Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 160
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَ اَصْلَحُوْا وَ بَیَّنُوْا فَاُولٰٓئِكَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو تَابُوْا : جنہوں نے توبہ کی وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی وَبَيَّنُوْا : اور واضح کیا فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ ہیں اَتُوْبُ : میں معاف کرتا ہوں عَلَيْهِمْ : انہیں وَاَنَا : اور میں التَّوَّابُ : معاف کرنے والا الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
مگر وہ کہ جنہوں نے توبہ کی اور نیکی اختیار کی اور صاف ظاہر کردیا تو ہم بھی ان کو معاف کردیتے ہیں اور ہم تو بڑے ہی معاف کرنے والے مہربان ہیں۔
ترکیب : الذین موصول یکتمون فعل بافاعل ما انزلنا اس کا مفعول من البینت والہدٰی بیان ما من بعد ما متعلق ہے یکتمون سے فی الکتاب متعلق ہے بیناہ سے یہ سب مجموعہ صلہ ہوا۔ پھر موصول وصلہ اسم ان اور اولئک مبتدا یلعنہم الخ جملہ اس کی خبر پھر یہ مجموعہ خبر ہے۔ ان کی الا الذین الخ استثناء متصل موضع نصب میں ہے اور مستثنیٰ منہ ضمیر ہے یلعنہم میں الذین کفروا الخ اسم ان اولئک مبتداء علیہم لعنۃ اللہ الخ خبر جملہ خبران خالدین حال سے ضمیر علیہم سے اور لایخفف حال ہے ضمیر خالدین سے۔ تفسیر : اول تحویل قبلہ کے بارے میں گفتگو تھی اور اس کے ضمن میں کعبہ کی فضیلت اور یہود و نصاریٰ کے شکوک و شبہات کا جواب تھا کیونکہ وہ کعبہ اور حج وغیرہ امور کی نسبت یہ کہتے تھے کہ یہ جاہلیت کی باتیں ہیں۔ پیغمبر برحق ہوتے تو ان باتوں کو نہ کرتے۔ پھر اس کلام کو عمدہ نصیحت اور یاد الٰہی اور شکر اور صبر کی تاکید اور اس کے عمدہ نتائج پر ختم کرکے اصل مدعا کی طرف رجوع کرتا ہے کہ ہمارے پیغمبر کی شریعت اور جس قدر اس کے اصول ہیں وہ سب کتب انبیاء تورات وغیرہ میں مذکور ہیں اور نیز اس نبی کی بشارتیں اور فاران سے خدا کا جلوہ گر ہونا اور بنی قیدار میں خدا کا فضل و رحمت کا وعدہ سب کچھ ان کتب میں خدا تعالیٰ نے بیان کردیا ہے مگر تعصب وعناد سے اہل کتاب ان باتوں کو چھپاتے اور عرب کے جاہلوں اور اپنے عامیوں کو شبہات میں ڈال کر گمراہ کرتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ ان چیزوں کو کہ جن کو ہم نے لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کردیا ہے ٗ چھپاتے ہیں اور ان کھلی کھلی باتوں اور ہدایت پر پردہ ڈالتے ہیں اور عالم کی روشنی کو بجھاتے ہیں تو ان پر خدا کی طرف سے اور تمام عالم کی طرف سے لعنت برستی ہے جس کا نتیجہ دنیا کی رسوائی اور بےبرکتی اور عالم آخرت کا عذاب ہے مگر جو لوگ اس فعلِ بد سے توبہ کرکے نیک بختی اور خدا کی امانت کا اظہار اختیار کرتے ہیں تو ہم بھی ان کو معاف کردیتے ہیں۔ ہاں جو اسی کفر میں دم اخیر تک رہتے ہیں اور اسی حالت میں اس عالم سے جاتے ہیں تو ان پر ہمیشہ خدا کی طرف سے اور ملائِ اعلیٰ کی طرف سے بلکہ عالم سفلی کی طرف سے لعنت برستی ہے کہ جس سے وہ اس عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ کبھی ان سے کم نہیں ہوگا اور نہ کوئی ان کو اس سے مہلت دلا سکے گا۔
Top