روپ میں آگے بڑھتی ہے ۔ کبھی یہ طبقاتی رنگ میں آتی ہے اور کبھی یہ صہیونیوں اور صلیبیوں کے جھنڈوں کے سایہ میں استعماری شکل میں آتی ہے ۔ کبھی وہ الحاد اور بےدینی کی شکل میں آتی ہے ۔ غرض زمان ومکان کے اختلاف سے ، اس کے رنگ ڈھنگ بھی مختلف ہیں ۔ کبھی وہ کس نام سے آتی ہے اور کبھی کس نشان سے آتی ہے ۔ لیکن اس کے علم بردار وہی ہیں یعنی جاہلیت کے پرستار ۔ اس کرہ ارض پر امت مسلمہ جس سرمایہ کی حفاظت پر مامور ہے ، وہ اسے قدیم ترین ادوار سے اس کرہ ارض پر مبعوث ہونے والے تمام رسولوں سے ملا ہے۔ اور یہ سرمایہ پوری انسانیت کا نہایت ہی قیمتی سرمایہ ہے ۔ یہ ہدایت اور روشنی کا سرمایہ ہے ۔ یہ یقین و اطمینان کا سرمایہ ہے ۔ یہ سعادت اور رضائے الٰہی کا سرمایہ ہے ۔ یہ علم ومعرفت کا سرمایہ ہے ۔ یادر کھو ! جو دل اس سرمایہ سے تہی دامن ہوا وہ تاریکیوں اور رنج والم کا شکار ہوگا ۔ وہ اضطراب وخلجان سے دوچار ہوگا اور شکوک و شبہات میں گرفتار ہوگا۔ وہ بدبختی اور پریشانی کے ہاتھوں عاجز آجائے گا ۔ اس کی زندگی یوں گزرے گی جس طرح ایک شخص تہہ بہ تہہ اندھیروں ، بےآب وگیاہ ریگستان میں ٹامک ٹوئیاں ماررہاہو ۔ اسے نظر نہ آرہاہو کہ وہ کہاں قدم رکھے اور کہاں نہ رکھے ۔ ان دلوں کی چیخ و پکار انتہائی کربناک ہے ۔ وہ اس زاد راہ سے محروم ہوگئے ہیں ۔ جن سے یہ قیمتی سرمایہ لٹ گیا ہے ۔ جو ایسے غمگسار رفیق سفر سے محروم ہوچکے ہیں ۔ یہ کربناک چیخ و پکار تاریخ کے ہر دور میں سنی گئی ۔ بشرطیکہ دل زندہ ہوں ، ان میں احساس ہو ، وہ اپنے اندر معرفت حقیقت اور حصول یقین کا داعیہ رکھتے ہوں ۔ رہے وہ دل جو مرچکے ہیں جو غبی ہیں ، جن کی عقل موٹی ہے ، جن کی سوچ کے سوتے خشک ہوچکے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ ان میں حصول معرفت کی یہ تڑپ نہ ہو ، وہ حصول معرفت سے بےنیاز ہوں ۔ لیکن اس کرہ ارض پر ان جیسے لوگوں کی روش بہائم کی طرح روش ہوتی ہے ۔ وہ مویشیوں کی طرح کھاتے اور پیتے ہیں ۔ ان کا محبوب مشغلہ یہ ہوتا ہے ۔ اس کرہ ارض پر ظلم و استبداد کا ارتکاب کریں ، مار دھاڑ میں مشغول ہوں اس زمین میں فساد پھیلائیں اور اس سے اس طرح رخصت ہوں کہ ان پر تمام لوگوں کی نفریں ہوں اور اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ وہ معاشرے انتہائی ، بدبخت معاشرے ہیں جو اس دولت سے محروم رہ گئے ۔ اگرچہ وہ مادی سہولیات میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں ۔ یہ مرعاشرے گرے ہوئے تباہ حال معاشرے ہیں ۔ اگرچہ مادی پیداوار کے اعتبار سے ان کا گراف بہت اونچا ہو ۔ یہ معاشرے کربناک معاشرے ہیں ۔ اگرچہ وہ مکمل شہری آزادیوں سے مستفید ہوں ، داخلی طور پر زندگی پرامن ہو اور انہیں کوئی خارجی خطرہ بھی لاحق نہ ہو ، ہمارے پاس اس جدید دور میں ایسے معاشروں کی کئی مثالیں موجود ہیں ، اس بات کا انکار صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو انتہائی درجے کا مکار ہو اور جو اس قدر بےحیا ہو کہ محسوس اور کھلے حقائق کا انکار کرسکتا ہو۔ رہے اہل ایمان تو ان کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ۔ اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں ۔ وہ بارگاہ الٰہی میں تسلیم ورضا اور سمع وطاعت کے ساتھ حاضر ہوتے ہیں ۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ آخر کار اللہ کی جانب لوٹنے والے ہیں ۔ لہٰذا وہ ہر وقت اپنی تقصیرات پر طلب مغفرت کرتے ہیں وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ................ ” ہم نے حکم سنا اور اطاعت کی ۔ مالک ! ہم تجھ ہی سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ “ ان کلمات سے ایمان باللہ ، فرشتوں ، ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان کے اثرات روشنی کی طرح ظاہرہوتے ہیں ۔ ان کا ظہور سمع و اطاعت کی صورت میں ہوتا ہے۔ اہل ایمان کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کچھ پیغام آتا ہے ، وہ اسے سنتے ہیں ، وہ ہر اس حکم پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ جس کا حکم اللہ تعالیٰ دیتے ہیں ۔ یعنی ان کا قائد صرف اللہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے قائد کے ہر اشارے کو روبعمل لاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اسلام کا کوئی ایساتصور نہیں ہے جس میں اللہ کے احکام کی اطاعت نہ ہو ، جس میں پوری زندگی میں نظام ربانی کا نفاذ ضروری نہ ہو ۔ اگر کسی معاشرے کی یہ حالت ہوجائے کہ اس میں لوگ اپنی زندگیوں کے یہ چھوٹے بڑے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اتر آئے ہوں تو ایسے معاشرے کو اہل ایمان کا معاشرہ نہیں کہا جاسکتا ۔ یا جہاں اللہ کی شریعت نافذ نہ ہو ۔ جس کے اخلاقی تصورات جس کا طرز عمل ، جس کے اجتماعی اور اقتصادی اور سیاسی امور سب کے سب غیر اسلامی تصورات سے ماخوذ ہوں تو ایسے معاشرے کو کس طرح ایک اسلامی معاشرہ کہا جاسکتا ہے ۔ اس لئے ایمان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ دل مومن میں قرار پکڑے اور اس کی تصدیق عمل سے ہو۔ اور سمع وطاعت کے ساتھ ساتھ ، انسان کو اپنی تقصیرات اور کوتاہیوں کا بھی مکمل شعورہو ، وہ یقین رکھتاہو کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا حق شکر ادا نہیں کرسکتا ۔ وہ اپنے فرائض سے کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں التجا کرتا ہے کہ وہ اس کی کوتاہیوں کا تدارک اپنی رحمت اور مغفرت سے فرمائیں۔ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا ................ ” اے ہمارے رب ، ہم تیری مغفرت کے طلبگار ہیں۔ “ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ اپنی تقصیرات پر طلب مغفرت کا مقام ومحل سمع و اطاعت اور اللہ کے سامنے مکمل طور پر سر تسلیم خم کرنے کے بعد آتا ہے ۔ پہلے بغیر کسی نافرمانی اور بغیر کسی انکار کے مکمل انقیاد ضروری ہے ۔ اس کے بعد ہی انسان کے اندر یہ یقین پیدا ہوسکتا ہے کہ اس نے دنیا وآخرت میں اللہ کی طرف لوٹنا ہے ۔ اس کے عمل معاملے میں ، اور ہر عمل میں اس نے اللہ کے سامنے جوابدہی کرنی ہے ۔ اور اللہ کا فیصلہ پھر اس معاملے میں اٹل ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہ ہوگی ، اس کے مقابلے میں کوئی طاقت بچانے والی نہیں ہے ۔ اس کے فیصلے اور حکم سے صرف اس کی مغفرت ہی بچاسکتی ہے ۔ صرف اس کی رحمانیت ہی کام آسکتی ہے ۔ وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ................ ” تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ “ ان الفاظ میں ایمان بالآخرۃ کا بیان ہوا ہے ۔ اللہ پر ایمان لانے کے تقاضوں میں سے ایک بین تقاضا ایمان بالآخرت ہے ۔ اسلامی تصور حیات کے حوالے سے یہ لازم وملزوم ہیں ۔ اس تصور حیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا۔ ایک عہد کے تحت اسے زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ۔ یہ عہد اس کے اندر طے شدہ شرائط ، اس کرہ ارض پر انسان کی پوری زندگی کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔ اللہ نے یہاں اسے خلیفہ اس غرض وغایت کے لئے بنایا ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں وہ اس کا امتحان لے ۔ اور آخری امتحان کے بعد وہ آخرت میں اسے جزاء و سزاء دے ۔ اس لئے اسلامی تصور حیات کی رو سے عقیدٔ آخرت ایمان کے لازمی تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا ہے۔ اس پر ایمان لانا ، ایک مومن ومسلم کے تصورات اور اس کے طرزعمل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اسی ایمان کی روشنی میں ، اس دنیا میں ایک مومن کی اقدار حیات تشکیل پاتی ہیں ۔ اور اس کے حسی نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔ وہ مطیع فرمان ہو کر چلتا ہے ۔ وہ بھلائی کی راہ پر چلتا ہے ۔ وہ بھلائی کا متلاشی اور سچائی پر قائم رہتا ہے ۔ چاہے اس کا نتیجہ اس جہاں میں اسے بصورت راحت ملے یا بصورت مشقت ۔ اسے اس جہاں میں فائدہ ہو یا نقصان ہو ، اسے فتح ہو یا شکست ہو ، وہ کچھ پارہا ہو یا کچھ کھو رہا ہو ، اسے یہاں زندگی مل رہی ہو یا شہادت نصیب ہورہی ہو ۔ اس لئے کہ اس کی اصل جزاء اسے یوم آخرت میں ملے گی جب وہ اس دنیا کے امتحان میں کامیاب اور سرخرو ہوجائے گا ....... اس کا عزم اس قدر صمیم ہوتا ہے کہ اس کی راہ اطاعت ، راہ حق ، راہ بر اور راہ صداقت سے ، اسے پوری دنیا کی مخالفت ، پوری دنیا کی فتنہ انگیزی اور فتنہ وقتل اسے ہٹا نہیں سکتے ، کیونکہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ وہ عہد الست کو اپنی پوری شرائط کے ساتھ نافذ کررہا ہوتا ہے ۔ اور اپنے اجر کا طلب گار آخرت میں ہوتا ہے۔ یہ ایک عظیم وحدت ہے ۔ اسلامی نظریہ حیات کا یہی مزاج ہے ۔ اور اسے اس مختصر سی آیت میں سمودیا گیا ہے ۔ اللہ اور ملائکہ پر ایمان ، تمام کتابوں اور تمام رسولوں پر ایمان ، بلا تفریق و امتیاز ، اور اللہ کی طرف مکمل رجوع وسمع وطاعت کے ساتھ اور یوم آخرت میں جو ابدہی پر ایمان اور اس کا ہر وقت احساس ۔ یہ ہے اسلام ، یہ ایسا عقیدہ جو خاتم العقائد ہے ۔ یہ آخری رسالت ہے ۔ ایسا عقیدہ جو قافلہ اہل ایمان کو آغاز انسانیت سے انتہائے انسانیت تک ساتھ لے کر چلتا ہے ۔ اس کے سفر کی سمت پوری تاریخ انسانیت میں ، اللہ کے رسول متعین کرتے ہیں ۔ جن کی قیادت میں انسانیت بتدریج ترقی کے درجات طے کرتی ہے ۔ یہ عقیدہ اسے اس کائنات کے ناموس اکبر سے بقدر استطاعت انسان ، اسے متعارف کراتا ہے ۔ یہاں تک کہ آخر میں اسلامی نظام زندگی آتا ہے ۔ وہ توحید کا اعلان کرتا ہے اور عقل انسانی کو آزاد چھوڑدیا جاتا ہے کہ اب وہ معرفت کردگار میں خود آگے بڑھے ۔ یہی وہ نظریہ حیات ہے جو ایک انسان کو انسانیت سے روشناس کراتا ہے ۔ وہ اسے جمادات اور حیوانات کے مقام سے بلند کرتا ہے ۔ وہ اسے فرشتوں اور شیطانوں سے بھی ایک علیحدہ تشخص دیتا ہے ۔ وہ انسان کا بحیثیت انسان اعتراف کرتا ہے ۔ وہ اس کی کمزوریوں کو بھی تسلیم کرتا ہے اور اس کے کمالات کا بھی لحاظ رکھتا ہے ۔ وہ اسے ایک ایسی مخلوق کی طرح لیتا ہے جس کے جسم میں مختلف قسم کے رجحانات ہیں ۔ وہ ایک عقل فعال کا حامل ہے ۔ وہ ایک روح رکھتا ہے جس کے میلانات میں بوقلمونی ہے ۔ اس لئے وہ اس پر صرف ایسے فرائض و واجبات عائد کرتا ہے جن کے لئے یہ جسم اور یہ حضرت انسان اور اس کی شخصیت متحمل ہوسکتی ہے۔ یہ عقیدہ ان فرائض اور انسان کی صلاحیت اور طاقت کے درمیان بہترین توازن قائم رکھتا ہے ۔ اس قدر بوجھ ڈالتا ہے کہ انسان مشقت اور تھکاوٹ محسوس نہ کرے ۔ یہ عقیدہ انسان کے جسمانی تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے ۔ انسان کے عقلی تقاضوں کا بھی خیال رکھتا ہے ۔ اور اس کی روحانی دنیا بھی آباد کرتا ہے ۔ اور یہ سب کام انتہائی فطری توازن کے ساتھ ، اور ان سب امور کے بعد وہ انسان کو یہ آزادی عطا کرتا ہے کہ وہ جو راہ اپنے لئے اختیار کرتا ہے ، کرے۔
Top