Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
رَبُّکَ
: تمہارے رب نے
لِلْمَلَائِکَةِ
: فرشتوں سے
اِنِّیْ
: میں
جَاعِلٌ
: بنانے والا ہوں
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
خَلِیْفَةً
: ایک نائب
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
اَتَجْعَلُ
: کیا آپ بنائیں گے
فِیْهَا
: اس میں
مَنْ يُفْسِدُ
: جو فساد کرے گا
فِیْهَا
: اس میں
وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ
: اور بہائے گا خون
وَنَحْنُ
: اور ہم
نُسَبِّحُ
: بےعیب کہتے ہیں
بِحَمْدِکَ
: آپ کی تعریف کے ساتھ
وَنُقَدِّسُ
: اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں
لَکَ
: آپ کی
قَالَ
: اس نے کہا
اِنِّیْ
: بیشک میں
اَعْلَمُ
: جانتا ہوں
مَا
: جو
لَا تَعْلَمُوْنَ
: تم نہیں جانتے
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ بیشک میں پیدا کرنے والا ہوں زمین میں خلیفہ، فرشتوں نے عرض کیا آپ پیدا فرمائیں گے زمین میں جو اس میں فساد کرے گا اور خونوں کو بہائے گا اور ہم آپ کی تسبیح بیان کرتے ہیں جو حمد کیساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے اور آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا بیشک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
(1) امام ابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ جہاں کہیں قرآن میں ” اذ “ ہے وہ معاملہ ہوچکا ہوتا ہے۔ (2) امام جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انی جاعل “ سے مراد ہے فاعل یعنی کرنے والا۔ (3) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ہر چیز قرآن میں ” جعل “ خلق (کے معنی میں) ہے یعنی پیدا کیا گیا۔ (4) امام وکیع، عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن لمنذر اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو ان کے پیدا کرنے سے پہلے جنت سے نکالا پھر (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ “۔ (5) امام حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکالا اس میں داخل کرنے سے پہلے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں لفظ آیت ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ قالوا اتجعل فیہا من یفسد فیہا ویسفک الدماء “ اور وہ (ابلیس) اس (جنت) میں عام جنات کی پیدائش سے دو ہزار سال سے پہلے جو جان کی اولاد ہے (کیونکہ جان سارے جنات کا باپ ہے) (مگر) جنات نے زمین میں فساد مچایا۔ اور خون بہائے جب انہوں نے زمین میں فساد کیا تو (اللہ تعالیٰ نے) ان پر فرشتوں کا ایک لشکر بھیجا جنہوں نے ان کی خوب پٹائی کی یہاں تک کہ ان کو سمندروں کے جزائر (کی طرف) بھگا دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ۔ قالوا اتجعل فیہا من یسفد فیہا ویسفک الدماء “ جیسا کہ ان جنات نے کیا (یہ انسان بھی ایسا کرے گا) (اس پر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” انی اعلم ما لا تعلمون (30) “ (میں زیادہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے) ۔ ابلیس کی پیدائش کس چیز سے ہوئی ؟ (6) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے اس طرح روایت کیا کہ ابلیس فرشتوں کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ سے ہے۔ ان کو جن کہا جاتا ہے ان کو فرشتوں کے درمیان سے آگ کی لو سے پیدا کیا گیا۔ اس کا نام حارث تھا جنت کے داروغوں میں ایک داروغہ تھا۔ تمام فرشتے اس قبیلے کے علاوہ نور سے پیدا کئے گئے۔ اور جن کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا گیا۔ اور وہ آگ کی زبان ہے جو آگ کی ایک جانب ہوتی ہے جب وہ بھڑک اٹھے سب سے پہلے زمین کے رہنے والوں میں جن تھے۔ انہوں نے اس میں فساد کیا۔ خون بہائے اور ان کے بعض نے بعض کو قتل کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ایک لشکر میں ان کی طرف ابلیس کو بھیجا۔ انہوں نے ان سے جنگ شروع کی یہاں تک کہ ان کو سمندروں کے جزیروں اور پہاڑوں کی طرف بگا دیا۔ جب ابلیس نے یہ کام کیا تو اپنے دل میں تکبر کیا اور کہنے لگا میں نے جو کام کیا وہ کسی نے نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل سے اس بات پر واقف ہوئے مگر فرشتے واقف نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا لفظ آیت ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ “ فرشتوں نے عرض کیا ” قالوا اتجعل فیہا من یفسد فیہا ویفسک الدماء “ (پھر) فرمایا میں ابلیس کے دل سے تکبر اور غرور پر مطلع ہوچکا ہوں کہ تم اس پر مطلع نہیں ہوئے۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) آدم (علیہ السلام) کی مٹی لانے کا حکم فرمایا تو وہ لائی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو لیس دار اور بدبو دار مٹی سے پیدا فرمایا وہ مٹی کے بعد سڑا ہوا گارا تھا اسی میں سے آدم کو اپنے ہاتھ سے بنایا پھر جسم کو چالیس راتیں پڑا رکھا۔ ابلیس اس کے پاس آکر اس کو اپنے پاؤں سے ٹھوکر مارتا تھا تو وہ چھینکتا اور آواز دیتا تھا۔ پھر اس کے منہ کے راستے اندر داخل ہو کر اس کی دبر سے باہر نکل آتا تھا۔ اور اس کی دبر سے اندر داخل ہو کر اس کے منہ سے نکل آتا تھا۔ پھر کہتا تھا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ تجھے کس لئے پیدا کیا گیا۔ اگر میں تجھ پر مسلط کردیا گیا تو ضرور تجھ کو ہلاک کردوں گا اور اگر تو مجھ پر مسلط ہوگیا تو میں ضرور تیری نافرمانی کروں گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر روح پھونکی اپنی روح میں سے تو وہ روح گزرتی گئی وہاں گوشت اور خون پیدا ہوتا گیا۔ جب روح ناف تک پہنچی تو انہوں نے اپنے جسم میں سے جس چیز کو دیکھا اس کو بہت پسند کیا۔ (پھر) انہوں نے کھڑے ہونے کوشش کی۔ مگر اس پر قادر نہ ہوئے اور اسی پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے لفظ آیت ” خلق الانسان من عجل “ (کہ انسان جلد بازی سے پیدا کیا گیا ہے) جب اس کے جسم میں روح پوری ہوگئی تو ان کو پھینک آئی۔ (اس پر) انہوں نے کہا لفظ آیت ” الحمدللہ رب الناس “ اللہ تعالیٰ کے الہام کی وجہ سے۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) ان فرشتوں سے فرمایا جو ابلیس کے ساتھ تھے خاص طور پر سوائے ان فرشتوں کے جو آسمانوں میں تھے۔ لفظ آیت ” اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس۔ انی واستکبر “ (سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا انکار اور تکبر کرتے ہوئے) جب اس کے دل میں تکبر پیدا ہوا تو کہنے لگا میں اس کو سجدہ نہیں کروں گا اور میں اس سے بہتر ہوں اور عمر میں بڑا ہوں اور پیدائش کے لحاظ سے زیادہ طاقتور ہوں۔ تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام خیر سے مایوس کردیا اور اس کو شیطان دھتکارا ہوا بنا دیا۔ (7) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے العظمہ میں ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بدھ کے دن پیدا فرمایا۔ اور جنات کو خمیس کے دن پیدا فرمایا۔ اور آدم (علیہ السلام) کو جمعہ کے دن پیدا فرمایا۔ جنات میں سے ایک قوم نے کفر کیا تو فرشتے ان کی طرف زمین میں اترے اور ان سے جنگ کی (کیونکہ) اس وقت خون ریزی اور فساد تھا زمین میں۔ (اس کا دیکھ کر) فرشتوں نے کہا تھا لفظ آیت ” اتجعل فیھا من یسفد فیہا ویسفک الدماء “۔ (کیا آپ زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتے ہیں جو فساد کرے اور خون بہائے) ۔ (8) امام ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آگ کو پیدا فرمایا تو فرشتے اس سے بہت زیادہ ڈر گئے۔ اور کہنے لگے اے ہمارے رب آپ نے اس کو کیوں پیدا فرمایا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس کے لئے جو میری مخلوق میں سے میری نافرمانی کرے گا اور اس دن فرشتوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اور مخلوق نہ تھی۔ فرشتے کہنے لگے اے ہمارے رب اور (کیا) ہمر پر وہ زمانہ آئے گا جس میں ہم تیری نافرمانی کریں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں میں زمین میں ایک مخلوق پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اس میں اپنا خلیفہ بناؤں گا وہ لوگ خون بہائیں گے اور زمین میں فساد کریں گے۔ فرشتوں نے عرض کیا لفظ آیت ” اتجعل فیہا من یفسد فیہا “ (کیا آپ اس میں ایسا خلیفہ بنائیں گے جو اس زمین میں فساد کرے گا) ۔ ہم کو خلیفہ بنا دیجئے کہ ہم اس میں (موجود) ہیں۔ لفظ آیت ” ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک “ اور ہم آپ کی حمد کے ساتھ آپ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، پاکی بیان کرتے ہیں۔ لفظ آیت ” قال انی اعلم مالا تعلمون “ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے) ۔ (9) امام ابن جریر اور ابن عساکر نے حضرت ابن مسعود اور دوسرے صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ مخلوق (پیدا کرنے) سے فارغ ہوئے جو وہ محبوب رکھتے تھے۔ (اس کے بعد) آپ عرش کی طرف متوجہ ہوئے اور ابلیس کو آسمان دنیا کی بادشاہی پر مقرر کردیا اور وہ فرشتوں کے اس قبیلہ میں سے تھا جس کو جن کہا جاتا تھا۔ ان کا نام جن اس لئے رکھا گیا کیونکہ وہ جنت کے دروغہ تھے۔ اور ابلیس اپنی بادشاہی کے ساتھ داروغہ بھی تھا۔ اس کے دل میں تکبر آگیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ مجھے دیا کیونکہ میرے اندر صلاحیت زیادہ تھی۔ اللہ تعالیٰ اس کے خیالات پر مطلع ہوئے تو فرشتوں سے فرمایا لفظ آیت ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ “ کہنے لگے اے ہمارے رب ” اتجعل فیہا من یفسدفیہا ویسفک الدماء ........ قال انی اعلم مالا تعلمون (30) “۔ (بےشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے) ۔ انسان کی تخلیق کی فرشتوں کو اطلاع (10) امام عبد حمید اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ” واذقال ربک للملئکۃ انی جاعل “ الآیۃ۔ کے بارے میں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا میں بشر کو پیدا کرنے والا ہوں۔ اور وہ آپس میں حسد کریں گے۔ ان کا بعض بعض کو قتل کرے گا اور وہ زمین میں فساد کریں گے اس لئے انہوں نے کہا لفظ آیت ” اتجعل فیہا من یفسد فیہا “ پھر ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ آسمان دنیا میں ابلیس فرشتوں پر امیر تھا۔ اس نے تکبر کیا اور معصیت اور نافرمانی کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے تکبر اور سرکشی کو جان لیا۔ اسی لئے یہ فرمایا لفظ آیت ” انی اعلم مالا تعلمون “ (بےشک جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے) ۔ کہ بلاشبہ ابلیس کے دل میں بغاوت ہے۔ (11) امام عبد حمید اور ابن جریر نے اس آیت کے تحت قتادہ (رح) سے روایت کیا یعنی لفظ آیت ” اتجعل فیہا من یفسد فیہا ویسفک الدماء “ کے بارے میں کہ فرشتوں نے جان لیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز خون بہانے اور زمین میں فساد پھلانے سے زیادہ ناپسندیدہ نہیں (اس لئے انہوں نے یہ کہا) ۔ (12) امام ابن المنذر اور ابن بطہ نے اپنی اماملی میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بچو تم اپنی رائے پر عمل کرنے سے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی رائے کو رد فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے جب فرمایا لفظ آیت ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ “ فرشتوں نے کہا ” اتجعل فیہا من یفسد فیہا ...... قال انی اعلم ما لا تعلمون “ (تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی بات رد کرتے ہوئے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے) ۔ (13) ابن ابی الدنیا نے کتاب التوبہ میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ فرشتوں نے سب سے پہلے لبیک کہا (جب) اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” انی اتجعل فی الارض خلیفۃ۔ قالوا اتجعل فیہا من یفسد فیہا ویسفک الدماء “ پھر فرمایا کہ انہوں نے اس (کہنے) میں زیادتی کی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی رائے سے اعراض فرمایا تو (اس پر) فرشتوں نے چھ سال عرش کا طواف کیا اور کہتے تھے لبیک لبیک ہم آپ کی طرف معذرت چاہتے ہیں لبیک ہم آپ سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور ہم آپ سے توبہ طلب کرتے ہیں۔ (14) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے ابن سابط ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا زمین مکہ مکرمہ سے پھیلائی گئی اور فرشتے بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور وہ پہلے طواف کرنے والے تھے۔ اور یہی زمین ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ “ اور کسی نبی کی جب قوم ہلاک ہوجاتی اور وہ نبی اور صالحین عذاب سے نجات پاتے تو سب لوگ مکہ میں آتے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے حتی کہ اس (زمین) میں مرجاتے۔ اور بلاشبہ نوح اور ہود اور شعیب اور صالح (علیہم السلام) کی قربیں زمزم اور رکن اور مقام کے درمیان ہیں۔ (15) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” نحن نسبح بحمدک ونقدس لک “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ” التسبیح “ سے مراد تسبیح ہے اور ” التقدیس “ سے مراد نماز ہے۔ (16) امام ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی اور نسائی نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب کلام وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے لئے چنا۔ سبحان ربی وبحمدہ اور دوسرے لفظ میں سبحان اللہ ونحمدہ ہے۔ (17) امام ابن جریر اور ابو نعیم نے الحلیہ میں سعد بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر خطاب ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے فرشتوں کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا کہ آسمان دنیا کے فرشتے قیامت تک سجدہ میں ہیں۔ اور کہہ رہے ہیں لفظ آیت ” سبحان ذی الملک والملکوت “ اور دوسرے آسمان کے فرشتے قیامت تک رکوع میں ہیں اور کہہ رہے ہیں ” سبحان ذی العزت والجبروت “۔ اور تیسرے آسمان کے فرشتے قیامت تک قیام میں ہیں اور کہہ رہے ہیں سبحان الحی الذی لایموت۔ (18) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن مسعود اور دوسرے صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ ” ونقدس لک “ سے مراد ہے ہم آپ کے لئے نماز پڑھتے ہیں۔ (19) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” التقدیس “ کا معنی ہے التطہیر یعنی پاکی۔ (20) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” ونقدس لک “ کا معنی ہے ہم تیری عظمت اور تیری بڑائی بیان کرتے ہیں۔ (21) عبد بن حمید اور ابن جریر نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک “ سے مراد ہے کہ (اے اللہ) ہم تیری عظمت اور تیری بزرگی بیان کرتے ہیں۔ (22) وکیع۔ سفیان بن عینیہ، عبد الرزاق، سعید بن منصور، عبد بن حمید اور ابن جریر (رح) فرماتے ہیں کہ لفظ آیت ” انی اعلم مالا تعلمون “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ابلیس کی معیت اور معصیت کے لئے اس کو پیدا کرنے کا علم تھا۔ (23) امام عبد حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انی اعلم مالا تعلمون “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ عنقریب اس خلیفہ میں سے انبیاء، رسل اور صالحین ہوں گے اور جنت میں رہنے والے (پیدا) ہوں گے۔ (24) امام ابن ابی شیبہ نے المصنف میں، احمد نے الزہد میں، ابن ابی الدنیا نے الامل میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم اور اس کی اولاد کو پیدا کیا تو فرشتوں نے عرض کیا اے ہمارے رب زمین (ساری اولاد آدم کی) گنجائش نہیں رکھتی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں موت کو (پیدا) کرنے والا ہوں فرشتوں نے عرض کیا پھر تو ان کی زندگی مزیدار نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں امید کو بھی (پیدا) کرنے والا ہوں (یعنی لمبی لمبی امیدوں کا تصور کرکے خوش رہیں گے) ۔ (25) امام احمد، عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا نے العقوبات میں ابن حبان نے اپنی صحیح میں بیہقی نے الشعب میں عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے زمین کی طرف اتارا تو فرشتوں نے کہا اے ہمارے رب لفظ آیت ” قالوا اتجعل فیہا من یفسد فیہا ویسفک الدماء، ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک، قال انی اعلم مالا تعلمون “ فرشتوں نے عرض کیا اے ہمارے رب ہم بنی آدم سے زیادہ آپ کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فرشتوں میں سے دو فرشتے لے آؤ میں ان دونوں کو زمین کی طرف اتاروں گا پھر ہم دیکھیں گے وہ کس طرح عمل کرتے ہیں ؟ فرشتوں نے کہا ہاروت اور ماروت (دونوں حاضر ہیں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا زمین کی طرف اتر جاؤ اور ان دونوں (کے امتحان) کے لئے زہرہ کو ایک خوبصورت عورت کی شکل میں بنا دیا گیا جو بشر کی سب سے اچھی صورتوں میں سے تھی۔ وہ ان کے پاس آئی تو ان دونوں نے اس سے اس کی ذات کے بارے میں سوال کیا۔ وہ کہنے لگی میں تمہارا سوال پورا نہیں کروں گا جب تک کہ تم دونوں ان شرک کے کلمات کو نہیں کہو گے۔ دونوں نے کہا اللہ کی قسم ہم اللہ کے ساتھ کبھی بھی شرک نہیں کریں گے۔ وہ عورت ان کے پاس سے چلی گئی پھر ایک بچے کو اٹھائے ہوئے آئی ان دونوں نے پھر اس سے قضائے شہوت کا سوال کیا۔ کہنے لگی میں تمہارے سوال کو پورا نہیں کروں گی اللہ کی قسم جب تک کہ تم اس بچے کو قتل نہیں کرو گے۔ کہنے لگے اللہ کی قسم ہم اس کو کبھی بھی قتل نہیں کریں گے پھر وہ چلی گئی اور شراب کا ایک پیالہ لے کر واپس آئی۔ ان دونوں نے پھر اپنی خواہش کا سوال کیا کہنے لگی اللہ کی قسم میں تمہارے سوال کو پورا نہ کروں گی جب تک تم اس شراب کو نہ پیو گے۔ چناچہ دونوں نے شراب کو پیا جب نشہ ہوا تو اس عورت پر واقع ہوگئے اور بچے کو بھی قتل کیا۔ جب ان کا نشہ ختم ہوا تو عورت نے کہا اللہ کی قسم تم نے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ پہلے تم نے دونوں کاموں کا مجھ پر انکار کیا تھا۔ پھر تم نے ان دونوں کاموں کو کرلیا جب تم نشہ میں مدہوش ہوئے۔ (اس جرم کے بعد) ان کو دنیا اور آخرت کے عذاب کا اختیار دیا گیا تو انہوں نے دنیا کے عذاب کو اختیار کیا۔ (26) ابن سعد نے طبقات میں، احمد، عبد بن حمید، ابو داؤد، ترمذی اور حکیم نے نوادر الاصول میں، ابن جریر، ابن المنذر، ابو الشیخ نے العظمہ میں حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو ایک مٹھی بھر مٹی سے پیدا فرمایا کہ اس کو ساری زمین میں سے لیا تھا۔ اس وجہ سے آدم کی اولاد مختلف شکلوں پر ہے۔ بعض اس میں سے (شکل و صورت میں) سرخ بعض سفید اور بعض کالے اور بعض گندمی رنگ ہیں۔ بعض نرم مزاج، بعض سخت مزاج، بعض بدنیت اور بعض نیک سیرت ہیں۔ کعبہ شریف کی تخلیق کا وقت (27) امام سعید بن منصور، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ کعبہ شریف کو زمین سے دو ہزار سال پہلے پیدا کیا گیا لوگوں نے پوچھا کعبہ شریف کو کیسے پہلے پیدا کیا گیا حالانکہ وہ تو زمین میں سے ہے۔ تو انہوں نے فرمایا ایک گول چھوٹا جزیرہ پانی پر تھا جس پر وہ فرشتے دو ہزار سال سے رات دن (اللہ کی) تسبیح بیان کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کے پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس جزیرہ میں سے اس کو پھیلا دیا اور کعبہ کو زمین کے درمیان میں کردیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو عرش اٹھانے والوں میں سے ایک فرشتے کو زمین سے مٹی لانے کو بھیجا۔ جب وہ نیچے اترا تاکہ مٹی لے آئے تو زمین کہنے لگی میں تجھ سے اس ذات کے واسطے سے سوال کرتی ہوں جس نے تجھ کو بھیجا ہے۔ کہ آج سے کوئی ایسی چیز نہ لے جس سے کل آگ کا حصہ ملے۔ (یہ سن کر اس فرشتے نے) اس کو چھوڑ دیا جب اپنے رب کے پاس واپس آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کس چیز نے تجھ کو روکا کہ تو اس کو لے آئے جو میں نے تجھ کو حکم دیا تھا۔ فرشتے نے عرض کیا اس نے مجھ سے آپ کے واسطے سے سوال کیا تو میرے لئے یہ مشکل معاملہ تھا کہ میں تیرے واسطے کو رد کردیتا کہ اس نے مجھ سے سوال کیا تھا آپ کے واسطے سے۔ (اللہ تعالیٰ نے) پھر دوسرے فرشتے کو بھیجا تو اس نے بھی اسی طرح آکر کہا جیسے پہلے فرشتے نے آکر کہا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سارے حاملین عرش کو بھیجا۔ مگر سب واپس آگئے۔ (کوئی بھی مٹی نہ لاسکا) پھر (اللہ تعالیٰ ) ملک الموت کو بھیجا زمین نے اس کو اسی طرح کہا ملک الموت نے کہا بلاشبہ وہ ذات جس نے مجھے بھیجا ہے تجھ سے اطاعت کی زیادہ حقدار ہے۔ اس نے زمین کے ہر حصہ سے مٹی لے لی۔ اس کے اچھے حصے سے خراب حصے سے۔ یہاں تک کہ ایک مٹھی کعبہ کی جگہ کے پاس سے بھی لے لی۔ مٹی لے کر اپنے رب کے پاس آئے۔ اس پر جنت کا پانی ڈالا گیا تو وہ سڑا ہوا گارا بن گیا۔ اس سے آدم (علیہ السلام) کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا۔ پھر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا اللہ کی ذات بہت برکت والی ہے جو سب سے اچھا پیدا کرنے والی ہے۔ پھر اس کو چالیس رات یونہی چھوڑ دیا اس میں روح کو نہیں پھونکا پھر اس میں روح کو پھونکا اور روح اس کے سر سے اس کے سینے کی طرف جاری ہوئی تو آدم (علیہ السلام) نے اٹھنے کا ارادہ کیا پھر ابوہریرہ ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ” خلق الانسان من عجل “ (انسان جلدی میں پیدا کیا گیا) جب اس (ڈھانچے) میں روح جاری ہوگئی تو (آدم علیہ السلام) اٹھ کر بیٹھ گئے اور چھینکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” الحمدللہ “ پڑھئے۔ انہوں نے الحمدللہ پڑھا تو (اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ” ترحمک اللہ “ تیرا رب تجھ پر رحمت کرے گا۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) حکم فرمایا ان فرشتوں کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو انہوں جا کر (فرشتوں سے کہا) السلام علیکم و (رح) وبرکاتہ فرشتوں نے جواب میں کہا وعلیک السلام و (رح) وبرکاتہ۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا یہ تیرے لئے اور تیری اولاد کا سلام ہے۔ (پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا) اے آدم تجھے کون سی جگہ پسند ہے تاکہ اس میں تجھے تیری اولاد کو دکھاؤں۔ عرض کیا میرے رب کے دائیں ہاتھ کی طرف اور میرے رب کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں (اللہ تعالیٰ نے) اپنے دائیں ہاتھ کو پھیلا دیا اور اس میں ان کی ساری اولاد کو دکھایا جو قیامت کے دن تک (اللہ تعالیٰ ) پیدا کرنے والے تھے ان کو صحت مند اپنی حالت پر (دکھایا) اور (کسی آزمائش میں) مبتلا ہونے والے کو اپنی حالت پر (دکھایا) اور سارے انبیاء کو اپنی ہیئت پر دکھا دئیے۔ آدم (علیہ السلام) نے عرض کیا اسے میرے رب کیا ان سب کو عافیت نہیں دے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ وہ میرا شکر کریں۔ (آدم (علیہ السلام) نے) اس میں ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا نور پھیلا ہوا تھا۔ عرض کیا اے میرے رب یہ کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تیرا بیٹا داؤد ہے پوچھا اس کی عمر کتنی ہے فرمایا ساٹھ سال۔ پھر پوچھا میری عمت کتنی ہے فرمایا ہزار سال عرض کیا میری عمر سے چالیس سال کم کر دیجئے اور اس کی عمر میں زیادہ کر دیجئے۔ پھر دوسرے آدمی کو دیکھا جس کا نور پھیلا ہوا تھا اس پر ایسا نور تھا جو کسی نبی پر نہیں تھا۔ عرض کیا اے رب یہ کون ہے فرمایا یہ تیرا بیٹھا محمد ﷺ ہے۔ اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے میری اولاد میں سے ایسے بلند مرتبہ والے لوگ پیدا فرمائے جو مجھ سے پہلے جنت میں جائیں گے اور میں اس پر حسد نہیں کرتا۔ جب آدم (علیہ السلام) کے چالیس سال کم ایک ہزار سال گزر گئے تو فرشتے روح قبض کرنے کے لئے سامنے آئے۔ تو آدم (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ فرشتوں نے کہا ہمارا ارادہ ہے کہ ہم آپ کی روح قبض کرلیں۔ انہوں نے فرمایا میری مدت میں سے چالیس سال باقی ہیں۔ فرشتوں نے کہا آپ نے اپنے بیٹے داؤد کو نہیں دئیے تھے ؟ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے کسی کو کچھ نہیں دیا۔ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا آدم (علیہ السلام) نے انکار کیا تو ان کی اولاد نے بھی انکار کیا اور وہ بھول گئے تو ان کی اولاد بھی بھول گئی۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق (28) امام ابن جریر، بیہقی نے الاسماء والصفات میں اور ابن عساکر نے حضرت ابن مسعود اور بعض صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو زمین کی طرف بھیجا تاکہ اس میں سے مٹی لے آئے زمین کہنے لگی میں تجھ سے اللہ کی پناہ لیتی ہوں کہ تو مجھ سے کمی کرے وہ واپس لوٹ گئے اور کچھ نہ لیا اور آکر عرض کیا اے میرے رب زمین نے آپ کی ذات کے ساتھ پناہ مانگی تھی میں نے اس کو پناہ دے دی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے میکائیل کو بھیجا۔ (وہ بھی ناکام لوٹے) پھر ملک الموت کو بھیجا زمین نے اس سے پناہ مابگی۔ ملک الموت نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ واپس لوٹ جاؤں اور اللہ کے حکم کو پورا نہ کروں انہوں نے زمین کے اوپر سے مٹی اٹھائی اور جلی مٹی اٹھائی ایک جگہ سے نہیں لی (بلکہ مختلف جگہوں سے لیا) سرخ، سفید، سیاہ مٹی میں سے۔ اسی لئے نبو آدم کی شکلیں اور مزاج مختلف ہیں۔ ملک الموت مٹی کو لے کر اوپر چڑھ گئے مٹی کو بھگو دیا یہاں تک کہ وہ لیس دار مٹی بن گئی اور ” لازب “ وہ مٹی ہے کہ اس کا بعض حصہ بعض کے ساتھ چپک جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا میں مٹی سے آدمی پیدا کرنے والا ہوں پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے دست قدرت سے اس کی تخلیق فرمائی تاکہ ابلیس اس پر تکبر نہ کرے۔ فرشتے اس کے پاس سے گزرتے اور اس کو دیکھ کر ڈرنے لگتے اور سب سے زیادہ ڈرنے والا ابلیس تھا اس سے گذرتا تھا تو اس کو ٹھوکر مارتا تھا۔ جسم سے آواز نکلتی تھی جیسے ٹھیکری آواز ہوتی ہے اور اس کی آواز ہوتی ہے۔ اور وہ کہتا تھا کس کام کے لئے پیدا کیا گیا اس کے منہ سے داخل ہو کر اس کی دبر سے باہر نکل آتا تھا اور فرشتوں سے کہنے لگا اس سے مت بھاگو بلاشبہ تمہارا رب بےنیاز ہے اور یہ اندر سے خالی ہے اگر اس پر مجھے مسلط کردیا گیا تو میں ضرور اس کو ہلاک کر دوں گا جب وہ وقت آپہنچا جس میں اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اس میں روح کو پھونکا جائے تو فرشتوں سے فرمایا جب اس میں روح پھونکی گئی اور وہ اس کے سر میں داخل ہوئی تو چھینک آگئی تو فرشتوں نے کہا الحمدللہ آدم (علیہ السلام) نے بھی کہا الحمدللہ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا ” یرحمک اللہ ‘ تیرا رب تجھ پر رحم فرما دے گا جب روح اس کی گردن میں داخل ہوئی تو کھانے کی خواہش ہوئی۔ اور کود پڑے جلدی کرتے ہوئے جنت کے پھلوں کی طرف پہلے اس سے کہ روح ان کے پاؤں تک پہنچے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے لفظ آیت ” خلق الانسان من عجل “ (انسان جلد باز پیدا کیا گیا) ۔ (29) امام ابن سعد نے طبقات میں، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حجرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رب العزت نے ابلیس کو بھیجا وہ زمین کی سطح سے مٹی لے آیا اس کے میٹھے حصے سے اور اس کے نمکین حصے سے۔ اس سے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا۔ ہر وہ شخص جس کو میٹھے حصہ سے پیدا فرمایا پس وہ سعادت کی طرف جائے گا اگرچہ کافروں کے بیٹے ہوں اور ہر وہ شخص جس کو نمکین حصہ سے پیدا فرمایا وہ بدبختی کی طرف جائے گا اگرچہ نبیوں کے بیٹے ہوں اسی لئے ابلیس نے کہا لفظ آیت ” قالء اسجد لمن خلقت طینا “ (کیا میں اس کو سجدہ کروں جس کو تو نے مٹی سے پیدا فرمایا) اس مٹی کو (سجدہ کروں) جس کو میں لایا ای لئے ان کا نام آدم رکھا گیا کیونکہ ان (کی مٹی) کو زمین کی سطح سے لیا گیا۔ (30) امام ابن جریر نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ آدم (علیہ السلام) زمین کی اوپر والی سطح سے پیدا کئے گئے اس میں اچھی بری اور ردی تمام قسم کے اجزاء تھے۔ اس وجہ سے آپ کی اولاد میں ہر قسم کے لوگ نظر آتے ہیں۔ (31) امام ابن سعد اور ابن عساکر نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا بلاشبہّ دم (علیہ السلام) تین قسم کی مٹی سے پیدا کئے گئے، سیاہ، سفید اور سرخ۔ (32) امام ابن سعد نے طبقات میں، عبد بن حمید، ابوبکر الشافعی نے الغیلانیات میں اور ابن عساکر نے حضرت سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو ایسی زمین سے پیدا فرمایا جس کو وحنا کہا جاتا ہے۔ (وحناء ایک سر زمین کا نام ہے) (33) امام طیالسی، ابن سعد، احمد، عبد بن حمید، مسلم، ابو یعلی، ابن حبان، ابو الشیخ نے العظمہ میں اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت انس ؓ سے رایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں آدم (علیہ السلام) کا جسم تیار فرمایا تو اسے کچھ مدت چھوڑے رکھا۔ ابلیس نے اس کے اردگرد گھومنا شروع کیا اور دیکھتا تھا یہ کیا ہے ؟ جب اس نے دیکھا کہ وہ اندر سے خالی ہے تو اس نے جان لیا کہ وہ (اس طرح سے) پیدا کیا گیا کہ وہ کسی چیز کا مالک نہیں اور ابو شیخ کے لفظ میں یوں ہے کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو مالک نہیں ہے میں اس پر کامیابی حاصل کروں گا۔ (35) ابن حبان نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) (کے جسد خاکی) میں روح کو پھونکا اور روح ان کے سر تک پہنچی تو ان کو چھینک آگئی اور کہا لفظ آیت ” الحمدللہ رب العلمین “ اللہ تعالیٰ نے (جواب میں) فرمایا ” یرحمک اللہ “۔ (36) امام بن حبان نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو ان کو چھینک آگئی۔ ان کے رب اللہ تعالیٰ نے ان کو الہام فرمایا کہ وہ الحمدللہ کہیں پھر ان کے رب نے (اس کے جواب میں) فرمایا ” ترحمک اللہ “ اسی لئے اس کی رحمت اس کے غصہ پر سبقت لے گئی۔ (37) حاکم نے حضر ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کو تخلیق سے فارغ ہوئے اور ان میں روح کو جاری فرمایا تو ان کو چھینک آگئی اور کہا الحمدللہ ان کے رب نے (اس کے جواب میں) فرمایا ترحمک ربک (تیرا رب تجھ پر رحم کرے گا) ۔ (38) امام ابن سعد، ابو یعلی، مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرمایا۔ پھر (اس میں پانی ملا کر) اس کو گارا بنا دیا۔ پھر اس کو یونہی چھوڑ دیا یہاں تک کہ جب وہ گارا سڑا ہوا بن گیا پھر اسے تخلیق فرمایا اور اسے صورت عطا فرمائی۔ پھر اس کو یونہی چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ بجنے لگا مانند ٹھیکری کے۔ اور ابلیس اس کے ساتھ گزرنے لگا اور کہنے لگا البتہ تحقیق یہ بڑے کام کے لئے پیدا کیو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی روح میں سے پھونکا۔ تو سب سے پہلے اس کی آنکھوں میں اور اس کی ناک کے بانسہ میں روح جاری ہوئی۔ ان کو چھینک آئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے رب کی حمد کرنے کی تلقین فرمائی اور انہوں نے الحمدللہ کہا اور رب تعالیٰ نے (جواب میں) فرمایا ” یرحمک اللہ “ تیرا رب تجھ پر رحم کرے گا۔ پھر فرمایا اے آدم اس جماعت کی طرف جاؤ اور ان کو سلام کہو اور دیکھو وہ کیا کہتے ہیں۔ آدم (علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان کو سلام کیا انہوں نے (جواب میں) کہا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ پھر اپنے رب کے پاس تشریف لائے تو اللہ جل شانہ نے پوچھا انہوں نے تجھ کو کیا کہا حالانکہ وہ زیادہ جاننے والے ہیں جو کچھ انہوں نے کہا تھا عرض کیا اے میرے رب ! میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے (جواب میں) کہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا اے آدم یہ سلام ہے تیرے لئے اور تیری اولاد کے لئے۔ عرض کیا اے میرے رب ! میری اولاد کیا ہے ؟ فرمایا میرے ہاتھ میں سے جس کو چاہے اختیار کر۔ عرض کیا میں نے اپنے رب کے داہنے ہاتھ کو اختیار کیا اور میرے رب کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلا یا پس اچانک جو ان کی اولاد میں ہونے والا تھا رحمن عزوجل کی ہتھیلی میں (موجود) تھا۔ (39) امام احمد، بخاری اور مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا اور ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے (ان سے) فرمایا ملائکہ کی جماعت کے پاس جاؤ اور ان کو سلام کرو اور سنو وہ کیا جواب دیتے ہیں بلاشبہ وہی تیرا اور تیری اولاد کا سلام ہے۔ آدم (علیہ السلام) ان کے پاس تشریف لے گئے اور کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ انہوں نے زیادہ کیا ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ہر وہ شخص جو جنت میں داخل ہوگا وہ آدم (علیہ السلام) کی صورت میں ساٹھ ہاتھ لمبا ہوگا۔ پھر مخلوق اس وقت سے اب تک چھوٹی ہوتی گئی۔ (40) امام ابن ابی شبیہ، احمد، ابن ابی الدنیا نے صفۃ الجنۃ میں طبرانی نے الکبیر میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اہل جنت، جنت میں داخل ہوں گے بن بال کے، بن داڑھی مونچ کے (رنگت) سفید، بال گھنگھریالے اور آنکھوں میں سرمہ لگائے ہوئے 33 سال کی عمر ہوگی۔ اور وہ آدم (علیہ السلام) کی صورت میں ساٹھ ہاتھ لمبے ساٹھ ہاتھ چوڑے ہوں گے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق جمعہ کے دن ہوئی (41) امام مسلم، ابو داؤد، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمہ کا دن ہے اسی دن میں آدم (علیہ السلام) پیدا فرمائے گئے۔ اسی دن جنت میں داخل کئے گئے۔ اسی دن جنت سے نیچے اتارے گئے اور اسی دن ان کی وفات ہوئی اور اسی دن ان کی توبہ قبول ہوئی اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ (42) امام ابو الشیخ نے العظمہ میں ابو نضرہ (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو اس کے جسم کو آسمان میں بغیر روح کے ڈال دیا جب فرشتوں نے اس کو دیکھا تو اس کی پیدائش کو دیکھ کر ڈر گئے پھر ابلیس اس کے پاس آیا۔ پھر مزید قریب ہوا اور اپنے پاؤں سے اس کو ٹھوکر ماری تو آدم (علیہ السلام) (کے مجسمہ) سے بجنے کی آواز آئی کہنے لگا یہ اندر سے خالی ہے اس کے پاس کوئی چیز نہیں۔ (43) امام ابو الشیخ نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو آسمان دنیا میں پیدا فرمایا۔ اور اس کو آسمان دنیا کے فرشتوں نے سجدہ کیا اور دوسرے آسمانوں کے فرشتوں نے سجدہ نہیں کیا۔ (44) امام ابو الشیخ نے صحیح سند کے ساتھ ابن زید ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ایک فرشتہ کو بھیجا اور زمین اس دن کشادہ تھی اس سے فرمایا کہ میرے لئے اس (زمین) میں سے ایک مٹھی (مٹی) لے آ۔ میں اس سے ایک مخلوق پیدا کروں گا (فرشتہ جب مٹی لینے کے لئے آیا) تو زمین کہنے لگی میں اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ساتھ تجھ سے پناہ مانگتی ہوں اس بات سے کہ تو آج کے دن مجھ سے ایک مٹھی (مٹی) لے جائے تاکہ اس سے ایک مخلوق پیدا کی جائے اور اس میں سے جہنم کے لیے بھی ایک حصہ بنے۔ فرشتہ اوپر کو چڑھ گیا اور اس میں سے کچھ بھی نہ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تجھ کو کیا ہوا ؟ (کیوں مٹی نہ لی) اس نے عرض کیا زمین نے آپ کے ناموں کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگی کہ میں اس میں سے ایسی مخلوق کے لئے مٹی لے لوں جس میں سے جہنم کے لئے بھی حصہ ہو پس یہ سن کر مجھے تو تجاوز کی ہمت نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرا فرشتہ بھیجا جب وہ زمین پر آیا تو زمین نے اس سے بھی وہی کہا جو پہلے فرشتہ سے کہا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تیسرے فرشتے کو بھیجا زمین نے وہی کہا جو پہلے والے دونوں فرشتوں سے کہا تھا وہ بھی اوپر چڑھ گیا اور اس میں کچھ بھی نہ لیا۔ اس کو بھی رب تعالیٰ نے وہی فرمایا جو اس سے پہلے دونوں کو فرمایا تھا۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) ابلیس کو بلایا ان دنو اس کا نام فرشتوں میں حیات تھا۔ اس سے فرمایا تو جا اور زمین میں سے ایک مٹھی لے آ وہ گیا یہاں تک کہ اس (زمین) پر آیا تو زمین نے اس سے وہی بات کہی جو اس سے پہلے فرشتوں سے کہی تھی۔ اس نے اس میں سے ایک مٹھی لے لی اور زمین کی کچھ نہ سنی۔ جب وہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا اس (زمین) نے میرے ناموں کے ساتھ تجھ سے پناہ نہ مانگی تھی ؟ عرض کیا کیوں نہیں (مانگی تھی) ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا وہ میرے ناموں میں سے نہ تھے کہ جس سے اس نے تجھ سے پناہ مانگی تھی ؟ عرض کیا کیوں نہیں۔ لیکن آپ نے مجھ کو حکم فرمایا تھا اس لئے میں نے آپ کی اطاعت کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں ضرور پیدا کروں گا اس میں سے ایک مخلوق کو جو تیرے چہرے کو برا کر دے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کو جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں ڈال دیا وہ گوندھی ہوئی مٹی بن گئی۔ یہ پہلے گوندھی ہوئی مٹی تھی پھر اس کو چھوڑ دیا تو وہ بدبورار سیاہ مٹی بن گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے آدم (علیہ السلام) کے جسم کو بنایا پھر اس کو چالیس سال جنت میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ بجنے والی مٹی بن گئی مانند ٹھیکری کے وہ خشک ہوگئی یہاں تک کہ ٹھیکری کی طرح ہوگئی۔ پھر اس کے بعد اس میں روح پھونکی اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی کہ جب میں روح پھونک دوں تو اس کے لئے سجدہ میں گر جانا اور آدم (علیہ السلام) جنت میں چت لیٹے ہوئے تھے۔ اور اٹھ کر بیٹھ گئے جب روح کو محسوس کیا پھر چھینک ماری۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اپنے رب کی حمد بیان کرو (کہا الحمدللہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا یرحمل اللہ (تیرا رب تجھ پر رحم کرے گا) اسی وجہ سے کہا جاتا ہے اس کی رحمت اس کے غصہ پر سبقت کرگئی۔ اور سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر وہ جو کھڑا رہا (سجدہ نہ کیا) اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھے کس چیز نے منع کیا کہ تو سجدہ نہ کرے جب تجھ کو میں نے حکم کیا تھا تو نے تکبر کیا یا تو سرکشی کرنے والوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ وہ (ابلیس) اپنا مکر اللہ کے سامنے نہیں چلا سکتا جو وہ اپنے دوسرے ساتھیوں پر چلاتا ہے۔ کہنے لگا لفظ آیت ” قال انا خیر منہ، خلقتنی من نار وخلقتہ من طین “ ” قال فاھبط منھا فما یکون لک ان تتکبر فیہا “ الی قولہ ” ولا تجد اکثرھم شکرین “ (الاعراف آیت 17) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لفظ آیت ” ولقد صدق علیہم ابلیس ظنہ “ (سبا، آیت 20) اور تحقیق سچ کر دکھایا ان پر شیطان نے اپنا گمان اور اس کا گمان یہ تھا کہ وہ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔
Top