Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 285
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ١ؕ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ١۫ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ١۫ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا١٘ۗ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ
اٰمَنَ : مان لیا الرَّسُوْلُ : رسول بِمَآ : جو کچھ اُنْزِلَ : اترا اِلَيْهِ : اس کی طرف مِنْ : سے رَّبِّهٖ : اس کا رب وَالْمُؤْمِنُوْنَ : اور مومن (جمع) كُلٌّ : سب اٰمَنَ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَمَلٰٓئِكَتِهٖ : اور اس کے فرشتے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابیں وَرُسُلِهٖ : اور اس کے رسول لَا نُفَرِّقُ : نہیں ہم فرق کرتے بَيْنَ : درمیان اَحَدٍ : کسی ایک مِّنْ رُّسُلِهٖ : اس کے رسول کے وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَاَطَعْنَا : اور ہم نے اطاعت کی غُفْرَانَكَ : تیری بخشش رَبَّنَا : ہمارے رب وَاِلَيْكَ : اور تیری طرف الْمَصِيْرُ : لوٹ کر جانا
ایمان لایا ہے رسول اس چیز پر جو اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر اتاری گئی ہے اور مومن بھی ایمان لائے ہیں ، سب ایمان لائے ہیں ۔ اللہ پر اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ( اور وہ یہ کہتے ہیں) ہم نہیں تفریق کرتے کسی میں اس کے رسولوں میں سے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم اطاعت کرتے ہیں ، ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ! اور تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے
ربط آیات گزشتہ آیت میں محاسبہ کا تذکرہ تھا کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے ظاہر کرو یا چھپائو اللہ تعالیٰ اس کا حساب لے گا ، نزول آیت پر صحابہ کرام ؓ کو سخت تشویش ہوئی کہ اگر غیر اختیاری خیالات پر بھی انسان کی گرفت ہوگئی ، تو نجات مشکل ہوجائے گی ۔ صحابہ کرام ؓ نے اپنی تشویش کا ذکر حضور نبی کریم ﷺ سے کیا ، تو آپ نے ارشاد فرمایا تم یہودیوں کی طرح یوں نہ کہو سمعنا وعصینا یعنی ہم نے سن لیا اور انکار کردیا بلکہ اس قسم کی صورت حال میں یوں کہا کرو۔ سمعناواطعنا ہم نے سن لیا اور مان لیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے معانی مانگو چناچہ صحابہ کرام نے دل کی پوری محبت کے ساتھ کہا سمعنا واطعنا غفرانک ربنا والیک المصیر مدح صحابہ کرام ؓ اس آیت میں در حقیقت اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام ؓ کی تعریف فرمائی ہے۔ کیونکہ انہوں نے دلی محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو قبول کیا اور اس میں کسی قسم کا لیت و لعل نہ کیا ، بلکہ اللہ کے حضور اپنی عاجزی کا اظہار کیا ، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو صحابہ ؓ کی ادا پسند آئی اور اس کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ کا ذکر مبارک بھی ہے۔ جس کی وجہ سے صحابہ ؓ کی شان مزید بلند ہوگئی۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ نے صحابہ ؓ کے ساتھ حضور نبی کریم ﷺ کا ذکر کر کے یہ بات واضح کی ہے کہ صحابہ کرام ؓ بھی حضور ﷺ کی طرح ایماندار تھے۔ اور ان کے ایمان حضور ﷺ کے ایمان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ، اگرچہ پیغمبر کا ایمان اکمل درجے کا ہوتا ہے اور صحابہ ؓ کا ایمان کامل درجے کا ، مگر دونوں طرح کے ایمانوں کو باہم ملانے سے صحابہ کرام ؓ کے درجات کی بلندی کی نشان دہی ہوتی ہے۔ صحابہ کرام ؓ کی اس اطاعت گزاری پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون جو چیز رسول کی طرف اس کے رب کی طرف سے اتاری گئی تھی ۔ رسول اس پر ایمان لایا اور اس کے ساتھ مومن بھی ایمان لائے ، یہاں پر ا کی بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ شریعت نبی پر نازلہوتی ہے کسی غیرنبی پر نہیں ، اور دوسرے یہ کہ صحابہ ؓ بھی اس چیز پر ایمان لائے جس پر پیغمبر لایا ہے ، تو صحابہ کرام ؓ کی مدح ہوگئی اور ان کی حوصلہ افزائی ٹھہری اور یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوئی جب کہ صحابہ ؓ نے کمال عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کے حکم کو قبول کیا اور اپنی لغزشوں کی معافی طلب کی ۔ تصدیق بالقلب اور آگے ایمان کے ارکان کا بیان ہے کل امن باللہ سب کے سب صحابہ کرام ؓ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ، بنیادی طور پر ایمان کے پانچ ارکان ہیں جن کے دل سے تصدیق کرنا ضروری ہے۔ ورنہ ایمان مکمل نہیں ہوگا یہ ارکان سب سے پہلے اللہ پر ایمان لانا ، پھر فرشتوں پر ، رسولوں پر ، کتابوں پر اور قیامت کے دن پر ایمان لانا ہے۔ شاہ عبد القادر امن کا ترجمہ مان لیا کرتے ہیں یعنی دل سے تسلیم کرلیا گویا دل سے تصدیق کرنے کا نام ایمان ہے ، اگرچہ زبان سے اقرار بھی لازم ہے ، مگر اس کی تکمیل تصدیق قلبی سے ہی ہوتی ہے ۔ اقرار باللسان وتصدیق بالقلب۔ ایمان باللہ سب سے پہلے ایمان باللہ کا درجہ ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود کا قائل ہونا کیونکہ یہ بنیادی چیز ہے ، نہ صرف اس کا وجود ہے بلکہ وہ واجب الوجود بھی ہے یعنی اس کا وجود خود بخود ہے۔ کسی دوسرے کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ اللہ کے علاوہ ہر چیز کا وجود عطا کیا ہوا ہے اور عارضی ہے مگر اللہ ہی ایک واحد ذات ہے جو واجب الوجود ہے ، اللہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی نام ہے اور اس لفظ میں یہ چیز پائی جاتی ہے ۔ واجب الوجود المستجمع لجمیع صفات الکمال واجب الوجود وہ ذات ہے جس میں تمام صفات کمال پائی جاتی ہیں ، وہ ذات مبرء عن النقص والزوال ہے ، اس ذات میں نہ کوئی عیب ہے اور نہ کوئی نقصان والی چیز ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ دائم و قائم رہے گا ، اسے کبھی زوال نہیں آئے گا ، جب لفظ اللہ بولا جاتا ہے تو یہ تمام صفات اس میں آجاتی ہیں ۔ فارسی زبان میں جب اللہ کا ترجمہ خدا کیا جاتا ہے تو اس کا معنی بھی یہی ہے کہ وہ ہستی جو خود بخود ہے ، کسی دوسرے کی محتاج نہیں ، گویا یہ لفظ بھی واجب الوجود کا ہی ہم معنی ہے کہ وہ ذات خود بخود ہے اور جمیع صفات کمال کے ساتھ متصف ہے ، وہ ذات نقص و زوا ال جیسی صفات سے پاک ہے۔ اللہ تعالٰ کی صفات کمال کا ذکر قران پاک میں موجود ہے اور ان ہی سے اللہ کی پہچان ہوتی ہے۔ ان صفات میں الرحمن ، الرحیم ، المالک ، القہار ، الستار ، الصمد ، الغنی ، الحی القیوم وغیرہ ہیں ۔ یہ سب وجودی یا مثبت صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بعض منفی صفات ہیں ، مثلاً لم یلد و لم یولد لم یتخذ ولد ، ولم تکن لہ صاحبۃ یعنی نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اسکی بیوی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے ۔ لا تاخذہ سنۃ ولا نوم اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند آتی ہے ، اللہ تعالیٰ ان تمام عیب اور نقصان والی صفات سے پاک اور منزہ ہے ۔ جب سبحان اللہ کہا جاتا ہے تو اس کا معنی بھی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نقصان اور عیب والی صفات سے پاک ہے ، نہ اس کو تھکاوٹ ہوتی ہے اور نہ اس پر موت طاری ہوتی ہے۔ الحمد للہ کا بھی یہی معنی ہے کہ وہ تمام صفات کمال کا مالک ہے۔ صفات الٰہی پر ایما جس طرح اللہ کی ذات پر ایمان لانا ضروری ہے ، اسی طرح اس کی صفات پر ایمان لانا بھی لازمی ہے۔ اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا ، مثلاً کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی ہستی کو مانتا ہے ، مگر توحید کو نہیں مانتا ، تو وہ ایماندار ہیں ہے ، یا ایک کی بجائے دو یا تین الٰہ مانتا ہے جیسے مجوسی یا عیسائی وغیرہ تو بھی مشرک اور کافر ہوگیا ۔ اگر توحید میں کوئی خرابی آئے گی تو انسان کافر ہوجائے گا ۔ حضرت امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خدا کی ہستی کو ماننے کے باوجود کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کے لیے رسول نہیں بھیجتا تو پھر بھی کافر ہے ، کیونکہ رسول مبعوث کرنا اللہ کی صفت ہے جس سے انکار کیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور خاتم النبیین ﷺ تک ایک لاکھ سے زیادہ انبیاء اور رسول بھیجے ہیں اور آخر میں آپ کو مکمل پروگرام دے کر سلسلہ نبوت کو ختم کردیا ہے اب قیامت کا انتظار ہے ، کوئی نیا پروگرام نہیں آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت تقدیر بھی ہے ، حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت میں تصریح ہے۔۔۔۔ کہ جب تک کوئی تقدیر پر ایمان نہیں لائے گا ، خدا کی بارگاہ میں اس کی عبادت مقبول نہیں ۔ خواہ وہ احد کے پہا ڑ کے برابر سونا خرچ کر دے اور تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ کائنات میں ہوچکا ہے ، ہو رہا ہے یا آئندہ ہوگا ، سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم ، قدرت اور مشیت سے ہوتا ہے ، والذین قدرفھدی وہی ذات ہے جس نے تمام چیزوں کو مقدر فرمایا ہے ، لہٰذا اللہ میں تقدیر پر ایمان لانا بھی آ گیا ، کیونکہ اللہ کی صفت ہے اور اس کی تمام صفات پر ایمان لانا ضروری ہے۔ فرشتوں پر ایمان فرمایا رسول اور اس کے صحابہ ؓ اللہ پر ایمان لائے ، وملئکۃ اور اس کے فرشتوں پر بھی ایمان لائے ، فرشتوں پر ایمان لانا ، ایمان کا دوسرا رکن ہے سب سے پہلے فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا ہوگا ، اور پھر فرشتوں کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ جیسے ملاء الاعلیٰ اور ملاء السافل ، عرش کے گرد گھومنے والے فرشتے ، علین میں رہنے والے ، آسمانوں پر مقیم اور پھر فضا میں رہنے والے زمین پر رہنے والے یہ تمام فرشتوں کی مختلف اقسام ہیں ۔ امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں ۔ ملاء الاعلیٰ سے ملاء السافل تک فرشتوں کی سات قسمیں متعین ہیں اور ہر ایک قسم کو اللہ تعالیٰ نے الگ الگ اور مختلف نوعیت میں پیدا کیا ہے۔ جو فرشتے ملاء الاعلیٰ والے ہیں وہ اعلیٰ ترین یا نفیس ترین ہیں ۔ ویسے فرشتے خواہ اوپر کے ہوں یا نیچے کے دوسری مخلوق سے لطیف تر ہیں ۔ اس نورانی مخلوق میں روح ، عقل اور شعور پایا جاتا ہے ، وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتے رہتے ہیں اور یہ عبادت الٰہی سے نہ تھکتے ہیں ، نہ اکتانے ہیں ۔ وہ معصوم ہیں ، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کبھی نہیں کرتے۔ لا یعصون اللہ ما امرھم اور اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ حکم کرتا ہے ، اس کی تعمیل کرتے ہیں ویفعلون ما یومرون یہ اللہ تعالیٰ کی مقرب مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جو فیضان کائنات میں پہنچتا ہے وہ انہی فرشتوں کے ذریعے پہنچتا ہے فرشتوں کے بعد لطافت کے لحاظ سے دوسرے درجے کی مخلوق جنات ہیں مگر وہ معصوم نہیں ہیں ۔ بنی نوح انسان میں سے صرف انبیاء کی جماعت معصوم ہے باقی کسی مخلوق کو یہ گارنٹی حاصل نہیں ہے۔ لطیف مخلوق ہونے کی وجہ سے فرشتے ہمیں اس دنیا میں نظر نہیں آتے ہاں اگر وہ شکل تبدیل کرلیں تو انسانوں کو بھی نظر آسکتے ہیں ۔ حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں جب جبرائیل (علیہ السلام) وحیہ کلبی ؓ یا کسی مسافر کی صورت میں آتے تھے ، تو نظر آتے تھے۔ عالم برزخ اس مادی جہاں سے لطیف ہے اور حشر اسے سے بھی زیادہ لطیف ہے۔ جب انسان اس جہان میں پہنچیں گے تو ان میں بھی کمال درجے کی لطافت پیدا ہو جائیگی ، لہٰذا سب کو فرشتے نظر آئیں گے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جتنی لوگوں کے پاس فرشتے آ کر سلام کریں گے سلام علیکم طبتم غرضیکہ فرشتوں پر ایمان لانا بھی ارکان ایمان میں سے ہے۔ کتابوں پر ایمان ایمان باللہ اور ایمان بالملائکہ کے بعد فرما ای وکتبہ یعنی حضور رسول مقبول اور صحابہ کرام ؓ اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر بھی ایمان لائے ہیں ۔ کتب جمع کا صیغہ ہے کہ اجمالا ً تمام آسمانی کتب پر ایمان لانا اور تفصیلا ً قرآن پاک پر ایمان لاناضروری ہے۔ قرآن پاک کا ہر حکم صحیح ، بر حق اور واجب التعمیل ہے ۔ پہلی کتابیں بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمائیں ۔ ان کے تمام احکام پر عمل کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے ، کیونکہ ان میں سے اکثر احکام منسوخ ہوچکے ہیں ، تا ہم ان کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ نے کل کتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں ، اس بارے میں قرآن پاک کی کسی آیت یا کسی صحیح روایت میں کوئی تصریح نہیں ملتی ، ہاں بزرگان دین کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چار کتابیں تو بڑی ہیں ، یعنی زبور ، تورات ، انجیل اور قرآن پاک اس کے علاوہ کچھ چھوٹی کتابیں یا صحیفے ہیں ۔ امام شافعی (رح) کی روایت کے مطابق ایک سو چار کتابیں اور صحیفے اللہ نے نازل فرمائے ۔ ہر نبی کے لیے کتاب کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بہت سے انبیاء اپنے سے قبل آنے والی کتاب کی ہی پیروی کا درس دیتے رہے۔ مثلاً نزول تورات کے بعد جتنے نبی آئے وہ تورات کی ہی تبلیغ کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان پر وحی آتی تھی ، مگر قانون تورات کا ہی چلتا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفوں کا ذکر آتا ہے۔ اسی طرح یونس (علیہ السلام) اور بعض دیگر انبیاء کے صحیفے بھی تھے۔ موجود بائیبل یعنی تورات کے ساتھ 39 صحیفے اور انجیل بھی ہے۔ پہلے پانچ با ب تورات کے ہیں اور باقی دوسرے نبیوں کے صحیفے ہیں ۔ اس طرح یہ سب خلط ملط ہوچکا ہے۔ یہود و نصاریٰ نے اللہ کی کتابوں میں بہت گڑ بڑ کی ہے ، مگر کچھ چیزیں آج بھی صحیح ہیں اور قرآن کے مطابق ہیں ، یہ روایت بھی مشہور ہے کہ حضر ت ادریس (علیہ السلام) پر تیس صحیفے نازل ہوئے تھے ۔ بہر حال آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ہے۔ رسولوں پر ایمان آگے ایمان کے چوتھے جزو کے متعلق فرمایا ورسلہ یعنی اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے اس کے بعد بغیر ایمان مکم نہیں ہوتا ، اگر کوئی شخص اللہ کے رسولوں میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرے گا ، تو کافر ہوجائے گا ۔ نصاریٰ کو دیکھ لیں ، سابقہ تمام انبیاء کو مانتے ہیں مگر حضور خاتم النبیین کو تسلیم نہیں کرتے ، لہٰذا کافر ٹھہرے۔ تمام رسولوں پر ایمان لانے کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمائی لا نفرق بین احد من رسلہ ہم اللہ کے رسولوں کے درمیان تفریق نہیں کرتے ، یعنی ایسا نہیں ہے کہ کسی رسول کو مان لیا اور کسی کو انکار کردیا ۔ یہودیوں کا یہی حال ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان ہے ، مگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے منکر ہیں ۔ حضور خاتم النبیین کو بھی ہیں مانتے ، لہٰذا یہ کافر ہی ہیں ، جب تک ہر رسول پر ایمان نہ رکھیں خواہ ان کا نام معلوم ہے یا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جس جس دور میں جس جس نبی کو مبعوث فرمایا۔ وہ سب اس کے برگزیدہ بندے تھے ، اپنی اپنی قوم کے ہادی اور رہنما تھے ، ہم ا ن سب کی تصدیق کرتے ہیں وما اوتی النبیون من ربھم جو کچھ بھی اللہ نے اپنے نبیوں کو دیا ہے سب بر حق ہے اور ہمارا ان پر ایمان ہے لا نفرق کا یہی معنی ہے۔ حضرت ابو ذر غفاری (رح) کی روایت میں موجود ہے انہوں نے عر ض کیا ۔ حضور انبیاء کرا م کا سلسلہ کیسے شروع ہوا ، تو آپ نے فرمایا کہ سب سے پہلے بنی آدم (علیہ السلام) تھے ، گویا سب سے پہلے انسان نبی تھے ۔ صحابی نے عرض کیا ۔ حضور کیا وہ نبی تھے ارشاد فرمایا ، ہاں نبی مکلم تھے۔ اللہ نے ان سے کلام فرمایا تھا اور سب سے آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں ۔ روایت میں یہ بھی ہے کہ مجموعی طور پر ایک لاکھ چوبیس ہزار یا کم و بیش نبی اور رسول آئے ہیں ۔ بہر حال یہ سب بر حق نبی اور رسول تھے ، رسول وہ ہوتا ہے جس کو مستقل شریعت ملے ، اسے کتاب کا ملنا ضروری نہیں ہے ۔ شریعت ضروری ہے ، مثلاً حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اللہ کے رسول تھے مگر ان پر مستقل کتاب نازل نہیں ہوئی۔ الغرض ! تفریق بین الرسل کفر ہے۔ تمام انبیاء اور رسل پر ایمان لانا ضروری ہے اگر کسی ایک کا بھی انکار کیا ، تو سب کے انکار کے مترادف ہوگا ، اس آیت میں ایمان کے اجرا بیان ہوچکے اور ساتھ ساتھ حضور ﷺ کے صحابہ ؓ کی تعریف بھی بیان ہوگئی۔ بخشش کی طلب وقالوا سمعنا ان سب نے کہا کہ ہم نے سن لیا ، اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل فرمایا ہے۔ وہ ہم تک پہنچ گیا واطعنا اور ہم اس کی دل و جان سے فرمانبرداری کرتے ہیں ۔ اطاعت کرتے ہیں ، کسی چیز کا انکار نہیں کرتے۔ غفرانک ربنا اے پروردگار ! ہم تجھ سے بخشش کے طلب گار ہیں ، ہمیں بخش دے اور ہماری کوتاہیوں کو معاف کردیا جائے ، عفران کا معنی ڈھانپ دینا ہوتا ہے۔ یہاں مقصد یہ ہے کہ ہماری لغزشوں کو اپنی بخشش کے پردے میں ڈھانپ لے ، ا ن پر کوئی بازپرس نہ کرنا ۔ قیامت پر ایمان اب ایمان کے پانچویں جزو کے متعلق فرمایا والیک المصیر اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے ، گویا معاد یعنی قیامت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ ایک وقت آئے گا جب قیامت برپا ہوگی ۔ پھر سب کو اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حاضر ہو کر اپنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہوگی ۔ اس کے بغیر بھی انسان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا ، گویا یہ ایمان کے پانچ جزوہو گئے ، توحید ، رسول ، ملائکہ ، کتب اور قیامت کا دن دوسرے مقام پر فرمایا وبالاخرۃ ھم یوقنون وہ آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ۔ وہ اس جہاں کا آخری دن ہوگا اس کے بعد دوسرے جہان کے ایام شروع ہوجائیں گے ۔ اور ان کی نوعت الگ ہوگی۔ لہٰذا آخرت کے دین (Last Day) پر ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ وہ دن آنے والا ہے ، جب حساب کتاب ہوگا اور اس کے نتیجے میں جزا یا سزا اور جنت یا دوزخ کی منزل بر حق ہے ، جب انسان کو مکلف بنایا گیا ہے ، تو پھر اس کے لیے جزاء سزا کا ہونا بھی لازمی ہے۔ اس کی تصدیق ضروری ہے ، ورنہ آدمی کافر ہوجائے گا ۔ جب تک ایمان کے تمام ارکان پر ایمان نہیں لائے گا ، گرفت سے نہیں بچ سکتا ۔ یہ وہی اجزائے ایمان ہیں ، جن کے متعلق سورة کی ابتداء میں اشارہ کیا گیا تھا۔ یومنون بالغیب یعنی متقین وہ ہیں جو بن دیکھے ایمان رکھتے ہیں ۔ یہاں پر اسی چیز کی تشریح ہے کہ وہ کون کون سے امور ہیں ، جن پر ایمان لاناضروری ہے ۔ تو یہاں پر واضح کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بمع اسکی صفات ملائکہ ، کتابیں رسول اور روز قیامت ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے ، حالانکہ نہ ملائکہ کو دیکھا ، نہ رسولوں کو اور نہ قیامت کو دیکھا مگر ان پر ایمان لانا ضروری ہے یہی ایمان بالغیب ہے۔
Top