Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 66
وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًاۙ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّا كَتَبْنَا : ہم لکھ دیتے (حکم کرتے) عَلَيْهِمْ : ان پر اَنِ : کہ اقْتُلُوْٓا : قتل کرو تم اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ اَوِ اخْرُجُوْا : یا نکل جاؤ مِنْ : سے دِيَارِكُمْ : اپنے گھر مَّا فَعَلُوْهُ : وہ یہ نہ کرتے اِلَّا : سوائے قَلِيْلٌ : چند ایک مِّنْھُمْ : ان سے وَلَوْ : اور اگر اَنَّھُمْ : یہ لوگ فَعَلُوْا : کرتے مَا : جو يُوْعَظُوْنَ : نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : اس کی لَكَانَ : البتہ ہوتا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے وَاَشَدَّ : اور زیادہ تَثْبِيْتًا : ثابت رکھنے والا
اور اگر ہم ان منافقوں پر یہ بات فرض کردیتے کہ تم اپنی جانوں کو ہلاک کردیا اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکل جائو تو سوائے چند آدمیوں کے ان میں سے کوئی بھی اس حکم کی تعمیل نہ کرتا اور اگر یہ لوگ جس بات کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے اس پر عمل کیا کرتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور ایمان کو پختہ کرنے کا موجب ہوتا2
2 اور اگر ہم لوگوں پر یہ بات فرض کردیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرو اور خودکشی کردیا اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکل جائو اور وطن سے بےوطن ہو جائو تو سوائے معدودے چند اور تھوڑے سے لوگوں کے ان میں سے اس حکم کی کوئی بھی تعمیل نہ کرتا اور اگر یہ منافق جس بات کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے یعنی رسول کی کامل اطاعت اور ان کے حق میں ثواب کے اعتبار سے بہتر اور ایمان کی تکمیل کے اعتبار سے پختہ اور مضبوط کرنے والا ہوتا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی مالک کے حکم میں تو جان تک دریغ نہ کرنا چاہئے اگر اللہ ویسے حکم کرتا تو یہ منافق کب کرسکتے یہ حکم تو نصیحت کے ہیں انہیں پر چلیں تو نفاق جاتا رہے اور مومن ہوجاویں غنیمت نہیں سمجھتے۔ (موضح القرآن) آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کا ان کو حکم دیا جا رہا ہے اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی جا رہی ہے وہ تو آسان اور سہل باتیں ہیں اور ان سے بھی یہ جان چرا رہے ہیں۔ اگر فرض کرو ! ہم لوگوں پر خودکشی پر فرض کردیتے یا ترک وطن کو فرض کردیتے اور احکام مقصودہ کی طرح یہ چیزیں لوگوں پر فرض ہوجاتیں تو سوائے ان چند لوگوں کے جن کے ایمان کامل ہوتے اور کوئی بھی اس حکم اور اس فریضہ کو ان میں سے پورا نہ کرتا لیکن اب جن آسان اور سہل باتوں کو ان پر لازم کیا گیا ہے اور جن باتوں کی ان کو نصیحت کی گئی ہے ان کو بجا لائیں اور ان کی پوری پوری تعمیل کریں تو ان کے حق میں ثواب کے اعتبار سے بہتر ہوگا یعنی زیادہ اطاعت کرنے میں زیادہ ثواب ملے اور نیز تکمیل دین اور کمال ایمان کے لئے ان احکام کی بجا آوری مضبوطی اور تثبیت کا سبب ہو کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ دین کی خدمت کرنے سے انسان کا عقیدہ پختہ ہوتا ہے اور باطن کی اصلاح ہوتی ہے چونکہ علیہم کی ضمیر کے مرجع میں دو قول تھے اس لئے ہم نے ترجمہ میں ایک قول کی اور تیسیر میں دوسرے قول کی رعایت رکھی ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضر عمر حضرت عمار بن یاسر اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا اگر ایسا حکم ہوتا تو خدا کی قسم ہم اس حکم کی تعمیل کرتے خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو محفوظ رکھا نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب کا جب یہ قول سنا تو فرمایا کہ میری امت میں ایسے لوگ ہیں جن کے ایمان ان کے دلوں میں پہاڑوں سے بھی زیادہ جمے ہوئے ہیں اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ جہاد اور ہجرت تو اب بھی اسلام میں ہے اور جہاد میں قتل اور ہجرت میں ترک وطن ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ چیزیں مقصود نہیں ہیں بلکہ اعلاء کلمتہ اللہ کے سلسلہ میں کبھی کبھی پیش آجاتی ہیں اصل مقصد تو اعلاء کلمتہ اللہ ہے اگر اعلاء کلمتہ اللہ بدون جہاد اور بدون ہجرت کے حاصل ہوجائے تو نہ جہاد کی ضرورت ہے اور نہ ہجرت کی اور قلیل سے تمام قلیل ہی ہوتے ہیں۔ اب آگے کثرت ثواب اور تثبیت ایمان جو کامل اطاعت و فرمانبرداری کا ثمرہ تھا اس پر جو اثرات مرتب ہونے والے ہیں ان کا اظہار فرماتے ہیں کامل اطاعت و فرمانبرداری سبب بنا کثرت ثواب اور تثبیت ایمان فی القلوب کا اور یہ دونوں چیزیں سبب نہیں دوسرے منافع کا چناچہ ان منافع کا آگے ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top