Dure-Mansoor - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ : اور سکھائے آدَمَ : آدم الْاَسْمَآءَ : نام كُلَّهَا : سب چیزیں ثُمَّ : پھر عَرَضَهُمْ : انہیں سامنے کیا عَلَى : پر الْمَلَائِکَةِ : فرشتے فَقَالَ : پھر کہا اَنْبِئُوْنِیْ : مجھ کو بتلاؤ بِاَسْمَآءِ : نام هٰٓؤُلَآءِ : ان اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھا دیئے سارے نام، پھر ان کو فرشتوں پر پیش فرمایا، پھر فرمایا کہ مجھے بتادو ان چیزوں کے نام اگر تم سچے ہو
(1) امام الفریابی، ابن سعد، ابن جریر، ابن ابی حاتم، حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم اس لئے نام رکھا گیا کیونکہ وہ سطح زمین سے پیدا کئے گئے جس میں سرخ سفید اور سیاہ اجزاء تھے۔ اسی وجہ سے لوگوں کے رنگ بھی مختلف ہیں ان میں سرخ، سفید، سیاہ، اچھے اور برے (سب) ہیں۔ (2) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو سطح زمین سے پیدا فرمایا۔ سرخ، سفید اور کالی مٹی سے۔ آدم کی وجہ تسمیہ (3) ابن سعد، عبد بن حمید اور ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ تم جانتے ہو آدم کیوں نام رکھا گیا اس لئے کہ سطح زمین سے پیدا کئے گئے۔ (4) ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلم ادم الاسماء کلھا “ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیالہ ہانڈی اور ہر چیز کا نام سکھا دیا یہاں تک کہ پھسکی یا پاد (یعنی وہ ہوا جو دبر کے راستے سے خارج ہوتی ہے) اس کا نام بھی بتادیا، اور گندگی کے کپرے کا نام بھی بتادیا۔ (5) امام وکیع اور ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلم ادم الاسماء کلھا “ سے مراد یہ ہے کہ (اللہ تعالیٰ نے) ان کو ہر چیز کا نام سکھا دیا یہاں تک کہ پیالہ، پلیٹ، اور پھسکی اور غلیظ کیڑے کا نام بھی بتادیا۔ پھسکی وہ ہوا ہے جو دبر سے تھوڑی سی اور بغیر آواز کے خارج ہوتی ہے اور پاد وہ ہوا ہے جو دبر سے زیادہ مقدار میں اور آواز کے ساتھ خارج ہوتی ہے۔ (6) امام وکیع اور ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلم اسم الاسماء کلھا “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر چیز کے نام سکھا دئیے یہاں تک کہ اونٹ، گائے اور بکری (کے نام بھی) ۔ (7) عبد بن حمید اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلم ادم الاسماء کلھا “ سے مراد ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا (ان سب کے نام سکھا دئیے) ۔ (8) امام دیلمی نے ابو رافع ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے لئے میری امت کی مٹی اور پانی میں مثال پیش کی گئی۔ میں نے بھی وہ تمام اسماء جان لئے جیسے آدم (علیہ السلام) نے جان لئے تھے۔ (9) وکیع نے تاریخ میں ابن عساکر اور دیلمی نے عطیہ بن یسر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلم ادم الاسماء کلھا “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ نے ان ناموں میں سے ہزار پیشوں کے نام بھی بتا دئیے ذریت سے کہو اگر تم دنیا (اس کی طلب) سے صبر نہ کرو تو دنیا کو ان پیشوں کے ذریعہ طلب کرو اور اس کو دین کے ذریعہ طلب نہ کرو کیونکہ دین مجھ اکیلے کے لئے خالص ہے۔ ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو دنیا کو دین کے ذریعہ طلب کرتا ہے بربادی ہے اس کے لئے۔ (10) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلم ادم الاسماء کلہا “ کہ اسماء سے مراد تمام اولاد کے اسماء ہیں۔ ” ثم عرضہم “ یعنی پکڑے ان کو ان کی پیٹھ سے (یعنی آدم (علیہ السلام) کی پیٹھ میں سے ان کی ساری اولاد کو نکالا) ۔ (11) امام ابن جریر نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلم ادم الاسماء “ سے مراد ہے فرشتوں کے نام۔ (12) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلم ادم الاسماء “ سے مراد ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو اس کی (تمام) مخلوق کے نام سکھائے گئے پھر فرمایا جو فرشتے نہیں جانتے وہ بھی بتادیا۔ پس آدم (علیہ السلام) نے ہر چیز کا نام لیا اور ہر چیز کو اس کی جنس کی طرف منسوب کیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو ناموں کی تعلیم (13) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وعلم ادم الاسماء “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام نام سکھا دئیے اور یہ نام تھے جن کو لوگ آپس میں جانتے ہیں (جیسے) انسان، جانور، زمین، سمندر، نرم، پہاڑ اور گدھا اور اس قسم کی دوسری چیزیں اور اس کے علاوہ میں سے۔ لفظ آیت ” ثم عرضہم علی الملئکۃ “ یعنی ان سب چیزوں کے نام فرشتوں پر پیش کئے جو مخلوق کی قسموں میں سے آدم (علیہ السلام) کو سکھائے تھے۔ ” فقال انبؤنی “ یعنی مجھ کو بتاؤ ” ان کنتم صدقین “ اگر تم جانتے ہو تو میں (پھر) زمین میں خلیفہ نہیں بناؤں گا۔ ” قالوا سبحنک “ اللہ کے لئے پاکی بیان کرتے ہوئے اس بات سے کہ ان کے علاوہ کوئی غیب کو نے ہم تیری بارگاہ میں رجوع کرتے ہیں۔ ” لاعلم لنا “ ہمیں اس طرح کا علم نہیں ہے جیسے تو نے آدم (علیہ السلام) کو سکھایا۔ غیب کے علم سے برأت ظاہر کرتے ہوئے ” الا ما علمتنا “ جیسے آپ نے آدم (علیہ السلام) کو سکھایا (اس کا ہم کو علم نہیں) ۔ (14) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” ثم عرضہم “ سے مراد ہے پھر نام والوں کو فرشتوں پر پیش کیا گیا۔ (15) امام ابن جریر نے حضرت مجاہد کے واسطے سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمانے لگے فرشتوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ جس مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے جو ہم سے زیادہ عزت والی ہوگی اور نہ ہم سے زیادہ جاننے والی ہوگی۔ پس اس وجہ سے وہ آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے ذریعہ آزمائش میں ڈالے گئے۔ (16) امام ابن جریر نے قتادہ اور حسن (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمانے لگے تو فرشتوں نے آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کیں اور کہنے لگے اللہ تعالیٰ ہرگز ایسی مخلوق کو پیدا نہیں فرمائیں گے جو اس کے نزدیک ہم سے زیادہ عزت والی ہو اور ہم سے زیادہ علم رکھتی ہو۔ جب (اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو) پیدا فرما دیا تو فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو کہنے لگے کہ (اللہ تعالیٰ نے) آدم (علیہ السلام) کو ہم پر فضیلت دی ہے اور انہوں نے جان لیا کہ وہ اس سے بہتر نہیں ہیں کہنے لگے اگر ہم اس سے بہتر ہوئے تو ہم اس سے زیادہ جاننے والے ہیں اس لئے کہ ہم اس سے (پیدائش میں) پہلے ہیں لفظ آیت ” وعلم ادم الاسماء کلہا “ (پھر آدم (علیہ السلام) کو سارے نام سکھا دئیے) یعنی ہر چیز کا نام انہوں نے جان لیا۔ ہر چیز کا نام رکھ دیا، گنا اور پھر ان کو ایک امت (یعنی فرشتوں) پر پیش کیا گیا (اسی کو فرمایا) ” ثم عرضہم علی الملئکۃ، فقال انبؤنی باسماء ھولاء ان کنتم صدقین “ پھر (جب نام نہ بتاسکے) تو پھر توبہ کی طرف گھبرائے اور کہنے لگے لفظ آیت ” سبحنک لاعلم لنا “ (اے اللہ آپ کی ذات پاک ہے ہم نہیں جانتے) ۔ (17) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انک انت العلیم الحکیم “ میں العلیم سے مراد ہے وہ ذات جو اپنے علم میں کامل ہو اور ” الحکیم “ سے مراد وہ ذات ہے جو اپنے حکم میں کامل ہو۔ (18) امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود اور بعض صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ ” ان کنتم صدقین “ سے مراد ہے (اگر تم اس بات میں سچے ہو) کہ بنی آدم زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے۔ اور لفظ آیت ” واعلم ما تبدون “ سے مراد ان کا یہ قول ہے۔ لفظ آیت ” قالوا اتجعل فیہا من یفسد فیہا “ اور ” وما کنتم تکتمون “ یعنی جو ابلیس نے اپنے دل میں تکبر کو چھپایا (اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں) ۔ (19) امام عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واعلم ما تبدون وما کنتم تکتمون “ سے مراد ہے کہ جو ابلیس نے (اپنے دل میں) سجدہ کرنے سے انکار کو چھپایا ہوا تھا (اللہ تعالیٰ اس کو بھی جانتے تھے) ۔ (20) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واعلم ما تبدون “ سے مراد ہے کہ جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (اور) ” وما کنتم تکتمون “ سے مراد ہے کہ میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہوں جس طرح علانیہ باتوں کو جانتا ہوں۔ (21) امام ابن جریر نے حضرت قتادہ و حسن (رح) سے روایت کیا کہ (اللہ تعالیٰ کا) یہ فرمانا ” ما تبدون “ سے مراد ان کا قول لفظ آیت ” قالوا اتجعل فیہا “ ہے۔ اور ” وما کنتم تکتمون “ سے مراد ہے یعنی ان کے بعض کا بعض کو یہ کہنا کہ ہم اس (آدم) سے بہتر ہیں اور زیادہ جاننے والے ہیں۔ فرشتوں کی مخفی بات (22) عبد بن حمید اور ابن جریر نے مہدی بن میمون (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حسن (رح) سے سنا کہ انہوں نے حسن بن دینار (رح) سے پوچھتے ہوئے کہا اے ابو سعید (یہ ان کی کنیت ہے) کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں بتائے جو انہوں نے فرشتوں سے فرمایا لفظ آیت ” واعلم ما تبدون وما کنتم تکتمون “ کون سی چیز فرشتوں نے چھپائی ؟ انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو فرشتوں نے عجب مخلوق دیکھی گویا کہ ان کے ذہنوں میں کچھ خیال آیا وہ ایک دسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے بعض نے کہا کہ تم اس مخلوق سے کیوں پریشان ہو اللہ تعالیٰ ہم سے (بڑھ کر) کوئی عزت والی مخلوق پیدا نہیں کرے گا۔ یہی بات تھی جو انہوں نے (دلوں میں) چھپا رکھی تھی۔
Top