Tafseer-e-Haqqani - Al-Waaqia : 13
ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَۙ
ثُلَّةٌ : ایک بڑا گروہ ہیں مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ : اگلے لوگوں میں سے
بہت سے تو اگلے لوگوں میں سے ہوں گے
ترکیب : ثلۃ مبتدائ۔ وھی القطعۃ والفرقۃ من ثللت الشیء اذاقطعۃ وقلیل معطوف علی المبتداء علی سررا لخ خبروقیل ھم ثلۃ سرر بضم السین والراء الاولیٰ وقریٔ بفتح الراء وھی لغۃ جمع سر 1 ؎ یر موضونۃ منسوجۃ والضن النسج المضاعف یقال وضن الشیء یضنہ فھوموضون ووضین متکئین و متقابلین حالان من الضمیر فی الخبر وقیل متقابلین حال من الضمیر فی متکئین یطوف مستانقہ ویجوزان یکون حالا باکواب متعلق بیطوف اکواب جمع کو ب (کوزہ بےدستہ) صراح۔ واباریق جمع ابریق کو زہ بادستہ معطوف علی اکواب وحوربالرفع علیٰ انہ معطوف علیٰ ولدان اولھم حورویقرء بالنصب علی تقدیر یعطون وبالجر عطفاً علی اکواب والحورجمع حوراء والعین جمع عیناء خبراومفعول لہ اومفعول مطلق ای یخبرون خبراء ً الا قیلا استثناء منقطع سلاما بدل منہ او صفۃ اومفعولہ بمعنی الاان یقولو سلاماً اومصدر ای یسلمون سلاما والتکریر للتکثیر ای یفشون السلام بینھم۔ تفسیر : اور سابقین انبیاء (علیہم السلام) و اولیائِ کرام ہیں۔ ان تینوں فرقوں میں اعلیٰ درجہ کے سابقون ہیں لیکن سب کے اخیران کا ذکر اس لیے آیا کہ انہیں کے فضائل و درجات کا سب سے اول بیان کرنا مقصود تھا اس صورت میں اتصال ہوگیا۔ فرقہ سابقین کا ذکر : سب سے اول سابقون کے درجات بیان فرماتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلاتا ہے کہ سابقون پہلے لوگوں میں سے کتنے ہیں اور پچھلوں میں سے کتنے ؟ اس لیے فرمایا ثلۃ من الاولین وقلیل من الاخرین کہ یہ سابقین پہلے زمانے والوں میں سے ایک گروہ ہے اور پچھلے زمانے والوں میں سے تھوڑے سے۔ پہلا زمانہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر ہمارے نبی ﷺ تک۔ بیشک ان میں سابقین زیادہ ہیں کس لیے کہ ان میں تمام انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے مخلصین شامل ہیں اور ان کی تعداد بہت ہے اور پچھلا زمانہ ہمارے حضرت ﷺ سے لے کر قیامت تک۔ ان میں سابقین بہ نسبت پہلے زمانے والوں کے کم ہیں گو فی نفسہٖ بہت ہیں ان میں ہمارے حضرت ﷺ ہیں اور آل و اصحاب ؓ و اولیائے کرام جو سعادت کے درجہ قصویٰ تک پہنچ گئے تھے۔ یہ مجاہد و حسن بصری ; کا قول ہے جیسا کہ ابن ابی حاتم نے ان سے نقل کیا ہے اور ابن جریر (رح) نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے اور تائید کرتی ہے اس قول کی وہ حدیث کہ جس کو امام احمد (رح) نے ابی ہریرہ ؓ اور حافظ ابن عساکر نے جابر بن عبداللہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ ؓ پر یہ بات شاق گزری کہ سابقین پہلے لوگوں میں سے بہت ہوں اور ہم میں سے کم۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ تم تمام اہل جنت کے چوتھائی یا تہائی بلکہ نصف ہو گے یعنی گو تم میں سے سابقین کم ہیں مگر جنت میں داخل ہونا سابقین میں سے ہونے پر موقوف نہیں۔ اصحاب الیمین بھی جنت میں داخل ہوں گے۔ اصحاب الیمین تم میں سے ایک بڑا فریق ہے جیسا کہ سورة کے اخیر میں ہے۔ ثلۃ من الاولین وثلۃ من الآخرین۔ ابن سیرین وغیرہ کا قول ہے کہ ثلۃ من الاولین وقلیل من الاخرین میں اسی امت خیرالامم کے اولین و آخرین مراد ہیں کہ اس کے اولین یعنی خیرالقرون کے لوگوں میں سابقین بہت ہیں اور پچھلوں میں جو خیرالقرون کے بعد کا زمانہ ہے ان میں سے کم۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اب سابقین کے لیے جو وہاں عیش و آرام ہیں ان کا بیان فرماتا ہے۔ ان کے درجات اجمالاً ایک جملے میں پہلے بیان فرمائے تھے کہ اولئک المقربون کہ وہ مقرب الٰہی ہیں۔ یہ روحانی جنت کی طرف اشارہ ہے۔ وہ اس کی تجلی جمال و مشاہدہ انوار میں شاداں وفرحاں رہیں گے۔ فی جنات النعیم یہ مشاہدہ بری جگہ میں نہ ہوگا بلکہ نعمت کے بھرے ہوئے باغوں میں۔ اب ان نعمتوں کا ذکر کسی قدر تفصیل کے ساتھ کرتا ہے۔ فقال علیٰ سررموضونۃ کہ طلائی تاروں سے بنے ہوئے تختوں اور چھپرکھٹوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے تکیہ لگائے ہوئے اور ان کے پاس ولدان مخلدون لڑکے کہ جن کا لڑکپن ہمیشہ رہے گا (فراء کہتے ہیں عرب اس شخص کو کہ جو بڑی عمر کا ہو اور اس کی صورت میں فرق نہ آئے مخلد کہتے ہیں یعنی وہ لڑکے ہمیشہ اسی حسن و جمال کے ساتھ رہیں گے یہ اس لیے کہ لڑکپن کا زمانہ اور حسن کی بہار بہت ہی تھوڑی ہوا کرتی ہے۔ سعید بن جبیر ؓ کہتے ہیں مخلدون کے معنی ہیں کہ خلدہ یعنی بالا پہنے ہوئے ہوں گے۔ ان کے کانوں میں بالے پڑے ہوں گے۔ وہ لڑکے کفارومشرکین کی وہ صغیر اولاد ہوگی جو نابالغی میں مرگئے اور ممکن ہے کہ حوروں کی طرح وہ بھی ایک نئی مخلوق ہو، دنیا کے لڑکے نہ ہوں۔ لڑکوں کا خدمت کے لیے چیزیں لانا لے جانا صرف ان کے حسن کی وجہ سے بلکہ ان کی پھرتی اور بالے پنے کے ساتھ ہنسنے بولنے میں عجب لطف دیتا ہے) ۔ ان کے پاس پیالے اور آبخورے اور رکابیاں اور طشتریاں (اکواب) اور لوٹے اور آفتابے یعنی چمکتے ہوئے دستہ دار برتن (اباریق) اور جام جن میں طلائی کام کئے ہوں گے (کاس) لائیں لے جائیں گے۔ پھر ان برتنوں میں کیا ہوگا ؟ سب سے پہلے جام کی چیز بتلاتا ہے جس کے پینے سے سرور ہو وہ کیا ہے معین صاف شفاف پانی یا کوئی جنتی عرق یا کوئی خاص وہاں کی ساخت کی شراب جو کسی برتن میں سے نہ انڈیلی جائے گی بلکہ اس کا وہاں چشمہ جاری ہوگا جس سے نہ سر میں درد اور خمار ہوگا نہ بیہوشی ہوگی۔ لایصدعون عنہا اور جب ہوش ہی بجا نہ رہے تو کوئی لطف باقی نہ رہا۔ ایک شخص مردے کی طرح پڑا ہے خواہ منہ میں مکھیاں گھسیں یا کتے موتیں اور اس کی محبوب چیزوں کو کوئی کام میں لائے وہاں ایسا نہ ہوگا اور اسی لیے دنیا کی شراب حرام کی گئی۔ اور ان برتنوں میں کیا ہوگا ؟ وفاکہۃ مما یتخیرون وہ عمدہ میوے کہ جن کو وہ پسند کریں گے۔ ولحم طیر مما یشتہوں اور ان پرندوں کا گوشت کہ جن کو چاہیں گے۔ پرند کا گوشت ہی مزے دار ہوتا ہے پھر ان میں سے بھی وہ کہ جو مرغوب ہو۔ یہ تو کھانے پینے کا سامان تھا مگر اس کی زینت اور جان حسین عورتوں سے ہوتی ہے اس لیے فرمایا وحورعین کا مثال اللولوء المکنون۔ حوریں یعنی گوری رنگت والیاں۔ عین بڑی بڑی آنکھوں والیاں جیسے سیپ کے اندر کے موتی۔ نہ کوئی عیب ہوگا نہ کسی کی صرف میں آئی ہوئی ہوں گی جیسا موتی سیپ کا کسی کے استعمال میں آیا ہوا نہیں ہوتا نہ اس پر کوئی بیرونی عیب و نقصان پہنچا ہوتا ہے۔ وہ چھیدا ہوا ہوتا ہے۔ ان سب باتوں میں اور نیز خوبصورتی میں سیپ کے موتی کے ساتھ تشبیہ کیا عمدہ تشبیہ ہے۔ یہ بدلہ ہوگا ان کے دنیاوی نیک کاموں کا۔ ان سب خوبیوں کے ساتھ کوئی ضرر و تکلیف نہ ہونا بھی بڑی خوبی ہے اس لیے فرماتا ہے لایسمعون فیہا الخ کہ وہاں کوئی بیہودہ اور تاثیم یعنی قابل الزام رنج دہ بات سننے میں بھی نہ آئے گی۔ صرف باہم سلام کہنا اور اس کے متعلق جو دل خوش کرنے والی بات ہو۔
Top